امام بخاریؒ اور بخاری شریف

   
تاریخ: 
۱۲ نومبر ۱۹۹۸ء

(۱۲ نومبر ۱۹۹۸ء کو جامعہ مدینۃ العلم بکر منڈی فیصل آباد میں بخاری شریف کے اختتام کی سالانہ تقریب ہوئی۔ دارالعلم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے شخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ مدظلہ نے آخری حدیث پڑھا کر دورۂ حدیث کے طلبہ کو بخاری شریف مکمل کرائی جبکہ مولانا محمد ضیاء القاسمی، مولانا محمد رفیق جامی، مولانا محمد الیاس، الحاج سید امین گیلانی اور دیگر حضرات کے علاوہ مدیر الشریعہ مولانا زاہد الراشدی نے بھی اس تقریب سے خطاب کیا، ان کے خطاب کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرات علمائے کرام اور عزیز طلبہ! ختم بخاری شریف کی اس تقریب میں شرکت اور کچھ عرض کرنے کا موقع میرے لیے سعادت کی بات ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ گزارشات آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ بخاری شریف کی آخری حدیث کے حوالہ سے علمی مباحث تو حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ آپ کے سامنے رکھیں گے البتہ کتاب کے موضوع اور صاحبِ کتاب کے بارے میں چند معروضات ضروری سمجھتا ہوں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کچھ مقصد کی باتیں کہننے سننے کی توفیق عطا فرمائیں۔

  1. امام بخاریؒ نے اپنی کتاب کا آغاز ’’بدء الوحی‘‘ سے کیا ہے اور اس کے بعد کتاب الایمان اور کتاب العلم اور پھر اعمال کے ابواب شروع کیے ہیں، جس سے وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایمان، علم اور عمل تینوں کی بنیاد وحی پر ہے۔ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے اور آج کے دور میں بھی انسانی معاشرے کو سب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش ہے کہ اسے اپنے تمام معاملات خود طے کرنے ہیں یا آسمانی ہدایات کی پابندی قبول کرنی ہے۔ اس لیے امام بخاریؒ نے ابتدا میں ہی بات واضح کر دی ہے کہ اسلام میں تمام امور کی بنیاد وحی پر ہے اور آسمانی تعلیمات کے دائرے سے ہٹ کر کوئی یقین، کوئی علم اور کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے۔
  2. اسی طرح امام بخاریؒ نے ’’الجامع الصحیح‘‘ کا اختتام جس کتاب پر کیا ہے اس کا عنوان ہے ’’التوحید والرد علی الجہمیہ‘‘۔ جہمیہ قرنِ اول کے گمراہ فرقوں میں سے ایک ہے جنہوں نے فلسفیانہ موشگافیوں میں پڑ کر اسلامی عقائد کی گمراہ کن تعبیرات شروع کر دی تھیں۔ یہ گمراہ فرقے یونانی فلسفہ کے مسلمانوں میں پھیلنے کے بعد رونما ہوئے تھے اور علمائے امت نے ہر دور میں ان کے عقائد اور تعبیرات کو مسترد کیا ہے۔ امام بخاریؒ نے بھی ان گروہوں کے عقائد و تعبیرات کے خلاف مختلف ابواب میں روایات پیش کی ہیں اور اسی عنوان پر کتاب کا اختتام کر کے یہ بتایا ہے کہ جہاں اپنے ایمان، علم اور عمل کی بنیاد وحی پر رکھنا ضروری ہے وہاں انہیں غلط تعبیرات سے محفوظ رکھنا اور گمراہ فرقوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کا تعاقب بھی ضروری ہے۔

    اس سلسلہ میں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ امام بخاریؒ نے جن فتنوں اور گمراہ گروہوں کا رد کیا ہے ان میں سے بیشتر یونانی فلسفہ کی پیداوار تھے۔ اب ان گروہوں کا بحیثیت گروہ دنیا میں کہیں وجود نہیں ہے البتہ جراثیم باقی ہیں جو مختلف ذہنوں میں جگہ بنائے ہوئے ہیں اور ان کا کبھی کبھی اظہار ہوتا رہتا ہے۔ آج کے دور کے فتنے اس سے مختلف ہیں۔ آج دنیا پر مغرب کے سیکولر فلسفہ کی یلغار ہے اور اس نے ایمان، علم اور اعمال کے حوالہ سے ہمارے لیے نئے نئے فتنے کھڑے کر دیے ہیں۔ آج علماء کو ان کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جس طرح یونانی فلسفہ کی کارفرمائی کے دور میں اس وقت کے علماء نے یونانی فلسفہ پر عبور حاصل کر کے اس کے پیدا کردہ فتنوں کا مقابلہ کیا تھا آج کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ مغرب کے سیکولر فلسفہ کو سمجھیں اور اس کی پیدا کردہ علمی اور فکری گمراہیوں کا تعاقب کریں۔

یہ دو باتیں تو کتاب کے حوالہ سے عرض کرنا چاہتا تھا، اب دو باتیں صاحبِ کتاب کے حوالہ سے گزارش کرنا چاہتا ہوں:

  1. ’’الجامع الصحیح‘‘ کے مصنف امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ جلیل القدر محدث ہیں اور امت کے بڑے ائمہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے حالاتِ زندگی کا آپ حضرات نے مطالعہ کیا ہوگا، ان کے ایک واقعہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انہیں ایک موقع پر بعض علماء کی مخالفت کی وجہ سے نیشا پور چھوڑنا پڑا تھا۔ اصل وجہ خواہ کچھ لوگوں کا حسد ہو مگر ظاہری وجہ یہ بنی تھی کہ ’’خلقِ قرآن‘‘ کے مسئلہ پر امام بخاریؒ نے جو تعبیر اختیار کی تھی اسے ان کی مخالفت کا بہانہ بنا لیا گیا تھا۔ اس مسئلہ پر امت کے دو بڑے اماموں امام احمد بن حنبلؒ اور امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ کی تعبیرات کو سامنے رکھیں تو اصل مسئلہ واضح ہوگا۔ امام احمدؒ کے سامنے وہ لوگ تھے جو قرآن کریم کو کلامِ الٰہی کی صورت میں صفتِ خداوندی نہیں مانتے تھے اور مخلوق شمار کرتے تھے، اس لیے انہیں مصائب و مشکلات کی پروا کیے بغیر یہ اعلان کرنا پڑا کہ ’’القرآن کلام اللہ غیر مخلوق‘‘۔ اس کے لیے انہوں نے کوڑے بھی کھائے مگر عزیمت و استقامت کی ایک داستان رقم کر دی۔ دوسری طرف امام بخاریؒ کے سامنے وہ حضرات تھے جو ’’غیر مخلوق‘‘ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس میں انسانی تلفظ اور اس کے دیگر متعلقات کو بھی شامل کرنے لگے تھے، اس لیے انہوں نے ’’لفظی بالقرآن مخلوق‘‘ کا نعرہ لگایا اور اس پر قائم رہتے ہوئے نیشا پور سے جلاوطنی قبول کر لی۔

    دونوں امام بظاہر ایک دوسرے کے خلاف بات کر رہے ہیں، دونوں امت کے جلیل القدر امام ہیں اور دونوں نے اپنے اپنے موقف کی خاطر صعوبتیں برداشت کیں مگر اصل بات یہ ہے کہ دونوں کا موقف ایک ہے اور اس میں تضاد نہیں ہے۔ نہ امام بخاریؒ کلام الٰہی کو مخلوق کہہ رہے ہیں اور نہ امام احمدؒ کے نزدیک انسانی تلفظ غیر مخلوق ہے۔ دونوں نے اس عقیدہ کی انتہاپسندانہ تعبیرات کو رد کیا ہے اور اہل السنۃ والجماعۃ کے مسلک اعتدال کی ترجمانی کی ہے۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عقائد کی تعبیر میں انتہائی احتیاط اور توازن کی ضرورت ہے، کسی بھی اسلامی عقیدہ کی کوئی انتہاپسندانہ تعبیر کی جائے گی تو فتنہ پھیلے گا اور خرابی ہوگی۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اسلامی عقائد کو تعبیر کا جامہ پہناتے ہوئے اعتدال اور توازن کو ملحوظ رکھا جائے اور کسی بھی عقیدہ کی انتہاپسندانہ تعبیر سے گریز کیا جائے۔

  2. امام بخاریؒ کے حوالہ سے دوسری بات یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انہیں زندگی کے آخری لمحات میں اپنے آبائی شہر بخارا کو بھی چھوڑنا پڑا تھا اور ان کی وفات سمرقند کے قریب ایک بستی خرتنگ میں ہوئی تھی جہاں ان کی قبر کی زیارت بحمد اللہ تعالیٰ میں نے بھی کی ہے۔ انہیں بخارا سے نکلنا پڑا تھا جس کی وجہ یہ ہوئی کہ بخارا کے امیر خالد بن احمد نے ان سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے گھر آکر اس کے بچوں کو حدیث اور تاریخ پڑھائیں، امام بخاریؒ نے اسے قبول نہیں کیا اور فرمایا جسے پڑھنا ہو ان کی مجلس میں آکر پڑھے۔ اس کے بعد امیر بخارا نے فرمائش کی کہ اپنی مجلس میں اس کے بچوں کی تعلیم کے لیے الگ وقت مخصوص کر دیں۔ امام بخاریؒ نے اس کو بھی گوارا نہیں کیا اور فرمایا کہ انہیں اگر پڑھنا ہے تو عام مجلس میں دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھیں۔ یہ بات امیر بخارا کی ناراضگی کا باعث بنی اور امام بخاریؒ کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوگیا جس کے نتیجے میں امام بخاریؒ کو بخارا چھوڑنا پڑا اور خرتنگ میں مسافرت اور کسمپرسی کے عالم میں ان کا انتقال ہوگیا۔

    اس واقعہ میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ علم کا وقار قائم رکھنا اور اسے امراء کے دروازوں پر رسوا ہونے سے بچانا بھی اہل علم کی ذمہ داری ہے خواہ اس کے لیے ذاتی طور پر کتنی ہی تکلیف اور پریشانی اٹھانا پڑے اور امام بخاریؒ کی زندگی کا آخری سبق ہمارے لیے یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دیں۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter