لاہور کا اجتماع اور علماء دیوبند کا مشترکہ موقف

   
تاریخ : 
۱۷ اپریل ۲۰۱۰ء

ایک مدت کے بعد دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے سرکردہ علماء کرام کا ایک نمائندہ اجتماع جامعہ اشرفیہ لاہور میں ۱۵ اپریل جمعرات کو منعقد ہوا جس کی صدارت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سربراہ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم نے فرمائی اور ملک بھر سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ علماء کرام نے شرکت کی۔

اس سے قبل پندرہ بیس کے لگ بھگ سرکردہ اہل علم نے جامعہ اشرفیہ میں ہی مسلسل مشاورت کی جو دو روز تک جاری رہی، اس میں ملک کی موجودہ صورتحال اور خاص طور پر علماء دیوبند کو مختلف جہات سے درپیش مسائل اور چیلنجوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، اور ایک مشترکہ موقف اعلامیہ کی صورت میں مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ قومی خودمختاری کے تحفظ، بیرونی مداخلت کے سدباب، ملک میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد کے حوالے سے عملی پیشرفت، اور دینی حلقوں کے درمیان مفاہمت کے فروغ کے سلسلہ میں آئندہ کی حکمتِ عملی کے خدوخال طے کیے گئے۔ اس طویل مشاورت میں شریک ہونے والے بزرگوں میں حضرت مولانا سلیم اللہ خان، مولانا عبید اللہ اشرفی، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمان، مولانا سمیع الحق، مولانا عبد الحفیظ مکی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا سید عبد المجید ندیم، مولانا مفتی کفایت اللہ، مولانا امداد اللہ، مولانا محمد امجد خان اور راقم الحروف بھی شامل ہیں۔

دو روزہ طویل مشاورت کے نتیجے میں مشترکہ اعلامیہ طے پایا جو مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے مرتب فرمایا اور اس کے مختلف نکات پر تفصیلی بات چیت کے بعد اس کی منظوری دی گئی۔ اور پھر اسے ۱۵ اپریل کو ڈیڑھ سو کے لگ بھگ سرکردہ علماء کرام کے اجتماع کے سامنے پیش کیا گیا اور اس پر بیسیوں علماء کرام نے اظہار خیال فرمایا جس کی روشنی میں اس میں متعدد ترامیم کے بعد اسے آخری شکل میں منظور کر لیا گیا۔ جبکہ راقم الحروف کی مرتب کردہ قراردادیں بھی انہی مراحل سے گزر کر متفقہ طور پر منظور ہوئیں۔ اس موقع پر یہ طے پایا کہ نفاذِ شریعت، ملکی سالمیت و خودمختاری کے تحفظ، دینی مدارس کی جدوجہد کو مؤثر بنانے، اور ان کے تحفظ اور اسلامی روایات کے دفاع کے لیے مشترکہ طور پر جدوجہد کی جائے گی اور اس کی خاطر مشترکہ مشاورتی اجتماعات کا سلسلہ جاری رہے گا۔

سہ روزہ اجتماع کی مختلف نشستوں میں ہونے والی بہت سی باتیں ایسی ہیں جن سے قارئین کو آگاہ کرنا ضروری ہے اور آئندہ چند کالموں میں اس سلسلہ کی ضروری تفصیلات پیش کی جائیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ سرِدست وہ ’’مشترکہ اعلامیہ‘‘ ملاحظہ فرمائیے جو موجودہ ملکی اور علاقائی صورتحال میں دیوبند مکتبِ فکر کے علماء کرام کے متفقہ موقف کی حیثیت رکھتا ہے۔

مشترکہ اعلامیہ

’’ملک بھرکے علماء کا یہ اجتماع عام مسلمانوں کے اس احساس میں برابر کا شریک ہے کہ ہمارا ملک جن گوناگوں مسائل سے دوچار ہے اور اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نفاذِ اسلام کے جس عظیم مقصد کے لیے یہ مملکتِ خداداد حاصل کی گئی تھی اس کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے اور عملاً اسلامی نظامِ زندگی اور اسلامی نظامِ عدل کی طرف پیش قدمی کی بجائے ہم اس منزل سے دور ہوتے چلے گئے ہیں۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ

  • ملک بھر کے عوام ہمہ جہتی مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں، ملک بھر میں کسی کی جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں ہے، قتل و غارت گری اور دہشت گردی سے ہر شخص سہما ہوا ہے اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں۔
  • سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کا عفریت ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور عوام کے لیے اپنا جائز حق حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے۔
  • ناقص منصوبہ بندی کے نتیجے میں مہنگائی اور بجلی کی قلت نے عوام کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے جس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

دوسری طرف ہمارے ملک کے بہترین وسائل ان عوامی تکلیفوں کو دور کرنے اور ان کے اسباب کا ازالہ کرنے کی بجائے امریکہ کی مسلط کی ہوئی جنگ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے خرچ ہو رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ کی طرف سے ہماری سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر کے ڈرون حملوں کا سلسلہ برابر جاری ہے جن میں ہمارے بے گناہ شہریوں کی بہت بڑی تعداد شہید ہو رہی ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جگہ جگہ بے گناہ مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور خود ہمارے شہریوں کے ساتھ امریکہ میں بدترین ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے، اور امریکہ مسلسل ہمارے بجائے بھارت کو نوازتے رہنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس سب کے باوجود حکومت کی پالیسیوں میں امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ملکی مفادات کو بے دھڑک قربان کیا جا رہا ہے۔

جب اجتماعی سطح پر مسلمانوں کو اس قسم کے مسائل درپیش ہوں تو اس وقت بطور خاص اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رجوع کر کے اس کی نافرمانیوں سے بچا جائے۔ لیکن ان حالات میں بھی بد دینی کو فروغ مل رہا ہے، عریانی و فحاشی پر کوئی روک نہیں، نفاذِ شریعت کی پُراَمن کوششوں کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا۔ ان تمام حالات میں ملک کے دردمند مسلمان سخت بے چینی کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا دین عطا فرمایا ہے جس میں نہ مایوسی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ بے عملی کی۔ لہٰذا یہ تمام حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ملک کے ارباب حل و عقد اور عوام ایک دوسرے کو نشانۂ ملامت بنانے کی بجائے مل جل کر اپنے طرزِ عمل میں انقلابی تبدیلیاں لائیں، اسی طرح ملک کی کشتی گرداب سے نکل سکتی ہے۔ اسی لیے علماء کرام کا یہ اجتماع بلایا گیا تھا کہ وہ اس صورتحال پر غور کر کے قرآن و سنت کی روشنی میں وہ طریقے تجویز کریں جو ملک کو اس صورتحال سے نکالنے کے لیے ضروری ہیں۔ چنانچہ یہ اجتماع متفقہ طور پر سمجھتا ہے کہ مندرجہ ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:

  1. اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ اسلام ہی نے یہ ملک بنایا تھا اور اسلام ہی اسے بچا سکتا ہے۔ لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں اسلامی تعلیمات اور قوانین کو نافذ کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور ملک کے آئین کا اہم ترین تقاضا بھی اور اسی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ملک میں انتہا پسندی کی تحریکیں اٹھی ہیں۔ اگر ملک میں اس مقصدِ وجود کی طرف واضح پیش قدمی کی گئی ہوتی تو ملک اس وقت انتہا پسندی کی گرفت میں نہ ہوتا۔ لہٰذا وقت کا اہم تقاضا ہے کہ پُراَمن ذرائع سے پوری نیک نیتی کے ساتھ ملک میں نفاذِ شریعت کے اقدامات کیے جائیں۔ اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کو فعال بنا کر ان کی سفارشات اور فیصلوں کے مطابق اپنے قانونی اور سرکاری نظام میں تبدیلیاں بلاتاخیر لائی جائیں۔ اور ملک سے کرپشن، بے راہ روی اور فحاشی و عریانی ختم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
  2. تمام سیاسی و دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے دیگر مقاصد پر نفاذِ شریعت کے مطالبے کو اولیت دے کر حکومت پر دباؤ ڈالیں اور اس کے لیے مؤثر مگر پُر اَمن جدوجہد کا اہتمام کریں۔ جبکہ عوام کا فرض ہے کہ جو جماعتیں اور ادارے اس مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔
  3. اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کو قرار دیا جا رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی نے ملک کو اجاڑنے میں کوئی کسر نہیں رکھی، جگہ جگہ خودکش حملوں اور تخریبی کارروائیوں نے ملک کو بد اَمنی کی آماجگاہ بنایا ہوا ہے۔ ان تخریبی کاروائیوں کی تمام محبِ وطن حلقوں کی طرف سے بار بار مذمت کی گئی ہے اور انہیں سراسر ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس صورتحال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر ملک بھر کی متفقہ مذمت اور فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود یہ کاروائیاں کیوں جاری ہیں اور اس کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟ ہماری نظر میں اس صورتحال کا بہت بڑا سبب وہ افغان پالیسی ہے جو جنرل پرویز مشرف نے غلامانہ ذہنیت کے تحت کسی تحفظ کے بغیر شروع کر دی تھی اور آج تک اسی پر عمل ہوتا چلا آرہا ہے۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت امریکہ نوازی کی اس پالیسی کو ترک کر کے افغانستان کی جنگ سے اپنے آپ کو بالکل الگ کرے اور امریکی افواج کو مدد پہنچانے کے تمام اقدامات سے دستبردار ہو۔
  4. یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خود اپنے گھر کو آگ لگا بیٹھیں۔ لہٰذا ہم پورے اعتماد اور دیانت کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں نفاذِ شریعت اور ملک کو غیر ملکی تسلط سے نجات دلانے کے لیے پُر اَمن جدوجہد ہی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ اور مسلح جدوجہد شرعی اعتبار سے غلط ہونے کے علاوہ مقاصد کے لیے بھی سخت مضر ہے اور اس کا فائدہ براہ راست ہمارے دشمنوں کو پہنچ رہا ہے اور امریکہ اسے اس علاقے میں اپنے اثر و رسوخ کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اخلاص کے ساتھ اسے دین کا تقاضا سمجھتا ہے تو یہ اجتماع اس بات پر اتفاق کرتا ہے کہ ایسے حضرات کو حالات کے تقاضوں اور ضرورتوں سے آگاہ کر کے مثبت کردار کی ادائیگی پر آمادہ کرنے کے لیے ناصحانہ اور خیر خواہانہ روش اختیار کی جائے۔
  5. حکومت اس بات کا احساس کرے کہ اندرونی شورشوں کا پائیدار حل بالآخر پر امن مذاکرات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ چنانچہ ملک کی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے اپنی متفقہ قرارداد میں ایک طرف سابق حکمرانوں کی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنے اور ڈرون حملوں اور غیرملکی مداخلت کے بارے میں قومی خودمختاری کے تحفظ پر زور دیا تھا اور دوسری طرف اندرونی شورش کے لیے مذاکرات ہی کا طریقہ تجویز کیا تھا۔ لیکن پارلیمنٹ کی اس قرارداد کو عملاً بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس قرارداد کے مطابق اپنی حکمتِ عملی کو تبدیل کر کے خانہ جنگی کا خاتمہ کرے۔
  6. تمام مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مشکلات اور مصائب کا اصل حل اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ اس کی رحمتیں حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ہر طرح کے گناہوں سے توبہ کر کے رشوت ستانی اور ہر طرح کی حرام آمدنی، بے حیائی اور فحاشی، جھوٹ، غیبت، اور دنیوی اغراض کے لیے باہمی جھگڑوں سے پرہیز کریں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں، شرعی فرائض کو بجا لائیں اور اتباع سنتؐ کا اہتمام کریں۔‘‘
(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۷ اپریل ۲۰۱۰ء)

قراردادیں

  1. یہ اجتماع موجودہ ملکی اور علاقائی سنگین صورتحال کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں نفاذِ اسلام سے مسلسل رو گردانی اور ایک اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے تقاضوں کو نظرانداز کرنے کا منطقی نتیجہ قرار دیتا ہے، اور دو ٹوک رائے کا اظہار کرتا ہے کہ قومی خود مختاری کے تحفظ اور نفاذِ اسلام کے بغیر ملک و قوم کو موجودہ دلدل سے نکالنا ممکن نہیں ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ دستور پاکستان کی اسلامی دفعات اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق نفاذِ اسلام کی طرف عملی پیشرفت کا اہتمام کیا جائے۔
  2. یہ اجتماع قومی خود مختاری اور ملکی سالمیت کو درپیش مبینہ خطرات و خدشات کے حوالہ سے شدید تشویش و اضطراب کا اظہار کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عوامی جذبات اور قومی مفادات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر فوری نظر ثانی کرے اور پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد اور پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کر کے قومی پالیسیوں کا قبلہ درست کرنے کو یقینی بنائے۔
  3. یہ اجتماع امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ناروا سلوک اور سفاکانہ وغیر منصفانہ رویے کی شدید مذمت کرتا ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور دیگر سینکڑوں گمشدہ یا امریکہ کے حوالے کیے جانے والے مظلوم پاکستانیوں کی بازیابی اور رہائی کے لیے اپنی دستوری اور قومی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔
  4. یہ اجتماع سوئٹزر لینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی بعض یورپی ممالک میں جناب نبی اکرمؐ کے گستاخانہ خاکوں کی مسلسل اشاعت، فرانس میں حجابِ شرعی کے خلاف مہم اور اس قسم کے دیگر معاملات کو اسلام کے خلاف مغربی ثقافت کے علمبرداروں کے معاندانہ رویے کا آئینہ دار سمجھتا ہے اور دنیا بھر کی مسلم حکومتوں اور اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم (OIC) سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات و احکام کے خلاف مغربی ثقافتی یلغار کے سدِّباب کے لیے مشترکہ پالیسی وضع کریں۔
  5. یہ اجتماع دینی مدارس کے خلاف مختلف ایجنسیوں اور حکومتی اداروں کی روز افزوں اور مسلسل کارروائیوں پر شدید احتجاج کرتا ہے اور آپریشن سے متاثرہ علاقوں میں سینکڑوں مساجد و مدارس کے انہدام کو شرمناک قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ دینی مدارس پر چھاپوں اور ان کے اساتذہ و طلبہ کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ فوری بند کر کے منہدم شدہ اور متاثرہ مدارس و مساجد کی فوری بحالی کا اہتمام کیا جائے اور بند مدارس کو کھول کر ان میں طلبہ کی رہائش و تعلیم کا نظام بحال کیا جائے۔
  6. یہ اجتماع ملک میں روز افزوں مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب کو غریب عوام سے زندگی چھین لینے کے مترادف تصور کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ سرمایہ دارانہ، جاگیر دارانہ نظام کے تسلسل اور غلط حکومتی پالیسیوں کے باعث اس عذاب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور عام شہریوں پر زندگی کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ عوام کو مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کے ساتھ ساتھ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا بھی اہتمام کرے۔
  7. یہ اجتماع ملک میں مغرب کی بے حیا ثقافت کے فروغ کے لیے این جی اوز اور میڈیا کی آزادانہ روش، حکومتی اداروں کی طرف سے اس کی حوصلہ افزائی، اور قومی وسائل کے بے دریغ استعمال کو افسوسناک قرار دیتا ہے۔ اور اسے پاکستان کے اسلامی تشخص، قرآن و سنت کی تعلیمات، اور عوام کے دینی رجحانات کے منافی سمجھتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس پالیسی پر نظرثانی کی جائے اور وطنِ عزیز کی اسلامی ثقافت کے تحفظ کا اہتمام کیا جائے۔
  8. یہ اجتماع بارہ ربیع الاول کے روز فیصل آباد، ڈیرہ اسماعیل خان ،کراچی اور بعض دیگر شہروں میں رونما ہونے والے افسوسناک واقعات کو ملک میں فرقہ وارانہ کشمکش کو فروغ دینے کی سازش کا حصہ قرار دیتا ہے اور ان سانحات میں متاثرہ افراد اور خاندانوں کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ایسے واقعات کی مکمل عدالتی تحقیقات کرا کے مجرموں اور ان کے پشت پناہوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
  9. یہ اجتماع ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے رہنماؤں اور کارکنوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ موجودہ سنگین قومی صورتحال میں جبکہ قومی خود مختاری، ملکی سالمیت اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے اور فرقہ وارانہ کشیدگی کی فضا پیدا کر کے استعماری قوتیں اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کا ایجنڈا رکھتی ہیں ۔۔۔ قومی وحدت اور ہم آہنگی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے، اس لیے کسی بھی سطح پر ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے جو فرقہ وارانہ کشمکش کا باعث بن سکتی ہوں بلکہ قومی ہم آہنگی کو بڑھانے کے اقدامات کیے جائیں تاکہ قوم متحد ہو کر موجودہ بحران کا مقابلہ کر سکے۔
  10. یہ اجتماع پارلیمنٹ میں دستوری ترامیم کے حالیہ بل میں اسلامی دفعات کے تحفظ کی جدوجہد کرنے والے علماء کرام اور دیگر ارکان پارلیمنٹ کو اس کامیاب جدوجہد پر مبارکباد پیش کرتا ہے۔ اور دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان اسلامی دفعات پر مؤثر عمل درآمد کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔
  11. یہ اجتماع ملک بھر کے علماء کرام اور دینی جماعتوں و کارکنوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ قومی وحدت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی اختلافات کے عمومی اظہار سے حتی الوسع گریز کریں، اور مشترکہ قومی و دینی مقاصد کے لیے باہمی تعاون و اشتراک کی فضا کو فروغ دیں۔ نیز یہ اجتماع قوم کے تمام طبقات اور حلقوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ قومی وحدت کے بھرپور مظاہرہ کے ساتھ بیرونی مداخلت کا راستہ روکنے کا اہتمام کریں۔
  12. یہ اجتماع ملک بھر کے علماء کرام کے اس نمائندہ اجتماع کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً اس قسم کے مشترکہ اجتماعات کا انعقاد جاری رکھنے کا اعلان کرتا ہے۔
  13. یہ اجتماع میڈیا سے اسلامی شعائر اور دینی حلقوں کے خلاف کردار کشی کے مسلسل پروپیگنڈے پر شدید احتجاج کرتا ہے اور خاص طور پر میڈیا چینلز پر ایک لڑکی کو کوڑے مارے جانے کی ویڈیو کے بارے میں اس انکشاف کی بنیاد پر کہ یہ جعلی طور پر فلمائی گئی تھی، حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس کی انکوائری کرا کے اسلامی احکام کو تمسخر کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔
  14. ایبٹ آباد میں جلسے اور جلوس پر بے تحاشا فائرنگ اور اس کے نتیجہ میں متعدد افراد کے قتل کے واقعہ کی شدید مذمت کرتا ہے اور ہزارہ کے مظلوم عوام سے مکمل ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔
  15. یہ اجتماع کراچی میں مولانا سعید احمد جلال پوریؒ، مولانا عبد الغفور ندیمؒ، قاری عبد الحفیظؒ اور ان کے رفقاء، جامعہ صدیقیہ کراچی کے طالب علم محمد سفیرؒ، ڈیرہ اسماعیل خان میں خواجہ محمد زاہدؒ، شیخ ایازؒ، کوئٹہ بلوچستان میں میر مٹھا خان خٹک اور ان کے رفقاء، اور دیگر مختلف سانحات میں جام شہادت نوش کرنے والے تمام علماء کرام کے وحشیانہ قتلِ عام کی شدید مذمت کرتا ہے، اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ علماء کرام اور دیگر شہداء کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔ یہ اجتماع تمام شہداء کے لیے دعائے مغفرت کے ساتھ ان کے جملہ پسماندگان اور عقیدت مندوں کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔
  16. یہ اجتماع مختلف ایجنسیوں کی طرف سے دینی مدارس کے بے گناہ اساتذہ، طلباء اور کارکنوں کو ہراساں کرنے، اغوا کرنے اور بلا وجہ مقدمات قائم کرنے کی شدید مذمت کرتا ہے اور مقدمات ختم کرنے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے۔
(ماہنامہ نصرۃ العلوم ۔ مئی ۲۰۱۰ء)
   
2016ء سے
Flag Counter