نتن یاہو، نریندرا مودی کے نقش قدم پر

   
تاریخ : 
۱۴ ستمبر ۲۰۱۹ء

اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے حوالہ سے ایک خبر سوشل میڈیا میں مسلسل گردش کر رہی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ اگر وہ آئندہ الیکشن میں کامیاب ہوئے تو غرب اردن کے بعض علاقوں کو وہ باقاعدہ اسرائیل میں شامل کر لیں گے۔

اسرائیل کی جو سرحدیں اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کے موقع پر طے کی تھیں، ان کے علاوہ اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے وہ بین الاقوامی دستاویزات میں متنازعہ سمجھے جاتے ہیں، اور غرب اردن کا وہ علاقہ بھی ان میں شامل ہے۔ چنانچہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے متنازعہ خطہ کو بھارت میں شامل کیے جانے کے اعلان پر عالمی قوتوں، بین الاقوامی اداروں اور حلقوں کے ڈھیلے ڈھالے ردعمل کو دیکھ کر اسرائیلی وزیراعظم کو بھی حوصلہ ہوا ہے اور انہوں نے یہ مبینہ اعلان کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں بحث کو بھی ہمارے ہاں وقفہ وقفہ سے زندہ رکھنے کی کوشش سوشل میڈیا پر دکھائی دے رہی ہے جس کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ شاید کسی وقت ’’داؤ لگ جائے‘‘۔

اس ضمن میں اب سے سولہ سال قبل ایک محترم دانشور کی طرف سے یہ سوال سامنے آیا تھا کہ اگر مسیحی ریاستوں کے ساتھ تعلقات درست ہیں تو یہودی بھی تو اہل کتاب ہیں، ان کی ریاست کو تسلیم نہ کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟ راقم الحروف نے اس پر چند گزارشات پیش کی تھیں جو ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کی ستمبر ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں شائع ہوئی تھیں، ان کا ایک حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

مسیحی اور دیگر غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ خلافت اسلامیہ اور مسلم حکومتوں کے سفارتی تعلقات ابتدائے اسلام سے چلے آرہے ہیں اور ان سے کبھی اختلاف نہیں کیا گیا۔ البتہ دو ہزار سال بعد ازسرنو قائم ہونے والی یہودی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کے ساتھ سفارتی تعلقات اور اسے تسلیم کرنے کا معاملہ اس سے مختلف ہے اور اس کی الگ وجوہ و اسباب ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

  1. مثلاً سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری وہاں کی صدیوں سے چلی آنے والی آبادی یعنی فلسطینیوں کی رضامندی کے ساتھ نہیں ہوئی، بلکہ پہلے برطانیہ نے اس خطہ پر ۱۹۱۷ء میں باقاعدہ قبضہ کر کے فوجی طاقت کے بل پر یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا ، اور اب امریکہ اور اس کے اتحادی پوری فوجی قوت استعمال کر کے فلسطینیوں کو یہودیوں کی اس جبری آباد کاری کو تسلیم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جس پر فلسطینی راضی نہیں ہیں کیونکہ یہ دھونس اور جبر کا راستہ ہے جسے دنیا کی کوئی مہذب اور متمدن قوم قبول نہیں کر سکتی۔

    ہمارا خیال ہے کہ جس طرح ہم کشمیر کے بارے میں اصولی موقف رکھتے ہیں کہ بھارتی فوج وہاں سے چلی جائے اور کشمیریوں کو کسی دباؤ کے بغیر اقوام متحدہ کے نظم کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے، اسی طرح فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے بارے میں ہمارا اصولی موقف یہ ہونا چاہیے کہ امریکہ اپنی فوجیں اس خطہ سے نکالے اور نہ صرف فلسطین بلکہ خلیج کے دیگر ممالک کو بھی فوجی دباؤ سے آزاد کر کے وہاں کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا آزادانہ موقع فراہم کرے۔ انصاف اور مسلمہ اصولوں کا تقاضا تو بہرحال یہی ہے اور اگر بالادست قوتیں طاقت کے نشے میں اس اصول پر نہیں آتیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے موقف سے دستبردار ہو جائیں اور بے اصولی اور دھونس کو اصول و قانون کے طور پر تسلیم کر لیں۔

  2. پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ایک عملی رکاوٹ یہ بھی ہے جسے دور کیے بغیر اسے تسلیم کرنا قطعی طور پر نا انصافی کی بات ہوگی۔ وہ یہ کہ اسرائیل کی سرحدی حدود اربعہ کیا ہیں؟ یہ بات ابھی تک طے نہیں ہو سکی۔ بہت سے عرب ممالک اور فلسطینی عوام کی اکثریت سرے سے فلسطین کی تقسیم کو قبول نہیں کر رہی۔ جبکہ اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جو سرحدات اپنی قراردادوں میں طے کر رکھی ہیں، انہیں اسرائیل تسلیم نہیں کر رہا۔
    • اسرائیل کی اقوام متحدہ کی طرف سے طے کردہ سرحدات اور ہیں،
    • اس وقت اس کے زیر قبضہ علاقے کی حدود اربعہ اور ہیں،
    • کسی اصول اور قانون کی پروا کیے بغیر پورے فلسطین میں دندناتے پھرنے سے اس کی سرحدوں کا نقشہ بالکل دوسرا دکھائی دیتا ہے،
    • اور اسرائیلی حکمرانوں کے عزائم پر مشتمل ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا جو نقشہ ریکارڈ پر موجود ہے، وہ ان سب سے مختلف ہے۔
    • اس کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم شیرون کا یہ اعلان کئی بار سامنے آ چکا ہے کہ وہ فلسطین کی مجوزہ ریاست کو صرف اس شرط پر تسلیم کریں گے کہ اس کی سرحدات کا تعین نہیں ہوگا اور اس کی الگ فوج نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ اسرائیل پورے فلسطین پر حکمرانی کے حق کا اعلان کر رہا ہے اور فلسطینیوں کو سرحدات کے تعین کے ساتھ کوئی چھوٹی سی برائے نام ریاست دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔
  3. اس کے علاوہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے قبل آپ کو بیت المقدس کے بارے میں بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور اس کی دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو اسرائیل کو بیت المقدس سے دستبرداری پر آمادہ کر لیں اور یا خود ’’یو ٹرن‘‘ لے کر بیت المقدس سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیں۔

یہ تینوں رکاوٹیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے، عملی اور معروضی ہیں، ان کا کوئی باوقار اور قابل عمل حل نکال لیں اور بے شک اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر اسی طرح تسلیم کر لیں جس طرح ہم بہت سے مسیحی ممالک کو تسلیم کرتے آ رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس حوالے سے بات عملی مسائل اور معروضی حقائق پر ہونی چاہیے، نظری اور فکری مباحث میں الجھا کر اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter