کیا اسلامی نظام صرف مولویوں کا مسئلہ ہے؟

   
تاریخ اشاعت: 
۴ نومبر ۲۰۰۰ء

وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر نے یہ کہہ کر اسلامی نظام اور اس کی علمبردار دینی قوتوں کے خلاف ایک بار پھر وہی گھسی پٹی دلیلیں دہرائی ہیں جو اس سے قبل پچاس سال سے ہم سن رہے ہیں کہ ’’الگ الگ جھنڈے اٹھا کر مذہبی جماعتیں ملک میں کون سا اسلام نافذ کرنا چاہتی ہیں اور اگر دینی جماعتیں واقعی موزوں، مفید اور مناسب طور پر یہ کام کر رہی ہیں تو وہ اب تک کے الیکشنوں میں اچھے نتائج کیوں نہیں دکھا پائیں؟‘‘

یہ بات پاکستان کے قیام کے بعد ہی سیکولر حلقوں نے کہنا شروع کر دی تھی کہ ملک میں مختلف دینی مکاتب فکر ہیں اور اسلام کی الگ الگ تعبیر و تشریح کر رہے ہیں، اس لیے یہاں کون سا اسلام نافذ کیا جائے گا؟ لیکن تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے تحریک پاکستان کے عظیم راہنما علامہ سید سلیمان ندوی کی زیر صدارت اسلامی نظام کی ۲۲ متفقہ دستوری بنیادیں طے کر کے اس بات کو رد کر دیا تھا اور قوم کو یہ بتا دیا تھا کہ مختلف مکاتب فکر اور فقہی مذاہب میں فروعات، جزئیات اور تعبیرات میں جو اختلافات موجود ہیں ان کا اسلامی نظام (کے نفاذ) سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسلامی نظام کے اصولوں، طریق کار اور احکام و قوانین کے ضوابط پر وہ سب متفق ہیں۔ اس اتفاق و اجتماع میں اہل السنۃ والجماعۃ اور اہل تشیع دونوں شامل تھے۔ اہل سنت کے تمام مکاتب فکر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور جماعت اسلامی کے اکابر شریک تھے اور کوئی مسلمہ مذہبی مکاتب فکر اس سے باہر نہیں تھا۔ اس لیے یہ دلیل اسی وقت دم توڑ گئی تھی کہ ملک میں کون سا اسلام نافذ کیا جائے اور کس مذہبی مکتب فکر کی تعبیر و تشریح کو نفاذ اسلام کی بنیاد بنایا جائے؟

جناب معین الدین حیدر کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ان دستوری نکات اور خاکہ پر آج بھی ملک کے تمام مکاتب فکر متحد ہیں اور کسی مذہبی فرقہ کو ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے اس لیے اگر وزیر داخلہ اور ان کے رفقاء ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے اصولوں سے متفق ہیں تو انہیں ’’کون سا اسلام‘‘ کی بے جا رٹ چھوڑ کر تمام مکاتب فکر کے متفقہ ۲۲ دستوری نکات کو دستور پاکستان میں سموکر ان کی بنیاد پر نفاذ اسلام کا آغاز کر دینا چاہیے۔

پھر یہ دلیل اس وقت بھی دہرائی گئی تھی جب ۱۹۷۳ء کے دستور کے لیے دستور ساز اسمبلی میں بحث ہو رہی تھی اور دستور ساز اسمبلی میں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا عبد الحقؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا عبد المصطفٰی ازہریؒ، مولانا محمد ذاکر اور پروفیسر غفور احمد سمیت تمام بڑے مکاتب فکر کے نمائندے موجود تھے۔ اس وقت حکمران کیمپ کی طرف سے چیلنج کیا گیا تھا کہ یہ علماء تو مسلمان کی قانونی تعریف پر متفق نہیں ہو سکتے اس لیے اسلامی نظام کی متفقہ تعبیر کہاں سے لائی جائے گی مگر ان علماء کرام نے دستور ساز اسمبلی میں نہ صرف مسلمان کی متفقہ تعریف پیش کی بلکہ دستور میں اسلامی نکات کی شمولیت کے لیے متحد ہو کر پارلیمانی جنگ لڑی جس کے نتیجے میں حکمران کیمپ کو اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دینا پڑا اور ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھال دینے کی ضمانت دینا پڑی۔ اسمبلی میں موجود علماء کے اس موقف کو اسمبلی سے باہر کے تمام علماء کرام اور مکاتب فکر کی تائید حاصل تھی اور پوری قوم اس پر متفق تھی لیکن دستوری ضمانت کے باوجود ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہو ا اور قوم بدستور انتظار میں ہے۔

وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر سے گزارش ہے کہ اسی دستور نے اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی ہے جس میں نہ صرف تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام شامل ہیں بلکہ عصری قانونی نظام کے نمائندے بھی موجود ہیں۔ اس کونسل نے ملک کے قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے جو مسودات مرتب کیے ہیں اور جو سفارشات پیش کی ہیں ان پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا اجماع اور اتفاق ہے۔ اور ۲۲ دستور ی نکات کی اصولی اور آئینی دستاویز کے بعد ملکی قوانین کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ جامع اور مکمل رپورٹ دوسری بڑی دستاویز ہے جو متفقہ ہے جس سے ملک کے کسی مسلمہ مذہبی مکتب فکر کو اختلاف نہیں اور اس میں تمام مروجہ قوانین کے بارے میں تفصیلی تجزیہ اور سفارشات موجود ہیں۔ اس لیے جب دستور اور قانون دونوں معاملات میں قائم مذہبی جماعتوں کا اتحاد موجود ہے اور ریکارڈ پر ہے تو ہمارے وزیر داخلہ محترم علماء کرام سے اور کس قسم کے اتحاد کا تقاضا کر رہے ہیں اور انہیں مذہبی جماعتوں کے الگ الگ جھنڈوں میں کون سا ایسا اختلاف نظر آرہا ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ میں رکاوٹ بن سکتا ہو؟

وزیرداخلہ صاحب نے دوسری بات یہ کی ہے کہ اگر مذہبی جماعتیں مفید ہیں تو انہیں الیکشن میں عوامی حمایت حاصل کیوں نہیں ہوتی؟ ہمارا ان سے سوال یہ ہے کہ اگر عوامی حمایت ہی واحد معیار ہے اور انہوں نے سارے فیصلے اس کی کسوٹی پر پرکھ کر کرنے ہیں تو ان کے پاس بھاری عوامی مینڈیٹ رکھنے والی حکومت اور قومی اسمبلی کو توڑنے کا کیا جواز ہے؟ بے شک عوام نے مولویوں کی حمایت نہیں کی تھی مگر اس اسمبلی کو تو ووٹ دیے تھے، اسے توڑ کر جناب معین الدین حیدر وزارت داخلہ کا قلمدان کس اصول کے تحت سنبھالے ہوئے ہیں؟ ہماری گزارش کا یہ مطلب نہیں کہ ہم موجودہ حکومت کے قانونی اور اخلاقی جواز کو چیلنج کر رہے ہیں بلکہ ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا وجود اور اس میں جناب معین الدین حیدر کا وزارت داخلہ کے منصب کو سنبھالنا اس بات کی دلیل ہے کہ قومی معاملات میں عوامی حمایت اور ووٹنگ پاور واحد معیار نہیں ہے بلکہ اس کے ہوتے ہوئے بھی بعض دیگر امور کی طرف دیکھنا اور انہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہو جاتا ہے اور بسا اوقات قومی مفاد کے دیگر معاملات عوامی حمایت اور ووٹنگ پاور سے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں حتیٰ کہ ان کی خاطر عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والی اسمبلیوں اور حکومتوں کو برطرف کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام کے نفاذ کا معاملہ بھی ان اہم ترین قومی امور اور ملی معاملات میں سے ہے جنہیں صرف اس لیے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا پرچم اٹھانے والی جماعتوں کو الیکشن میں ووٹ نہیں ملتے۔ یہ ہمارے ایمان کا معاملہ ہے، پاکستان کی نظریاتی بنیاد کا مسئلہ ہے اور ملکی بقا و استحکام کا تقاضا ہے اور اسے اسی حوالہ سے دیکھنا ہوگا۔ ہم مانتے ہیں کہ دینی جماعتوں میں اختلافات موجود ہیں جو اسلامی دستور اور قوانین کے کسی مسئلہ یا ان کے نفاذ کے طریق کار پر نہیں ہیں بلکہ غیر متعلقہ امور اور قیادت کی ترجیحات پر ہیں، اور ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دینی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کی یہ باہمی معاصرت اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر آگے بڑھنے کی کشمکش نفاذ اسلام کی جدوجہد کے لیے سخت نقصان دہ ہے اور اسی وجہ سے انہیں انتخابات میں عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ ورنہ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دینی قوتیں متحد ہوئی ہیں عوام نے ان کے پرچم تلے مجتمع ہونے میں کبھی دیر نہیں لگائی۔

لیکن اس سب سے قطع نظر ہم جناب معین الدین حیدر سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ الگ الگ جھنڈے اٹھانے والی مذہبی جماعتوں کو ایک طرف رہنے دیں، انہیں آپس میں لڑنے جھگڑنے دیں، انہیں بھول جائیں اور صرف یہ دیکھیں کہ اسلام ہماری ملی ضرورت اور قومی تقاضا ہے۔ آپ خود مسلمان ہیں، قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہیں اور اسلامی نظام و قوانین کی ضرورت و اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، اس لیے جب آپ کے پاس اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت جیسے دستوری اداروں کے مرتب کردہ اسلامی قوانین کے مسودات موجود ہیں تو پھر آپ کو انتظار کس بات کا ہے؟ آپ انہیں نافذ کیوں نہیں کر دیتے اور دنیا کو یہ کیوں نہیں بتا دیتے کہ یہ مذہبی جماعتیں تو خود کو اس کا اہل ثابت نہیں کر سکیں مگر ہم نے پاکستان میں اسلامی نافذ کر دیا ہے اور نو آبادیاتی دور کے استحصالی نظام سے ملک کی جان چھڑا کر قرآن و سنت کے عادلانہ قوانین و احکام کی عملداری قائم کر دی ہے۔ اور اگر وزیر داخلہ صاحب ناراض نہ ہوں تو ڈرتے ڈرتے ان سے یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ کیا اسلامی نظام صرف مولویوں اور مذہبی جماعتوں کا مسئلہ ہے، آپ کا مسئلہ نہیں ہے؟ اور اگر یہ آپ کا مسئلہ بھی ہے تو پھر بال کو مولویوں کی کورٹ میں پھینک کر آپ خود کو ہر ذمہ داری سے بری الذمہ ظاہر کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟

   
2016ء سے
Flag Counter