پاکستانی خواتین کے حقوق اور صدر مشرف

   
تاریخ : 
اکتوبر ۲۰۰۵ء

نیویارک میں پاکستانی خواتین کے اجتماع سے صدر پرویز مشرف کا خطاب ان دنوں عام طور پر موضوع بحث ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے صدر پرویز مشرف کی نیویارک آمد کے موقع پر یہاں کے بعض پاکستانی حلقوں نے ’’خواتین کانفرنس‘‘ کا اہتمام کیا جس میں صدر پاکستان کے بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ خواتین کے حقوق و مسائل کے حوالے سے صدر محترم پاکستان میں جو کوششیں کر رہے ہیں یا حکومت پاکستان جو اقدامات کر رہی ہے، ان سے عالمی سطح پر لوگوں کو متعارف کرایا جائے اور اس عنوان سے صدر پرویز مشرف کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو اجاگر کیا جائے، لیکن بات الٹ ہو گئی اور بجائے لینے کے دینے پڑ گئے۔

ہوا یوں کہ صدر پرویز مشرف کی نیویارک آمد پر ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے نمائندے نے ان سے ملاقات کے دوران مختاراں مائی کے مسئلہ پر ان سے سوال کیا اور یہ دریافت کرنا چاہا کہ مختاراں مائی کے امریکہ آنے میں حکومت پاکستان رکاوٹ کیوں بنی ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ اس سلسلہ میں انہوں نے جو کچھ کیا ہے درست کیا ہے کیونکہ مختاراں مائی کچھ ایسی تنظیموں (این جی اوز) کے زیر اثر آ گئی تھی جو پاکستان کو بدنام کر رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے بقول انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستان میں یہ کام منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے کہ جس کو ویزا لینا ہے تو وہ ریپ کرا کے لکھ پتی بن جائے گی اور اس کو کینیڈا کا ویزا اور شہریت بھی مل جائے گی۔ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں ان کا یہ بیان شائع ہونے پر خاصی لے دی ہوئی اور یہ کہا گیا کہ انہوں نے یہ کہہ کر پاکستانی عورتوں کی توہین کی ہے، حتیٰ کہ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور بہت سے دیگر لیڈروں نے مطالبہ کیا کہ صدر پرویز مشرف اس بیان پر معافی مانگیں۔ اس پر صدر پرویز نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا، البتہ یہ کہا کہ ان کے بیان کی صحیح طور پر رپورٹنگ نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ کچھ لوگ ایسے کہتے ہیں، یہ بیان ان کی طرف سے شائع کر دیا گیا۔ مگر واشنگٹن پوسٹ نے اس وضاحت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے وہی کچھ شائع کیا ہے جو صدر پرویز مشرف نے کہا تھا اور اس سلسلہ میں کوئی ’’مس رپورٹنگ‘‘ نہیں ہوئی۔

اس کے بعد جب صدر پرویز مشرف نے ’’خواتین کانفرنس‘‘ سے خطاب کیا اور اس میں عورتوں کے حقوق و مسائل کے بارے میں اپنے موقف اور حکومت پاکستان کے بہت سے اقدامات کا تذکرہ کیا تو ایک خاتون نے ان سے واشنگٹن پوسٹ کے اس بیان کے حوالے سے استفسار کیا جس پر وہ برہم ہو گئے اور سوال و جواب نے شدت اختیار کر لی۔ اس واقعہ کی رپورٹنگ نیویارک سے شائع ہونے والے اردو جریدہ ہفت روزہ ’’پاکستان نیوز‘‘ نے ۲۲ تا ۲۸ ستمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت میں اس طرح کی ہے:

’’روز ویلٹ ہوٹل کے کانفرنس روم میں ہونے والی اس تقریب میں پاکستان کے سربراہ مملکت اور ورجینیا سے تعلق رکھنے والی خاتون صابرہ قریشی کے درمیان گرماگرم تکرار اور مکالمہ بازی کی وجہ دو سوالات تھے۔ صابرہ قریشی صدر پرویز مشرف سے پوچھنا چاہتی تھیں کہ اگر وہ واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے اپنے بیان کی تردید کرتے ہیں تو کیا وہ پوسٹ سے ان کا بیان واپس لینے کو کہیں گے؟ جس پر صدر مشرف اپنے ضبط پر قابو نہ رکھ سکے اور کہا کہ ’’تمھارے لیڈر جھوٹے ہیں اور انہوں نے تمھیں جھوٹ بتایا ہے‘‘۔ صدر کے الزام کے جواب میں صابرہ نے کہا کہ ’’ہمارے لیڈر تو آپ ہی ہیں۔ ‘‘ صابرہ قریشی نے دوسرا سوال کچھ ان الفاظ میں کیا کہ ’’ہم نے اور یہاں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے آپ سے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ پاکستان میں خواتین کے حالات اور امتیازی قوانین بدلیں گے، لیکن آپ نے ہمیں سخت مایوس کیا۔ ‘‘ اس سوال کے جواب میں صدر انتہائی غصے میں کہنے لگے کہ ’’آپ نے بھی مجھے بہت مایوس کیا ہے، آپ جیسے لوگ قومی مفاد کے خلاف ہیں۔ میں ایک سپاہی ہوں۔ میں آپ سے لڑوں گا اور اگر آپ چیخیں گی تو میں آپ سے زیادہ چیخ سکتا ہوں۔ ’’ اس موقع پر امریکہ میں پاکستان کے سفیر جنرل جہانگیر کرامت اپنی نشست سے اٹھے، صدر کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مائیک خود سنبھال لیا۔‘‘

جہاں تک اس سوال و جواب کا تعلق ہے، ہمارے خیال میں یہ ایک باقاعدہ پلاننگ کا حصہ تھی، اس لیے کہ اس سے ایک روز قبل نیویارک کے کوئینز کے علاقے جیکسن ہائیٹ میں ہونے والا ایک اجلاس ہمارے علم میں ہے جس میں صدر پرویز مشرف کے مخالف سیاسی کارکن جمع تھے اور صدر کی نیویارک آمد کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ اس موقع پر ایک اہم سیاسی لیڈر نے غیر رسمی گفتگو میں بعض حاضرین کو بتایا کہ ہم نے اپنے آدمی تیار کر دیے ہیں جو کسی نہ کسی طرح صدر پرویز مشرف کے اجتماعات میں شریک ہو جائیں گے اور ایسے سوالات کریں گے کہ جنرل پرویز مشرف کے لیے اپنی گفتگو کو جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ بات سن کر ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا، لیکن ہماری وہاں حاضری محض اتفاقی تھی اور اس سلسلے کے کسی منصوبے میں شمولیت ہمارا مقصد نہیں تھا، اس لیے خاموشی اختیار کر لی۔

جہاں تک ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ سے جنرل پرویز مشرف کی گفتگو کا تعلق ہے، اس کے اس پہلو سے کسی طرح اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں یہ کام اب منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور عورتیں ویزا حاصل کرنے اور مال کمانے کے لیے یہ کام جان بوجھ کر کرواتی ہیں۔ صدر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ بات بعض لوگوں کے تاثرات بیان کرتے ہوئے نقل کی تھی لیکن یہ بات اتنی لغو ہے کہ انہیں کسی کی طرف سے یہ بات نقل بھی نہیں کرنی چاہیے تھے، اس لیے کہ یہ بات درست نہیں ہے اور کسی پاکستانی عورت کے بارے میں یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ وہ ایسے کسی مقصد کے لیے اپنی عزت جان بوجھ کر لٹوائے گی اور جبری زنا کا ڈرامہ رچائے گی۔ البتہ صدر کا یہ کہنا بہرحال درست ہے کہ بعض این جی اوز اس قسم کے واقعات کو مفادات حاصل کرنے اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے تک مغربی ممالک بالخصوص جرمنی اور کینیڈا میں ویزے کے حصول اور سیاسی پناہ کے لیے سب سے زیادہ کامیاب حربہ یہ تھا کہ خود کو قادیانی ظاہر کر کے اور مذہبی امتیاز کے حوالے سے ان ملکوں کی حکومتوں کی ہمدردی حاصل کرکے بہت سے لوگ سیاسی پناہ یا ویزا حاصل کر لیتے تھے، یا توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کو پاکستان میں اس کی سخت ترین سزا سے بچنے کے لیے مغربی ممالک میں سیاسی پناہ یا ویزا مل جایا کرتا تھا۔ مصر کے ڈاکٹر نصر ابو زید، بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین اور گوجرانوالہ پاکستان کے سلامت مسیح سمیت بہت سے لوگوں کو اس بنیاد پر مغرب کے بعض ممالک میں سیاسی پناہ ملی، بلکہ ۱۹۸۸ء میں نیویارک میں گوجرانوالہ کے ایک نوجوان سے ہماری ملاقات ہوئی جو قادیانی نہیں تھا لیکن قادیانی بن کر اس نے سیاسی پناہ حاصل کر رکھی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ میں سالہا سال مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں آپ کے پیچھے نمازیں پڑھتا رہا ہوں اور اب بھی قادیانی نہیں ہوں، لیکن یہاں میں نے اس نام سے سیاسی پناہ حاصل کر رکھی ہے، مجبوری کے درجے میں قادیانی اجتماعات میں جاتا ہوں اور ان کا لٹریچر بھی مسلمانوں میں تقسیم کرتا ہوں۔

ایک عرصہ تک پاکستان میں مذہب کے عنوان سے امتیازی قوانین کا حوالہ دے کر ہمارے بہت سے لوگ مغربی حکومتوں کو دھوکہ دیتے رہے۔ اب کچھ عرصہ سے طریق کار میں تبدیلی آ گئی ہے اور این جی اوز کو مغربی حکومتوں اور اداروں کو جھانسا دینے کے لیے سب سے زیادہ کارآمد ہتھیار جبر کا شکار ہونے والی عورت کی صورت میں سامنے آ گیا ہے جسے وہ بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کر رہی ہیں۔ قارئین کو لاہور کا ’’صائمہ کیس‘‘ یاد ہوگا کہ ایک لڑکی نے ماں باپ کی مرضی کے بغیر شادی کر لی تھی جس پر ماں باپ نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچا تھا، این جی اوز کی دنیا کی ملکہ عاصمہ جہانگیر کی کوششوں سے اس کیس نے عالمی شہرت حاصل کر لی تھی، پھر اس کیس کو جس تیزی کے ساتھ نمٹایا گیا، مغربی حکومتوں اور لابیوں نے اس میں جس طرح دلچسپی لی، اور جس انداز سے اس جوڑے کو ایک مغربی ملک میں سیاسی پناہ فراہم کی گئی، وہ اس مہم کی شروعات تھی اور اب مختاراں مائی اور ڈاکٹر شازیہ کے معاملات نے اسے عروج تک پہنچا دیا ہے۔

مختاراں مائی اور ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ یقیناً ظلم ہوا ہے اور زیادتی ہوئی ہے جس پر قوم کے ہر فرد کی ہمدردی ان کے ساتھ ہے، لیکن ان کے کیس کو این جی اوز نے جس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور اب بھی مسلسل کر رہی ہیں، وہ ایک الگ المناک باب ہے۔ ایک معصوم اور پاک دامن عورت کے ساتھ جبر بہت بڑا ظلم ہے، لیکن اس کی مظلومیت اور عصمت دری کو پوری دنیا میں مشتہر کر کے اس کی بدنامی کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جانا اس سے بھی بڑا ظلم ہے۔

پاکستان میں عورت کو جبر سے بچانا، خواہ وہ جبر ریپ کی شکل میں ہو یا اس کی مرضی کے خلاف جبری شادی کی صورت میں ہو، ہماری انسانی اور دینی ذمہ داری ہے، اور اس کے لیے حکومت کو ضروری اقدامات کرنے چاہئیں، لیکن کسی عورت کی مظلومیت اور عصمت دری کو ملک کی بدنامی اور مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنا اس سے بھی بڑا ظلم ہے۔ صدر پرویز اگر دونوں معاملات کو سامنے رکھ کر اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے پیشرفت کریں تو انہیں اس معاملے میں قوم کے ہر باشعور فرد کی حمایت حاصل ہوگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter