سرکاری دفاتر میں اردو زبان کی ترویج کا مسئلہ

   
تاریخ : 
مئی ۲۰۱۲ء

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۴ اپریل کی خبر کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شیخ عظمت سعید نے اردو کو دفتری زبان قرار دینے کے لیے دائر درخواست پر وفاقی حکومت سے دس روز میں جواب جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان کو عدالتی معاونت کے لیے طلب کر لیا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل اےکے ڈوگر نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان میں اب بھی انگریزی کو دفتری زبان کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ درخواست گزار رانا علم الدین غازی کی جانب سے دائر درخواست میں وفاقی حکومت اور وزارت قانون و پارلیمانی امور کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19A کے تحت اردو کو بطور دفتری زبان رائج کیا جانا شہریوں کا آئینی حق ہے جسے گزشتہ ۶۴ برس سے سلب رکھا گیا ہے، انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے بعد آج ملک و قوم غیر ملکی غلامی کے علاوہ ملکی و ڈیروں، جاگیر داروں، سرمایہ داروں، سیاستدانوں اور حکمرانوں کے غلام ہیں، یہ غلامی غیروں کی غلامی سے بھی بدتر ہے۔

ہمارے حکمرانوں نے آج تک قانون کی حکمرانی قائم ہی نہیں ہونے دی اور آئین پر عملدرآمد کرنے میں ہمیشہ لیت و لعل سے کام لیا ہے۔ حالانکہ آئین کے آرٹیکل 25-1 میں واضح درج ہے کہ ۱۵ سال بعد اردو کو بطور دفتری زبان نافذ کر دیا جائے گا جس پر ۳۹ سال گزرنے کے باوجود عمل نہیں ہوا جو آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حالانکہ دنیا کی تمام قوموں نے اپنی قومی زبانوں کو دفتری زبان کے طور پر اختیار کر کے ہی ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ جبکہ جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کی موجودگی میں اردو کو دفتری زبان کے طور پر اختیار کرنا سادہ اور آسان راستہ ہے۔ اس لیے عدالت عظمیٰ آئین کے آرٹیکل 19A اور 25A پر عملدرآمد کرواتے ہوئے حکومت کو دفتروں میں اردو کو بطور زبان رائج کرنے کے احکامات صادر کرے تاکہ قومی اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے طلب کرنے پر حکومت پاکستان کیا جواب دیتی ہے اور اٹارنی جنرل آف پاکستان اس سلسلہ میں عدالت کی کیا معاونت کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت دے گا لیکن اس درخواست میں اختیار کیا گیا موقف اور درخواست گزار کا استدلال و جذبات پوری قوم کے خیالات و جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

اردو ہماری قومی زبان ہے اور جب سر سید احمد خان مرحوم کے دور میں مسلمانوں کو برصغیر کی ایک مستقل اور جداگانہ قوم قرار دیتے ہوئے اس کے لیے جداگانہ تشخص اور تحفظات کا مطالبہ کیا گیا تھا تو اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس کے تحفظ و ترویج کو بھی جداگانہ مسلم قومیت کے تقاضوں میں شامل کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بن جانے کے بعد اردو کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دیتے ہوئے اس کی ترویج و تحفظ کو دستور کا حصہ بنا یا گیا تھا جس کا تذکرہ مذکورہ درخواست میں آئینی دفعات کی صورت میں کیا گیا ہے۔ لیکن فرنگی زبان اور ثقافت سے ہمارے مقتدر حلقوں کی فدویانہ مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ قومی زبان کو دفتروں، عدالتوں اور دیگر ضروری مقامات میں اس کا صحیح مقام دینے کی بجائے ہر سطح پر انگریزی کو آگے بڑھانے اور قوم پر مسلط کرنے کی پالیسی تسلسل کے ساتھ جاری ہے، اور پاکستان کے اس لسانی تشخص کو بھی اسی طرح پامال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس طرح وطن عزیز کے نظریاتی اور دینی تشخص کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

اردو زبان کی طرح دستور پاکستان میں اس بات کی ضمانت بھی دی گئی ہے کہ دستور کے نفاذ کے بعد سات سال کے اندر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی صورت میں ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنا دیا جائے گا۔ مگر دستور کی ان دفعات کا حال بھی اردو والی دفعات سے مختلف نہیں ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ دستور کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی کے نام پر ایک نئے دور کا آغاز کرنے والی عدلیہ کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ابھی تک توفیق نہیں ہوئی۔

اس پس منظر میں ہم چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے حکومت کو دس دن کے اندر جواب دینے کے اس نوٹس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید کا اظہار کرتے ہیں کہ اردو زبان کی دفاتر اور عدالتوں میں ترویج کے لیے عدالت عظمٰی مؤثر کردار ادا کر کے پاکستان کے لسانی تشخص کی پاسداری کرے گی اور دستوری تقاضوں کی تکمیل کا اہتمام کرے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter