دینی حلقوں کا بڑھتا ہوا اضطراب

   
تاریخ : 
۱۰ اپریل ۲۰۲۰ء

کرونا بحران کی سنگینی اور وسعت میں مسلسل اضافہ کے باوجود احتیاطی تدابیر اور علاج و معالجہ کے انتظامات کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن سے متاثرہ افراد و طبقات کو ضروری کام کاج کی مختلف شعبوں میں سہولت دی جا رہی ہے مگر مسجد و مدرسہ اور نماز باجماعت و جمعۃ المبارک پر پابندیوں کا دائرہ دن بدن تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ حتٰی کہ رمضان المبارک کے بارے میں ابھی سے سرکاری حلقوں کی طرف سے ہدایات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں کہ سابقہ پابندیوں کے ساتھ ساتھ نماز تراویح کے لیے بھی مسجدوں میں گنجائش نہیں دی جائے گی۔

اس پر ملک بھر میں اضطراب و بے چینی بڑھ رہی ہے جس کا اظہار بھی شروع ہو گیا ہے۔ گزشتہ روز جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی، پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے امیر مولانا قاری جمیل الرحمان اختر اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہنما مولانا عزیز الرحمان ثانی گوجرانوالہ تشریف لائے اور اس سلسلہ میں ان کے ساتھ تفصیلی گفتگو ہوئی۔ جبکہ ۸ اپریل کو گوجرانوالہ میں مختلف مکاتب فکر کے دو مشترکہ اجلاس ہوئے جن میں اس عمومی تشویش و اضطراب کو مؤثر اور مربوط عوامی رابطہ مہم کی شکل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک اجلاس مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کی دعوت پر اس کے دفتر میں مولانا علامہ خالد حسن مجددی کی صورت میں جبکہ دوسرا ماربل ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر جناب میاں گلزار احمد کی دعوت پر ان کی فیکٹری میں راقم الحروف کی صدارت میں منعقد ہوا جن میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان اجلاسوں کی تفصیلات اگلے کالم میں پیش کی جائیں گی، ان شاء اللہ تعالٰی۔

سردست ملی مجلس شرعی پاکستان کا مرتبہ موقف ملک کے علمی حلقوں کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ملی مجلس شرعی پاکستان مختلف دینی مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کا علمی و فکری فورم ہے جو دینی و ملی مسائل پر مشترکہ موقف کے اظہار کی روایت کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ ملی مجلس شرعی پاکستان کے صدر محترم حضرت مولانا مفتی محمد خان قادریؒ کا گزشتہ دنوں انتقال ہو گیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ اہل سنت و جماعت بریلوی مکتب فکر کے اکابر علماء کرام میں سے تھے اور ہمارے مشفق و مدبر راہنما تھے، اللہ تعالٰی ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ ان کی وفات کے بعد نئے صدر کے انتخاب تک سینئر نائب صدر کے طور پر معاملات کو چلانا راقم الحروف کی ذمہ داری ہے اس لیے میری گزارش پر کونسل کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین نے علامہ خلیل الرحمان قادری اور دیگر سرکردہ حضرات کے مشورہ سے درج ذیل مشترکہ موقف ترتیب دیا ہے جس کے بارے میں تمام مکاتب فکر کے ارباب علم و فضل سے درخواست کی جا رہی ہے کہ اس کی تائید فرمائیں اور اسے مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی قیمتی تجاویز اور آرا کے ساتھ ہماری راہنمائی فرمائیں تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ جامع بنایا جا سکے۔

’’ملی مجلس شرعی جو سارے دینی مکاتب فکر کے معتدل مزاج علماء کرام کی ایک علمی مجلس ہے، اس کے سینئر علماء کرام نے ٹیلیفون اور واٹس ایپ کے ذریعے باہم مشاورت سے کرونا کی وجہ سے پیش آنے والے حالات میں مندرجہ ذیل قرارداد پاس کی ہے۔

(۱) مجلس ان مشکل حالات میں سارے مسلمانوں کو رجوع لی اللہ اور کثرت ذکر، استغفار اور توبہ کی تلقین کرتی ہے تاکہ ہم اللہ تعالٰی کو راضی کر سکیں اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ لیکن توبۃ النصوح کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری توبہ محض زبانی کلامی نہ ہو بلکہ ہم نادم ہوں اور معصیت سے عملاً باز آ جائیں، لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنا احتساب کرے اور معصیت سے عملاً باز آ جائے۔

ہم حکمرانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھی ریاستی سطح پر معصیت سے باز آ جائیں، اللہ تعالٰی کے احکام کی پابندی کریں اور پاکستان میں شریعت نافذ کریں۔ خصوصاً وہ چیزیں جو اللہ کو بہت ناراض کرنے والی ہیں، ایک سود جو اللہ و رسول سے اعلان جنگ ہے اور دوسرے فحاشی و عریانی اور زنا، جسے پھیلانے والے کو اللہ نے دنیا میں عذاب کی دھمکی دی ہے اور ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اچانک بیماریوں کے پھیلنے کا سبب قرار دیا ہے۔ لہٰذا ہم وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سود ختم کرنے اور آئین میں مذکور حدود اللہ کے عملی نفاذ اور میڈیا کی اصلاح کے عملی اقدامات کا اعلان کریں۔

(۲) کرونا وبا سے نمٹنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ بھرپور احتیاط کی جائے اور توجہ سے علاج کرایا جائے۔ ہم عوام سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ مکمل احتیاط کریں اور حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کے علاج کا موثر انتظام کریں۔ پاکستانی ڈاکٹروں، سائنسدانوں اور اطبا کو چاہیے کہ وہ اس کا علاج دریافت کرنے پر محنت کریں۔

(۳) مجلس عوام سے درخواست کرتی ہے کہ وہ قرآنی حکم کے مطابق صبر اور نماز سے وبا کا مقابلہ کریں، حمل و برداشت سے کام لیں اور پرسکون رہیں۔ خوف و ہراس، اضطراب اور افراتفری کی فضا پیدا کرنا اور غیر مصدقہ خبریں اور افواہیں پھیلانا ہر لحاظ سے غلط ہے۔ یہ شرعی تعلیمات کے بھی خلاف ہے اور ایمانی، نفسیاتی اور جسمانی صحت کے لیے بھی مضر ہے۔ حکومت اور میڈیا کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

(۴) ملک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزدور اور دیہاڑی دار طبقہ اچانک بھوک و افلاس کا شکار ہو گیا ہے۔ مجلس حکمرانوں اور عوام میں سے کھاتے پیتے لوگوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ غریب اور پسماندہ طبقہ کی فوری مالی امداد کریں اور انہیں راشن اور بنیادی ضروریات زندگی مہیا کریں۔

(۵) احتیاط کا تقاضا ہے کہ میل جول کم سے کم رکھا جائے، ہاتھ دھوئے جائیں اور ماسک پہنے جائیں۔ لیکن ناگزیر حالات میں خود حکومت نے بیسیوں قسم کے اداروں، کارخانوں، فیکٹریوں، بینکوں، منڈیوں، ہسپتالوں، ہوٹلوں وغیرہ کے عملے کو احتیاطی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ اسی طرح ساری احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کو باجماعت نماز، جمعہ اور تدفین میت کی اجازت ہونی چاہیے۔

لہٰذا ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ اجازت دی جائے۔ اصل یہ ہے کہ اہل علم اور ریاستی اداروں کو عجلت میں دینی فرائض و واجبات کی ادائیگی میں تعطل پیدا کرنے کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ اسی طرح تبلیغی جماعت کے افراد کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک نہ کیا جائے، ان کے پھنسے ہوئے افراد کو نکالا جائے اور جو لوگ وبا سے متاثر نہیں ہیں انہیں گھر جانے کی اجازت دی جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ رجوع الی القرآن کا ماحول پیدا کرے اور ملک کے دین پسند عوام سے بُعد اور ان کے ساتھ کشمکش سے بچے۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter