بجٹ کے مسائل اور حضرت شاہ ولی اللہؒ

   
تاریخ : 
۹ جولائی ۲۰۱۹ء

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اب سے تین صدیاں قبل سرکاری خزانے اور ٹیکسوں کے نظام پر بحث کرتے ہوئے ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں تحریر فرمایا تھا کہ:

’’ہمارے زمانے میں ملک کی ویرانی کے بڑے اسباب دو ہیں۔ ایک یہ کہ لوگوں کا بیت المال پر بوجھ بن جانا، اس طرح کہ بہت سے لوگ سرکاری خزانے سے وصولی کو ہی کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس بنیاد پر کہ وہ ملک کے لیے لڑنے والوں میں سے ہیں، یا ان علماء میں سے ہیں جو سرکاری خزانے پر اپنا حق سمجھتے ہیں، یا ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ سلوک بادشاہوں کی عادت ہے جیسے بزرگ شہری، شعراء یا بھیک مانگنے کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار کر کے۔ اور ان لوگوں کا مقصد محض اپنا پیٹ پالنا ہوتا ہے، بغیر اس کے کہ ان سے ملک و قوم کی مصلحت کا کوئی کام ہوتا ہو۔ اس طرح کے طبقات یکے بعد دیگرے بادشاہوں کے پاس آتے رہتے ہیں اور ان کے لیے زندگی مکدر کرنے کے ساتھ ساتھ ملک پر بوجھ بن جاتے ہیں۔

اور دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ کاشتکاروں، تاجروں اور پیشہ وروں پر بھاری ٹیکس لگا دینا اور ان پر وصولی میں سختی کرنا یہاں تک یہ بات احکام کی تعمیل کرنے والوں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہے اور جڑ سے اکھاڑ دیتی ہے حتٰی کہ وہ بغاوت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اہل زمانہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مملکت ہلکے ٹیکسوں اور بقدر ضرورت محافظین، سرکاری عملہ، پولیس وغیرہ مقرر کرنے سے ہی سنور سکتی ہے۔‘‘

اسی حوالہ سے شاہ صاحبؒ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

’’ضروری ہے کہ عشر و خراج اور دیگر ٹیکسوں کی وصولی کے لیے کوئی منصفانہ طریقہ ہو جو رعایا کے حق میں ضرر رساں نہ ہو اور ضروریات مملکت کے لیے کافی ہو جائے۔ یہ بات مناسب نہیں ہے کہ ہر شخص پر اور ہر قسم کے مال پر لگان مقرر کیا جائے۔ جبکہ مغرب و مشرق کے حکمرانوں میں اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ محصول اہل ثروت سے، جمع شدہ خزانوں سے اور مسلسل بڑھنے والے مال سے وصول کیا جائے۔ جیسے افزائش نسل کے لیے پالے جانے والے جانوروں، کھیتی باڑی اور مال تجارت سے وصول کیا جاتا ہے، وغیر ذٰلک۔‘‘

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا یہ تبصرہ اس دور کے حوالہ سے ہے جب یہاں مغل حکمرانی کا زمانہ تھا اور بادشاہوں کی حکومت تھی مگر بہت سی باتیں آج بھی اسی طرح ہیں البتہ اس کی صورتیں بدل گئی ہیں، مثلاً:

  • ملک و قوم کے لیے عملاً کچھ کیے بغیر سرکاری خزانے سے وصول کرنے کی نوعیت میں کچھ فرق آگیا ہے کہ حد سے زیادہ تنخواہیں اور مراعات، بلاضرورت عملہ اور افسروں کی مسلسل بھرتی، اور پروٹوکول اور سکیورٹی کے عنوان سے ہونے والے بے پناہ اخراجات اس کے نئے دائرے بن چکے ہیں۔
  • بادشاہوں کو قصیدہ گوئی کے ذریعے خوش کر کے عطیات وصول کرنے والے شعراء کی جگہ اب لفافے حاصل کرنے والے دیگر طبقات سامنے آچکے ہیں۔
  • البتہ علماء کے سرکاری خزانے پر بوجھ بننے کی صورت باقی نہیں رہی کیونکہ بادشاہی دور میں علماء کو جاگیریں اور تحائف دیے جاتے تھے اور وہ اپنی مرضی اور آزادی کے ساتھ دینی و علمی کام کرتے تھے۔ اب سرکاری خزانے میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اور وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں عام مسلمانوں کے رضاکارانہ تعاون سے ہی کرتے ہیں۔
  • ٹیکسوں کا نظام بھی اسی دائرے میں نظر آتا ہے جس کی شاہ صاحبؒ نے نشاندہی کی ہے اور اسے ملک کی تباہی کا بڑا سبب بتایا ہے۔ ملک کا ہر شہری بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ٹیکس دینے پر مجبور ہے، حتٰی کہ بنیادی ضروریات زندگی کا سامان خریدنے والا عام شہری بھی ٹیکس دیے بغیر کوئی چیز خرید نہیں سکتا۔ صورتحال یہ ہے کہ ٹیکس نہ دینے والے اور سرکاری خزانے سے بہرصورت وصول کرنے والے افراد و طبقات تو سب کچھ ہونے کے باوجود سرکاری خزانے کو کچھ نہیں دیتے مگر حب الوطنی یا مجبوری کے باعث شہریوں کو ہر ٹیکس دینا پڑتا ہے اور اسی کو شاہ صاحبؒ نے اس تعبیر کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ایسے افراد و طبقات کو ٹیکسوں کا سیلاب اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور جڑ سے اکھاڑ دیتا ہے۔
  • جبکہ اس کے ساتھ ملکی نظام میں خرابی کے اسباب میں ایک اور بڑے بلکہ سب سے بڑے سبب کا اضافہ ہو چکا ہے کہ ہم اپنے مالی معاملات طے کرنے میں خودمختار نہیں ہیں بلکہ عالمی مالیاتی ادارے اور استعماری قوتیں ہمارے معاشی نظام کو قرضوں کی مد میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ ہم اپنی مرضی کے ساتھ خود اپنے معاملات طے نہیں کر سکتے۔

چنانچہ ہمارا اصل مسئلہ قومی خودمختاری کی بحالی اور اپنے فیصلے خود کر سکنے کا اختیار حاصل کرنے کا ہے۔ ملک بھر میں بجٹ پر بحث جاری ہے، اس سلسلہ میں ارباب علم و دانش اور اصحاب فکر و فلسفہ سے عرض یہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی مذکورہ تحریر کی روشنی میں ہماری ان گزارشات پر بھی کچھ غور و خوض کی زحمت فرما لیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter