دینی مدارس: درپیش چیلنجز اور موزوں حکمت عملی

   
تاریخ : 
۱۹ مارچ ۲۰۰۶ء

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے تعاون سے دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے ’’دینی مدارس: تشخص اور ادارتی نشوونما‘‘ کے عنوان سے دس روزہ تربیتی پروگرام چل رہا ہے، اس کا آغاز ۱۱ مارچ کو ہوا اور ۲۰ مارچ تک جاری رہے گا۔ مختلف مکاتب فکر کے دینی مدارس کے اساتذہ اس میں شریک ہیں اور ممتاز ارباب فکر و دانش انہیں اپنے تجربات اور افکار سے آگاہ کر رہے ہیں۔ مجھے بھی اس میں اساتذہ کے سامنے کچھ گزارشات پیش کرنے کی دعوت دی گئی اور میں نے ۱۲ مارچ کو دو نشستوں میں ’’دینی مدارس: درپیش چیلنجز اور موزوں حکمت عملی‘‘ اور ’’دینی مدارس: روایت، تحقیق اور فن تحقیق‘‘ کے عنوانات پر معروضات پیش کیں جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

دینی مدارس کا موجودہ معاشرتی کردار

دینی مدارس کو درپیش چیلنجوں پر گفتگو سے پہلے مدارس کے موجودہ معاشرتی کردار اور دائرہ کار پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ہم ان چیلنجوں کا صحیح طور پر ادراک کر سکیں گے جو دینی مدارس کے اس موجودہ نظام اور نیٹ ورک کو درپیش ہیں۔ جنوبی ایشیا کے تناظر میں یہ دینی مدارس جداگانہ تشخص اور مکمل خودمختاری کے ساتھ ایک وسیع نیٹ ورک کی صورت میں گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے جو کردار ادا کر رہے ہیں اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

  1. قرآن و سنت اور ان سے متعلقہ علوم کی حفاظت، ان کی تعلیم و تدریس کے تسلسل اور انہیں اگلی نسل تک صحیح حالت میں پہنچانے کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں کا وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات یعنی قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے ساتھ رابطہ قائم کرنا ان مدارس کا بنیادی ہدف اور کردار ہے۔
  2. مسلم معاشرے میں مسجد اور مکتب کا ادارہ قائم رکھنے کے لیے یہ مدارس رجال کار فراہم کر رہے ہیں۔ کسی جگہ بھی مسجد کا نظام چلانے اور دینی تعلیم کا مکتب قائم کرنے کے لیے مؤذن، امام، قاری، خطیب، مدرس اور مفتی حضرات کی درجہ بدرجہ ضرورت ہوتی ہے تو یہ افراد تعلیم یافتہ صورت میں ان مدارس سے فراہم ہوتے ہیں، ان کے سوا ان افراد کی تیاری اور فراہمی کا کام کسی اور جگہ نہیں ہوتا۔
  3. یہ مدارس مسلمانوں کا نظریاتی اور ثقافتی حصار ہیں۔ عقیدے و ثقافت کے حوالے سے کہیں سے بھی حملہ ہو اور اسلامی عقائد اور ثقافت و روایات کے خلاف کسی جانب سے بھی آواز اٹھے یہ مدارس اس کے مقابلے میں سدِ راہ بنتے اور دفاع میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ مدارس کا یہی کردار آج کے عالمی استعمار کو کھٹکتا ہے اس لیے کہ مسلم معاشرے میں مغربی ثقافت کے نفوذ اور استعماری تسلط کے استحکام میں مدارس کا یہ رول سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس لیے ان مدارس کی کردار کشی اور ان کے کردار کو ختم کرنے، محدود کرنے یا دیگر قومی شعبوں میں ضم کر کے تحلیل کر دینے کی مسلسل کوشش ہوتی رہتی ہے۔

دینی مدارس کو درپیش خارجی چیلنجز

اس پس منظر میں دینی مدارس کو آج کے حالات میں درپیش چیلنجوں کا جائزہ لیا جائے تو ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک چیلنج وہ ہے جو انہیں خارج سے درپیش ہے اور وہ دوعملی صورتوں میں ہے۔

پہلے نمبر پر ان کے وجود کے جداگانہ تشخص اور آزادانہ کردار کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ عالمی اور ملکی سطح پر مقتدر طبقات ایک مدت سے اس تگ و دو میں ہیں کہ ان مدارس کا وجود اپنی موجودہ کیفیت کے ساتھ قائم نہ رہے۔ یا تو ریاستی انتظام کے دائرے میں لا کر اجتماعی دھارے میں شامل کرنے کے خوبصورت لیبل کے ساتھ انہیں ان کے جداگانہ دینی تعلیمی تشخص سے محروم کر دیا جائے، اور یا جدید علوم بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی کو نصاب میں شامل کرنے کے بہانے خالص دینی تعلیم کے نصاب کو تحلیل کر دیا جائے۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کا یہ آزادانہ کردار بھی باقی نہ رہنے دیا جائے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام و نصاب کے تعین کے ساتھ ساتھ مالیاتی اور انتظامی طور پر بھی مکمل حیثیت سے خودمختار ہیں اور کسی کی مداخلت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مدارس کے اس جداگانہ تشخص اور مالیاتی و انتظامی خودمختاری کے کچھ نقصانات بھی ہوں گے جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم معاشرے میں دینی مدارس کے کردار کے جن تین پہلوؤں کا ہم نے تذکرہ کیا ہے اس کردار کے مؤثر اور نفع بخش ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی جداگانہ تشخص اور آزادانہ کردار ہے۔ اس سے محروم ہو کر دینی مدارس اپنا وہ کردار باقی نہیں رکھ سکیں گے جو گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے ان کا امتیاز چلا آرہا ہے۔

خارجی طور پر دینی مدارس کو درپیش دوسرا بڑا چیلنج عالمی میڈیا اور ذرائع ابلاغ ہیں۔ ان کی کردارکشی کی مہم ہے جو منظم اور مربوط طور پر چلائی جا رہی ہے اور مدارس کی ایسی مکروہ تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جا رہی ہے جو حقیقت کے منافی اور انتہائی نفرت انگیز ہے۔ انہیں قرون مظلمہ اور ظلم و تشدد کے اس تاریک دور کے پس منظر میں دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے جب یورپ میں بادشاہ اور جاگیردار کی حکمرانی تھی اور عام آدمی غلاموں سے بھی بدتر جانوروں جیسی زندگی بسر کر رہا تھا۔ بادشاہ اور جاگیردار کے اس ظلم و جبر میں مذہبی ادارے اور شخصیات عام مظلوم لوگوں کا ساتھ دینے کی بجائے بادشاہ کے طرفدار اور جاگیردار کے پشت پناہ بنے ہوئے تھے۔ عالمی میڈیا دینی مدارس کی غلط تصویر پیش کر کے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ دینی مدارس وہی تاریک دور واپس لانا چاہتے ہیں اور اس دور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات قطعی طور پر غلط اور تاریخی حقائق کے منافی ہے۔ اس حوالے سے میں مغرب والوں سے عرض کیا کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اگر مذہب سے دستبردار ہونا پڑا تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ قرون مظلمہ میں بادشاہ اور جاگیردار کے وحشیانہ مظالم میں مذہب ان کا ساتھی تھا اور سرکردہ مذہبی شخصیات ان ظالموں کی پشت پناہ تھیں۔ اسی طرح جب سائنس نے ارتقاء اور پیشرفت کا آغاز کیا تو مذہب اس کے خلاف فریق بن گیا اور سائنس دانوں پر کفر و الحاد کے فتوے جاری کرنے شروع کر دیے۔

اس پس منظر میں مغرب کی مذہب سے دستبرداری سمجھ میں آتی ہے لیکن ہمارا پس منظر یہ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو مذہب اور مذہبی شخصیات نے جبر و ظلم کا ساتھ دینے کی بجائے ہمیشہ دلیل اور حق کا ساتھ دیا ہے اور اس حوالے سے علماء کرام کی قربانیوں، شہادتوں اور قید و بند کی صعوبتوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ہمارے ہاں مذہب اور مذہبی اداروں نے سائنس کی راہ میں کبھی مزاحمت کی دیوار کھڑی نہیں کی بلکہ یورپ کی موجودہ سائنسی ترقی اسی مسلم اسپین کے تعلیمی اداروں کی رہین منت ہے جس نے یورپ کو آزادی اور سائنسی ترقی و ارتقاء کا راستہ دکھایا مگر خود میدان جنگ میں شکست کھا کر پیشرفت کی صلاحیت سے محروم ہوگیا۔ اس پس منظر میں یہ ایک سنجیدہ علمی و فکری سوال ہے کہ یورپ اپنا فیصلہ ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کیوں کر رہا ہے اور اپنا تاریک ماضی دکھا کر ہمیں اپنے روشن ماضی سے دستبردار ہونے پر مجبور کیوں کر رہا ہے؟ بہرحال دینی مدارس کو ایک چیلنج عالمی سطح پر یہ بھی درپیش ہے کہ انہیں عالمی میڈیا اور لابنگ کے ادارے یورپ کے قرون مظلمہ کے پس منظر میں ظلم اور جہالت کے نمائندے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اس طرح دینی مدارس کو اپنے جداگانہ تشخص اور آزادانہ کردار کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اپنے امیج کو صحیح کرنے اور اپنی تصویر کو عالمی سطح پر بہتر بنانے کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔

دینی مدارس کو درپیش داخلی چیلنجز

یہ دو چیلنج ہیں جو دینی مدارس کو خارج کی طرف سے درپیش ہیں۔ اب میں داخلی صورتحال کی طرف آنا چاہوں گا کہ اپنے داخلی نظام اور ترجیحات کے حوالے سے بھی دینی مدارس کے موجودہ نظام کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے جن کی طرف سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے۔

اس سلسلہ میں سب سے پہلے میں اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ دینی مدارس کے موجودہ نظام اور نیٹ ورک کے اصل اہداف جن کا اوپر تذکرہ کیا جا چکا ہے تحفظاتی و دفاعی ہیں اور مدارس ابھی تک اسی دائرے میں محصور رہنے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں۔ جبکہ عام مسلمان ان مدارس سے بہت سے ایسے کاموں کی توقع بھی کر رہے ہیں جن کا تعلق تحفظاتی اور دفاعی دائرے سے ہٹ کر اقدامی اور پیش رفت کے دائروں سے ہے۔ اس پر کچھ عرض کرنے سے پہلے میں اس کی وجہ بتانا چاہوں گا کہ لوگ مدارس سے ان کے طے کردہ دائروں سے ہٹ کر مزید کاموں اور کارکردگی کا تقاضا آخر کیوں کر رہے ہیں؟ میرے نزدیک اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ چونکہ دینی مدارس نے اپنے ذمے جو کام لیا تھا اس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے ہیں، مثلاً مسجد کے نظام کو باقی رکھنے کے لیے امام، خطیب، مدرس اور قاری و حفاظ حضرات کی تیاری اور فراہمی کی صورتحال دیکھ لیجئے۔ پورے جنوبی ایشیا میں کہیں بھی ایسی صورت نظر نہیں آئے گی کہ مسجد بن گئی ہے لیکن امام اور خطیب نہیں مل رہے، مکتب قائم ہے مگر حافظ و قاری دستیاب نہیں، مدرسہ قائم ہے مگر مدرس اور مفتی تلاش کرنے میں دقت پیش آرہی ہے۔ ایسا آپ کو کہیں بھی دکھائی نہیں دے گا بلکہ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہم تو اس معاملے میں بہت بڑے ایکسپورٹر ہیں اور دنیا بھر کو یہ مال سپلائی کر رہے ہیں۔ آپ دنیا کے کسی بھی براعظم میں چلے جائیں آپ کو پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے دینی مدارس سے تعلیم یافتہ حافظ، قاری، امام، خطیب اور مدرس ضرور ملیں گے۔ حتیٰ کہ عالم اسلام کے مرکز حرمین شریفین میں بھی آپ کو قرآن کریم پڑھانے والے قاری حضرات زیادہ تر پاکستانی مدارس کے تعلیم یافتہ ہی ملیں گے۔ اس ’’مارکیٹ‘‘ میں عالمی سطح پر ان دینی مدارس کو اگر اجارہ داری نہیں تو برتری ضرور حاصل ہے۔ دینی مدارس اپنی فیلڈ میں چونکہ پوری طرح کامیاب نظر آرہے ہیں اس لیے زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ان سے ہی توقع کی جا رہی ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور جو کام انہوں نے اپنے اہداف میں شامل نہیں کر رکھے انہیں بھی اپنے دائرہ کار میں لائیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی گھرانے کے دوچار نوجوانوں میں اگر ایک نوجوان کام کاج میں تیز ہو اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں مستعد ہو تو سارے کاموں کی توقع اسی سے وابستہ کر لی جاتی ہے اور گھر والوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ سارے کام وہی کرے۔ اسے ’’کاما پتر‘‘ سمجھا جاتا ہے اور گھر کے سارے افراد اسی سے اپنے کاموں کی بجا آوری کی خواہش رکھتے ہیں۔

مجھ سے بسا اوقات دوست پوچھتے ہیں کہ ہم سے ان کاموں کی توقع آخر کیوں کی جاتی ہے جو ہمارے پروگرام اور اہداف کا حصہ نہیں ہیں۔ میں ان سے عرض کیا کرتا ہوں کہ ہر گھر میں ’’کامے پتر‘‘ کا یہی حال ہوتا ہے اور ہمیں اس بات پر ناراض ہونے کی بجائے خوش ہونا چاہیے کہ یہ توقعات اور خواہشات دراصل دینی مدارس کی کارکردگی پر قوم کے اعتماد کا اظہار ہیں۔ مثلاً دینی مدارس سے بہت سے دوستوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کیوں نہیں دیتے حالانکہ انہیں خود بھی معلوم ہے کہ یہ مضامین دینی مدارس کے اہداف کا حصہ نہیں ہیں کیونکہ دینی مدارس کے اہداف متعین ہیں: (۱) دینی علوم کی حفاظت ہو اور وہ اصلی حالت میں اگلی نسل تک منتقل ہوں۔ (۲) عام مسلمان کا قرآن و سنت اور دینی تعلیمات کے ساتھ رابطہ قائم رہے۔ (۳) مسلمانوں کے عقائد اور ثقافت کا تحفظ ہو۔ (۴) اور مسجد و مکتب کا ادارہ باقی رکھنے کے لیے انہیں ضرورت کے مطابق تربیت یافتہ حضرات فراہم ہوتے رہیں۔ اس کے علاوہ دینی مدارس کے اہداف میں کوئی مقصد شامل نہیں ہے جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے الگ سے ادارے موجود ہیں، بجٹ موجود ہے، وسائل میسر ہیں اور رجال کار موجود ہیں۔ لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی میں قوم کے پیچھے رہ جانے کے بارے میں ان ذمہ دار اداروں سے باز پرس کرنے کی بجائے سارا غصہ دینی مدارس پر نکالا جاتا ہے اور سارے مطالبات ان کی طرف رخ کر کے کیے جاتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان کے قیام اور اسے ایک اسلامی جمہوری ریاست قرار دیے جانے کے بعد عدلیہ، انتظامیہ اور دیگر شعبوں میں اسلامی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور رجال کار کی فراہمی اور تیاری اصولی طور پر ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے اور یہ ان کے کرنے کا کام ہے۔ لیکن چونکہ وہ یہ کام نہیں کر رہے اس لیے یہ توقعات بھی دینی مدارس سے وابستہ کر لی گئی ہیں اور ان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ یہ کام بھی وہی کریں۔

ان کاموں کی دینی مدارس سے توقع یا مطالبہ درست ہے یا نہیں یہ ایک مستقل بحث ہے، لیکن ایک عوامی مطالبہ اور تقاضا اور بھی ہے جسے میں بھی درست سمجھتا ہوں اور دینی مدارس سے اسے اپنے اہداف میں شامل کرنے کے لیے کہتا رہتا ہوں۔ وہ یہ کہ دینی مدارس اپنے اردگرد ماحول پر نظر رکھیں اور اپنی چار دیواری سے ہٹ کر ان لوگوں کی دینی تعلیم کی طرف بھی توجہ دیں جو ان کے چاروں طرف رہتے ہیں مگر تعلیمی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اب تو اس سلسلہ میں صورتحال خاصی بہتر ہو رہی ہے لیکن اب سے ربع صدی قبل کی بات ہے کہ گوجرانوالہ میں ایک مخیر دوست نے مجھ سے پوچھا کہ ہمارے دینی مدارس میں طلبہ زیادہ تر کس علاقے کے ہوتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ پنجاب کے مغربی اور جنوبی اضلاع، صوبہ سرحد، آزاد کشمیر اور قبائلی علاقوں سے ان کا تعلق زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اساتذہ کن علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ اساتذہ بھی زیادہ انہی علاقوں کے ہوتے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ کیا ہمارا کام صرف چندہ دینا ہی ہے؟ ان کا مطلب یہ تھا کہ جس علاقے میں مدرسہ موجود ہے وہاں کے طلبہ کیوں نہیں ہوتے؟ میں نے کہا کہ یہاں کے لوگ اپنے بچوں کو دینی مدارس میں تعلیم کے لیے نہیں بھیجتے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہاں کے مسلمان اپنے بچوں کو دین نہیں پڑھانا چاہتے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ دین کے ساتھ دنیا بھی پڑھانا چاہتے ہیں۔ آپ دینی تعلیم کے ساتھ سکول کی تعلیم بھی شامل کریں پھر دیکھیں کہ یہاں کے لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے لیے کیسے دینی مدارس میں نہیں بھیجتے۔ ان صاحب کی یہ بات درست تھی، یہی وجہ ہے کہ جوں جوں دینی مدارس نے اپنے نصاب میں عصری تعلیم کے ضروری حصے شامل کرنا شروع کیے ہیں دینی مدارس میں مقامی طلبہ کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور اب کہیں بھی یہ صورتحال نہیں ہے کہ پڑھنے اور پڑھانے والے دوسرے علاقوں کے ہیں اور مقامی لوگوں کا کام صرف چندہ دے کر ثواب حاصل کرنا ہے۔

اس مثبت پیش رفت کے ساتھ ساتھ میں اس بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ دینی مدارس کو منظم طریقے سے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ان کے تعلیمی نظام کے ساتھ جو لوگ منسلک ہیں ان کا باقی آبادی کے حوالہ سے کیا تناسب ہے؟ اور اس تناسب میں آبادی کا جو حصہ دینی مدارس کے ساتھ منسلک و متعلق نہیں ہے اسے اس دائرے میں لانے کے لیے دینی مدارس کیا کر سکتے ہیں؟ ہر شخص کو عالم بنانا ضروری نہیں ہے لیکن عام آبادی کے لیے کسی نہ کسی درجے میں دینی تعلیم کا کوئی نظام دینی مدارس کو ضرور بنانا چاہیے۔ اور جو آبادی منسلک نہیں ہے اسے نظرانداز نہیں کر دینا چاہیے کہ یہ بات ان کی تعلیمی پیشرفت کے ساتھ ساتھ ان کی قوت کا ذریعہ بھی ہوگی۔

داخلی نصاب و نظام کے حوالے سے دینی مدارس کو ایک اور چیلنج بھی درپیش ہے۔ یعنی اسلامی ثقافت و اقدار کا تحفظ ان کے اہداف میں شامل ہے لیکن جس مغربی ثقافت اور فلسفے سے اسلامی اقدار و ثقافت کو خطرہ درپیش ہے اس سے واقفیت کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔ مغربی فکر و فلسفہ کیا ہے اور مغربی ثقافت و اقدار کا پس منظر کیا ہے، اس سے دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی غالب اکثریت ناواقف ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ جس دشمن سے ہم لڑ رہے ہیں اس کی ماہیت، طریق کار، ہتھیاروں اور دائرہ کار سے ہمیں شناسائی حاصل نہیں ہے۔ مغربی فلسفہ و نظام اور ثقافت و اقدار کا ایک تاریخی پس منظر ہے، اس کی اعتقادی بنیادیں ہیں، اس کا ایک عملی کردار ہے اور اس کا وسیع دائرہ اثر ہے مگر دینی مدارس کے نصاب میں اس سے آگاہی کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے۔ حالانکہ ہمارے سامنے اسلاف کی یہ عظیم روایت موجود ہے کہ جب ہمارے معاشرے میں یونانی فلسفے نے فروغ حاصل کیا تھا اور عقائد کے نظام کو متاثر کرنا شروع کیا تھا تو ہمارے اکابرین مثلاً امام ابوالحسن اشعریؒ، امام ابومنصور ماتریدیؒ، امام غزالیؒ، امام ابن رشدؒ اور امام ابن تیمیہؒ نے یونانی فلسفے پر عبور بلکہ برتری حاصل کی تھی اور اسی زبان اور اصطلاحات میں یونانی فلسفے کے پیدا کردہ اعتراضات و شبہات کا جواب دے کر اسلامی عقائد کی حقانیت اور برتری ثابت کی تھی۔ ورنہ ایک دور میں یونانی فلسفہ ہمارے عقائد کے نظام میں اتھل پتھل کی کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہا تھا۔

اس حوالہ سے دینی مدارس سے بجا طور پر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ مغربی فکر و فلسفہ کو بطور فن اپنے نصاب کا حصہ بنائیں، اس کے ماہرین پیدا کریں اور اسی کی زبان و اصطلاحات میں شکوک و شبہات کے ازالے اور اسلامی عقائد و ثقافت کے تحفظ و دفاع کا اہتمام کریں۔

دینی مدارس کو درپیش ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ عالمی ماحول تو رہا ایک طرف، ہم عام طور پر اپنے اردگرد کے ماحول سے بھی باخبر نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں اب اردگرد کے ماحول اور عالمی ماحول میں فرق کرنا مشکل ہو رہا ہے اور مزید مشکل ہوتا جائے گا۔ یہ معلومات کی وسعت کا دور ہے، ہر چیز سے باخبر رہنے اور حالات پر نظر رکھنے کا دور ہے، اس ماحول میں دینی مدارس کو اپنے اس طرز عمل اور ترجیحات پر نظرثانی کرنا ہوگی جو اپنے اساتذہ اور طلبہ کو بہت سے معاملات میں بے خبر رکھنے کے لیے ان کی پالیسی کا حصہ ہے۔ مثلاً:

  • معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ انتہائی ضروری ہے بالخصوص وہ چھ سات مذاہب جن کے پیروکار اس وقت دنیا میں وسیع دائرے میں پائے جاتے ہیں اور ان کے مستقل ممالک اور حکومتیں قائم ہیں۔ مثلاً یہودی، عیسائی، ہندو، بدھمت اور سکھ وغیرہ۔ ان کا تعارفی بلکہ اسلام کے ساتھ تقابلی مطالعہ دینی مدارس کے فضلاء کے لیے ضروری ہے۔
  • مسلم امہ کا حصہ سمجھے جانے والے اعتقادی اور فقہی مذاہب مثلاً اہل سنت، اہل تشیع، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری، سلفی، جعفری، زیدی وغیرہ کا تعارفی مطالعہ اور ان کے اصول اور تاریخ سے واقفیت ضروری ہے۔
  • اس کے ساتھ ہی عصری مسلم فکری تحریکات جو روایتی دائرے سے ہٹ کر ہیں ان کے بارے میں ضروری معلومات اور ان کے موقف و کردار سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ معلومات سطحی اور نامکمل نہ ہوں بلکہ اصل مآخذ سے صحیح معلومات ہونی چاہئیں۔
  • طب، سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ وغیرہ کی عملی کارفرمائی سے بہت سے مسائل کی نوعیت تبدیل ہوگئی ہے اور ہوتی رہے گی۔ ان سے آگاہ ہوئے بغیر فتویٰ دینا یا مسئلہ بیان کرنا شرعی اصولوں کے منافی ہے۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ فن کو حاصل کرنا اور چیز ہے اور اس کے بارے میں ضروری معلومات رکھنا اس سے مختلف امر ہے۔
  • عالمی اور علاقائی زبانوں سے واقفیت اور ان پر عبور ایک مستقل مسئلہ ہے۔ دینی مدارس میں انگریزی کی تعلیم کا ایسا اہتمام کہ کوئی فاضل انگلش میں تقریر کر سکے یا معیاری مضمون لکھ سکے، سرے سے موجود نہیں ہے۔ ہماری عربی کتاب فہمی تک محدود ہے اور سالہا سال کی تعلیم اور پھر تدریس کے بعد بھی ہم عربی زبان پر اس سے زیادہ عبور حاصل نہیں کر پاتے کہ کتاب کو سمجھ لیں اور اس کو پڑھا سکیں۔ بول چال، فی البدیہہ تقریر اور مضمون نویسی کی صلاحیت حاصل کرنا ہمارے اہداف میں شامل ہی نہیں ہے حتٰی کہ اپنی قومی زبان اردو میں بھی ہماری حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ ہمارے اکثر فضلاء اچھی اردو نہیں بول سکتے اور نہ ہی اردو میں ڈھنگ کا کوئی مضمون تحریر کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا افسوسناک خلا ہے جس نے ہمیں ابلاغ کے شعبے میں بالکل ناکارہ بنا رکھا ہے۔
  • ابلاغ کے جدید ذرائع مثلاً کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ویڈیو وغیرہ تک ہماری رسائی محل نظر ہے۔ نہ صرف یہ کہ زبان اور ذرائع عام طور پر ہماری دسترس سے باہر ہیں بلکہ اسلوب کے حوالے سے بھی ہم آج کے دور میں بہت پیچھے ہیں۔ ہماری زبان ثقیل اور اسلوب فتویٰ اور مناظرہ کا ہوتا ہے جبکہ یہ تینوں باتیں اب متروک ہو چکی ہیں۔ آج کی زبان سادہ اور اسلوب لابنگ اور بریفنگ کا ہے مگر ہم ان دونوں سے نا آشنا ہیں جس کی وجہ سے ہم خود اپنے معاشرے اور ماحول میں ہی بسا اوقات اجنبی ہو کر رہ جاتے ہیں اور ابلاغ کی ذمہ داری پوری نہیں کر پاتے۔
  • ہمارے ہاں عمرانی اور معاشرتی علوم کا ارتقاء مسلم اسپین کے دور تک رہا ہے اس کے بعد ایسے بریک لگی ہے جیسے ہمارے خیال میں معاشرت اور عمرانیات کا ارتقاء بھی رک گیا ہو، تب سے اس شعبے میں ایک جمود طاری ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے اجتہادی کام کے علاوہ اس دوران کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی اور شاہ صاحبؒ کے بعد بھی تین صدیوں سے سناٹا طاری ہے۔ انسانی معاشرت کا ارتقاء تو ظاہر ہے رک نہیں سکتا مگر معاشرت و تہذیب کے حوالے سے ہماری سوئی ابھی تک مسلم اسپین پر اٹکی ہوئی ہے اور ہم اس سے آگے بڑھتے نظر نہیں آ رہے۔ اس جمود کو توڑے بغیر ہم معاشرت و تمدن اور ثقافت و عمرانیات کے باب میں دنیا کی رہنمائی کا مقام آخر پھر سے کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ مگر دینی مدارس میں عمرانی علوم کے حوالے سے کوئی امتیازی کام اور علمی پیش رفت تو رہی ایک طرف، ان علوم تک ہمارے فضلاء اور اساتذہ کی رسائی بھی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔
  • دینی مدارس میں ہمارے باہمی اعتقادی اور فقہی مباحث اور اختلافات پر خوب کام ہوتا ہے اور یہی ایک شعبہ ہے جس میں ہماری توانائیوں اور صلاحیتوں کا بڑا حصہ صرف ہو جاتا ہے۔ مجھے اس کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں ہے لیکن اختلافات کی درجہ بندی اور ترجیحات کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ بسا اوقات اولیٰ غیر اولیٰ کے مسائل اور فروعی اختلافات کفر و اسلام کے معرکے کا روپ دھار لیتے ہیں اور کبھی اصولی اور بنیادی مسائل بھی نظر انداز ہونے لگ جاتے ہیں۔ اعتقادی مباحث اور فقہی اختلافات پر ضرور بات ہونی چاہیے اور طلبہ کو ان سے متعارف کرانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ان اختلافات کی درجہ بندی اور ترجیحات بھی ان کے سامنے واضح ہونی چاہئیں۔ اور انہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ کون سی بات کفر و اسلام کی ہے اور کون سی بات اولیٰ و غیر اولیٰ کی ہے، کس اختلاف پر سخت رویہ اختیار کرنا ضروری ہے اور کون سے اختلافات کو کسی مصلحت کی خاطر نظرانداز بھی کیا جا سکتا ہے۔
  • تحقیق کے حوالے سے ہمارے ہاں صرف تین شعبوں میں کام ہوتا ہے: (۱) اعتقادی و فقہی اختلافات پر خوب زور آزمائی ہوتی ہے (۲) افتاء میں ضرورت کے مطابق تحقیق ہوتی ہے اور (۳) دینی جرائد میں عام مسلمانوں تک اپنے اپنے ذوق کے مطابق دینی معلومات پہنچانے کے لیے تھوڑی بہت محنت ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ امت کی اجتماعی ضروریات اور ملت اسلامیہ کے عالمی ماحول کی مناسبت سے کسی تحقیقی کام کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ کچھ افراد اپنے ذوق اور محنت سے ایسا ضرور کر رہے ہیں لیکن بحیثیت ایک ادارہ اور نیٹ ورک کے دینی مدارس کے پروگرام میں یہ شامل نہیں ہے۔
  • معلومات کی وسعت، تنوع اور ثقاہت کا مسئلہ بھی غور طلب ہے۔ کسی بھی مسئلہ پر بات کرتے ہوئے ہم میں سے اکثر کی معلومات محدود، یکطرفہ اور سطحی ہوتی ہے۔ الا یہ کہ کسی کا ذوق ذاتی محنت اور توجہ سے ترقی پا جائے اور وہ اس سطح سے بالا ہو کر کوئی کام کر دکھائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیق، مطالعہ اور استدلال و استنباط کے فن کو ایک فن اور علم کے طور پر دینی مدارس میں پڑھایا جائے اور طلبہ کو اس کام کے لیے باقاعدہ طور پر تیار کیا جائے۔
  • دینی مدارس کی لائبریریوں کا حال بھی ناگفتہ بہ ہے۔ گنتی کے چند بڑے مدارس کے استثناء کے ساتھ عمومی طور پر دینی مدارس کی لائبریریوں میں درسی کتابوں سے ہٹ کر جو کتابیں موجود پائی جاتی ہیں وہ کیف ما اتفق کی منصوبہ بندی سے ہدف کے بغیر ہوتی ہیں۔ حوالے کی کتابیں میسر نہیں ہوتیں اور جو کتابیں موجود ہوتی ہیں ان تک طلبہ کی رسائی اور استفادے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض مدارس میں تو روزانہ اخبارات کا داخلہ بھی بند ہے اور طلبہ پر پابندی ہوتی ہے کہ وہ اخبارات و جرائد کا مطالعہ نہیں کریں گے۔ خدا جانے اپنے طلبہ کو دنیا، اپنے ملک اور اردگرد کے ماحول سے بے خبر رکھ کر یہ مدارس انہیں کون سے ماحول میں کام کرنے کی تربیت دے رہے ہوتے ہیں؟
  • مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی ضرورت بھی روز بروز عالمی سطح پر بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی طرف بین الاقوامی حلقے متوجہ ہو رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مکالمے کے اصل فریق کون ہیں اور مکالمے کا ایجنڈا کیا ہے؟ یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر الگ سے گفتگو ہونی چاہیے۔ لیکن مذاہب کے درمیان مکالمے جس انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں اس سے دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کا بے خبر اور لاتعلق رہنا سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ اس مکالمے کے پس منظر، ضرورت، دائرہ کار اور مضرت و منفعت سے دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔ بلکہ اس مکالمے کے تو اصل فریق ہی دینی مدارس ہیں اور انہیں اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔

اصلاحِ احوال کے لیے موزوں حکمت عملی

یہ تو وہ مختلف پہلو ہیں جو دینی مدارس کے اس نظام کو خارجی اور داخلی طور پر چیلنج کے طور پر درپیش ہیں۔ اب آخر میں موزوں حکمت عملی کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں جن پر دینی مدارس کے ارباب حل و عقد کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے:

  1. اپنے جداگانہ تشخص اور آزادانہ کردار کے تحفظ کے لیے دینی مدارس کو باہمی اتحاد اور اشتراک و ارتباط میں اضافہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ دینی مدارس کے مختلف وفاق جس طرح اب اکٹھے ہیں اسی طرح متحد رہے تو کسی کو ان کے جداگانہ تشخص اور آزادانہ کردار کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔
  2. اپنے امیج کو صحیح بنانے کے لیے انہیں عالمی میڈیا تک رسائی حاصل کرنا ہوگی اور اپنے موقف، خدمات اور عزائم سے دنیا کو باخبر کرنے کے لیے میڈیا اور لابنگ کے تمام ممکنہ ذرائع اختیار کرنا ہوں گے۔
  3. لوگوں کی توقعات، تجاویز، شکایات اور تقاضوں سے پوری طرح آگاہی حاصل کر کے ان پر باہمی بحث و مباحثہ اور مختلف درجات و مراحل میں ان کے تجزیہ و تحلیل کی ضرورت ہے۔ اور جن باتوں پر عمل ہو سکتا ہو انہیں دائرہ عمل میں لانے سے حتی الوسع گریز نہ کیا جائے۔
  4. متعلقہ اربابِ فن و علم سے وقتاً فوقتاً رابطہ اور مشاورت کا اہتمام کیا جائے اور ان کے تجربات اور آراء و افکار سے استفادہ کیا جائے۔
  5. رائے عامہ کو اعتماد میں لینا اور اعتماد میں رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے قومی اخبارات اور ممتاز اصحابِ قلم سے رابطہ اور ان کی بریفنگ کا اہتمام ناگزیر ہے۔

مجھے امید ہے کہ اگر دینی مدرس موجودہ عالمی تناظر میں اپنے کردار کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں گے اور خود احتسابی کے جذبے سے اپنی ترجیحات، دائرہ عمل اور طریق کار پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کریں گے تو ان چیلنجوں سے بخوبی نمٹ سکیں گے جن کا انہیں اس وقت سامنا ہے۔ اور نئے حوصلے، اعتماد اور ولولے کے ساتھ مستقبل میں اپنے کردار کو زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کی راہ بھی ہموار کر پائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter