’’عصر حاضر میں اجتہاد ۔ چند فکری و عملی مباحث‘‘

   
حوالہ: 
تاریخ : 
۵ دسمبر ۲۰۰۷ء

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ تبارک و تعالیٰ و نصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم و علیٰ آلہ و اصحابہ و اتباعہ اجمعین۔

’’اجتہاد‘‘ موجودہ دور میں زیر بحث آنے والے اہم عنوانات میں سے ایک ہے اور دین کی تعبیر کے حوالے سے قدیم و جدید حلقوں کے درمیان کشمکش کی ایک وسیع جولانگاہ ہے۔ اس پر دونوں طرف سے بہت کچھ لکھا گیا ہے، لکھا جا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا اور جب تک قدیم و جدید کی بحث جاری رہے گی، یہ موضوع بھی تازہ رہے گا۔ اجتہاد کے حوالے سے اس وقت عام طور پر دو نقطہ نظر پائے جاتے ہیں:

ایک یہ کہ دین کے معاملات میں جتنا اجتہاد ضروری تھا وہ ہو چکا ہے، اب اس کی ضرورت نہیں ہے، اس کا دروازہ کھولنے سے دین کے احکام و مسائل کے حوالے سے پنڈورا بکس کھل جائے گا اور اسلامی احکام و قوانین کا وہ ڈھانچہ جو چودہ سو سال سے اجتماعی طور پر چلا آرہا ہے، سبوتاژ ہو کر رہ جائے گا، اس لیے اجتہاد کا نام نہ لیا جائے، اس کی بات کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اجتہاد کے عنوان سے کوئی بات نہ سنی جائے۔ اس طرح ایک حلقے میں اجتہاد کا لفظ دین کے مسائل میں الحاد اور بے راہ روی کا مترادف سمجھا جانے لگا ہے۔

جب کہ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اجتہاد آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے، دین کے پورے ڈھانچے کو اس عمل سے دوبارہ گزارنا وقت کا اہم تقاضا ہے، ہر مسئلہ میں اور ہر سطح پر اجتہاد ہونا چاہیے، اجتہاد کے نام پر دین کے پورے ڈھانچے کی ’’اوور ہالنگ‘‘ کر کے اسلام کو نئے انداز میں پیش کیا جانا چاہیے، اور خاص طور پر جدید مسائل و مشکلات اور عالمی ماحول کے معاشرتی تقاضوں کا اجتہاد کی روشنی میں حل نکالا جانا چاہیے تاکہ جدید عالمی فکر اور اسلام میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔

یہ دونوں نقطۂ نظر اپنی پشت پر ایک سوچ رکھتے ہیں اور پس منظر رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی اپنی جگہ مضبوطی سے کھڑے ہیں اور اپنے دائرہ فکر سے ہٹ کر کوئی بات سننے کے روادار نہیں ہیں۔ پہلے نقطہ نظر کی بنیاد ’’تحفظات‘‘ پر ہے کہ اسلام کے خلاف مغربی دنیا کے مقاصد میں یہ بات شامل ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کی حقیقی صورت سے محروم کر کے برائے نام مسلمان بنایا جائے اور اس طرح اسلام کے ایک فلسفہ حیات اور نظام زندگی کے طور پر دوبارہ ابھرنے کے امکانات کو روکا جائے، اس لیے تبدیلی اور تغیر کی کوئی بات اس ماحول میں قبول نہ کی جائے اور ایسی ہر کوشش کو مغرب کی معاونت سمجھ کر رد کر دیا جائے۔ دوسرے نقطۂ نظر کی بنیاد ’’اقدام‘‘ کی سوچ پر ہے کہ اگر اسلام کو تحفظات کے دائرہ سے نکل کر آج کے عالمی ماحول میں آگے بڑھنا ہے اور دنیا کی دوسری اقوام کے سامنے اسے پیش کرنا ہے تو آج کی عالمی ماحول کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس کی ’’اوور ہالنگ‘‘ ضروری ہے، اسے آج کی اصطلاحات اور علمی معیار کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہم موجودہ دور میں کسی بھی شعبہ میں اسلام کی پیشرفت کی راہ ہموار نہیں کر سکیں گے۔

ہمارے نزدیک یہ دونوں نقطۂ نظر انتہاپسندانہ ہیں، دونوں فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے موقف اور نقطۂ نظر کا ازسرنو جائزہ لیں اور تحفظات اور اقدامات کے دونوں پہلوؤں کا لحاظ کرتے ہوئے اعتدال اور توازن کا موقف اختیار کریں، جو اس معاملہ میں آج عالم اسلام کی سب سے اہم ضرورت ہے اور جس کا فقدان بہت سے معاملات میں مسلمانوں کی پیشرفت کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ راقم الحروف اپنے مضامین اور تحریروں میں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر کچھ نہ کچھ گزارشات پیش کرتا چلا آ رہا ہے جن میں سے اہم مضامین زیرنظر مجموعہ کی صورت میں قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ امید ہے کہ احباب اس حقیر کاوش کو قبول کرتے ہوئے ہمیں اپنی مخلصانہ دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں گے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی مثبت اور مؤثر خدمت کی توفیق سے ہمیشہ نوازتے رہیں۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter