مسلم سربراہ کانفرنس کا ’’اعلانِ مکہ‘‘

   
تاریخ : 
۱۲ دسمبر ۲۰۰۵ء

اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم کا غیر معمولی سربراہی اجلاس مکہ مکرمہ میں دو روز جاری رہنے کے بعد ’’اعلانِ مکہ‘‘ کی منظوری کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ کانفرنس میں شریک مسلم سربراہان مملکت نے بیت اللہ شریف کا اکٹھے طواف کیا اور سعودی فرمانروا شاہ عبد اللہ کے ہمراہ بیت اللہ شریف کے اندر بھی گئے۔ اعلانِ مکہ کی جو تفصیلات ایک قومی اخبار کے ذریعے سامنے آئی ہیں ان کے مطابق اس کے اہم نکات یہ ہیں:

  • مسلم سربراہان مملکت نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ دہشت گردی اور جائز تحریکوں میں فرق کیا جائے۔
  • اسلام کو بدنام کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنا دیا جائے گا۔
  • مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی خواہش کے مطابق حل کیا جائے۔
  • اعلان میں امت مسلمہ کو درپیش حالات اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ادارہ بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔
  • عراق میں عوام کے خلاف دہشت گردی کے نام پر آپریشن کی مخالفت کی گئی اور عراقی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔
  • کسی بھی رکن ملک کے خلاف غیر ملکی دھمکیوں کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا۔
  • اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم کے رکن ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور کردار ادا کریں۔
  • بین الاقوامی سطح پر مفاہمت اور اعتدال پسندی کو اپنایا جائے اور مسلمان ممالک اپنے تعلیمی نصاب اس طرح مرتب کریں کہ ان کے ذریعے برداشت اور مفاہمت کو فروغ حاصل ہو، اس سلسلہ میں اسکالرز کے اکیڈمک فورمز میں بھی اصلاحات پر زور دیا گیا۔
  • اسلامی دنیا کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے فری ٹریڈ زون قائم کیا جائے۔
  • اسرائیلی فوجیں ۱۹۶۷ء میں قبضے میں لیے گئے علاقے سے نکل جائیں، جس میں شام کی گولان کی پہاڑیاں اور لبنانی سرزمین بھی شامل ہے۔
  • بیت المقدس کی اسلامی اور تاریخی شناخت کو تحفظ دیا جائے اور مسلم ممالک مسجد اقصٰی کے تحفظ کے لیے ضروری وسائل مختص کریں تاکہ فلسطینی اداروں کو مدد دی جا سکے اور مقبوضہ بیت المقدس میں ’’الاقصٰی یونیورسٹی‘‘ قائم ہو۔
  • مسلم ممالک یہودی بستیاں ختم کرنے اور نئی بستیوں کا قیام روکنے کے لیے بین الاقوامی برادری سے تعاون کریں، اسرائیلی دیوار کی تعمیر روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اس کے تعمیری حصے ختم کرائیں۔
  • اعلان میں تمام اقوام عالم کے درمیان مفاہمت پر زور دیا گیا ہے اور مسلمانوں میں باہمی ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے فتوؤں کی مخالفت کی گئی ہے۔

مسلم حکومتوں کے سربراہوں کی یہ غیر معمولی کانفرنس جس عالمی تناظر اور پس منظر میں ہوئی ہے اس کے پیش نظر یہ بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اور اس کے فیصلے اور اعلانات یقیناً موجودہ حالات میں دنیا کی مسلم حکومتوں کی پالیسیوں کے مجموعی رخ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کشمیریوں کی خواہشات کو بنیاد قرار دینے، اسرائیل سے ۱۹۶۷ء میں قبضہ کیے گئے علاقے خالی کرنے کا مطالبہ، اقوام متحدہ سے دہشت گردی اور جائز تحریکات آزادی میں فرق کرنے کے تقاضے، بیت المقدس کی اسلامی شناخت کے تحفظ کے عزم، اسلامی ممالک میں آزادانہ تجارت کے فروغ کے لیے فری ٹریڈ زون کے قیام، اور اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم کو مؤثر اور فعال بنانے کا تعلق ہے، یہ باتیں دنیا کے ہر مسلمان کے دل کی آواز ہیں اور مسلمانانِ عالم کے جذبات و احساسات کی اعلٰی سطح پر اجتماعی ترجمانی پر کانفرنس کے شرکاء تبریک و تشکر کے مستحق ہیں۔ مگر دو حوالوں سے ’’اعلانِ مکہ‘‘ کی اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کی روشنی میں ہم اپنے تحفظات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں:

  1. ایک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالہ سے،
  2. اور دوسرا تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے بارے میں اعلانِ مکہ میں کہی گئی باتوں میں ہمیں ابہام اور کسی حد تک تضاد محسوس ہوتا ہے اور ہم ان کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔

دہشت گردی اور تحریکات آزادی میں فرق کرنے کا مطالبہ نہ صرف درست ہے بلکہ موجودہ عالمی صورتحال اور کشمکش میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بات خود اقوام متحدہ کے فورم پر کئی بار سامنے آ چکی ہے کہ دہشت گردی کی کوئی ایسی واضح تعریف طے کی جائے جو اقوام و ممالک کی جائز تحریکات آزادی اور دہشت گردی کے درمیان امتیاز قائم کرتی ہو۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے بڑے ممالک ایسا نہیں چاہتے اور وہ دہشت گردی کے الزام کے ساتھ دنیا میں اپنے ہر مخالف کو ہر حالت میں کچل دینے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اقوام متحدہ یا کسی بھی عالمی فورم پر دہشت گردی کی کسی واضح تعریف کے تعین کی بات کو اپنے عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور اس اصولی مطالبہ کے قبول کیے جانے کی راہ میں حائل ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف حالیہ جنگ کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور موجودہ امریکی قیادت اس عنوان سے کیا کچھ کر رہی ہے اس کی ایک جھلک امریکہ ہی کے ایک سابق صدر جناب جمی کارٹر کے اس مضمون میں دیکھی جا سکتی ہے جو امریکہ کے معروف اخبار ’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘ نے شائع کیا ہے اور جس کا اردو ترجمہ روزنامہ پاکستان لاہور نے ۱۸ نومبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت میں پیش کیا ہے۔ اس مضمون میں جناب جمی کارٹر موجودہ امریکی قیادت کے طرزعمل پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’ایک طرف ہماری فوج مصروف جنگ ہے اور دوسری طرف ہمیں مزید دہشت گرد حملوں کے خطرات لاحق ہیں، پھر بھی ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’یا تو ہمارا ساتھ دو یا ہم تمہیں اپنا مخالف سمجھیں گے‘‘۔ ہم نے کسی کے لیے کوئی تیسرا راستہ رہنے ہی نہیں دیا۔ وہ دن گئے جب بین الممالک اتحاد کی بنیاد میں، باہمی افہام و تفہیم کو، یا مشترکہ مفاد کو پیش نظر رکھا جاتا تھا۔ بجائے اس امر کے کہ ہم بنیادی انسانی حقوق کے علمبردار اور چیمپئن کا کردار ادا کرتے، قانون حب الوطنی (Patriot Act) کی بعض انتہاپسندانہ شقوں نے ہماری شہری آزادیوں اور نجی زندگی کے حقوق کو سلب کر رکھا ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ امریکہ نے ’’جنیوا سمجھوتوں‘‘ کو پس پشت ڈال کر عراق، افغانستان اور گوانتاموبے کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ مختلف ملکوں کی جو حکومتیں امریکہ کی حامی ہیں، ان سے بھی عوام پر تشدد کرایا جا رہا ہے۔ صدر اور نائب صدر (بش اور ڈک چینی) مصر ہیں کہ سی آئی اے کو فری ہینڈ دے دیا جائے، اسے یہ اجازت بخش دی جائے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ انتہائی تشدد، شرمناک، غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک کر سکے جو امریکی حراست میں ہیں۔‘‘

امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ایک منظر جمی کارٹر کے الفاظ میں ہمارے سامنے ہے، اور اقوام متحدہ سے دہشت گردی اور تحریک آزادی میں فرق کرنے کے مذکورہ مطالبہ سے نظر آتا ہے کہ خود مسلم حکمرانوں کو بھی اس صورتحال کا احساس ہے۔ لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غیر مشروط تعاون جاری رکھنے اور بھرپور کردار ادا کرنے کی بات کم از کم ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس کی بجائے اگر مسلم حکمران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کو ان دو شرطوں کے ساتھ مشروط کر دیں کہ:

  1. دہشت گردی اور تحریک آزادی کے درمیان فرق کو اقوام متحدہ کے فورم پر واضح طور پر طے کیا جائے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اس کے دائرہ میں محدود رکھا جائے۔
  2. دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بنیادی انسانی حقوق اور مسلّمہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا جائے اور ان کی خلاف ورزی نہ ہونے کی ضمانت دی جائے۔

اگر مسلم ممالک کے حکمران آج بھی اپنے تعاون کو مزید جاری رکھنے کے لیے ان شرائط کا اعلان کر دیں تو صورتحال میں اصلاح کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارے حکمران تو کسی شرط اور تحفظ کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف بھرپور تعاون پیش کر رہے ہیں بلکہ ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں اقوام متحدہ سے دہشت گردی اور تحریک آزادی کے درمیان فرق کرنے کے مطالبہ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

دوسری گزارش اعلانِ مکہ میں مسلم ممالک کے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے حوالہ سے ہے۔ ہمیں تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں کی ضرورت سے انکار نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ تبدیلی کا مقصد کیا ہے اور اس کے اہداف کیا ہیں؟ کیونکہ تبدیلی کی ایک صورت یہ ہے کہ مسلم ممالک کے تعلیمی نصاب میں دینی تعلیمات کا جو تھوڑا بہت مواد موجود ہے اور جس کی وجہ سے نئی نسل میں اپنے مسلمان ہونے کا کچھ نہ کچھ احساس باقی رہ جاتا ہے، اسے بھی ان نصابوں سے نکال دیا جائے اور اپنی نئی نسلوں کو مکمل طور پر مغربی فکر و فلسفہ اور تہذیب کے حوالے کر دیا جائے۔ جبکہ تبدیلی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان نصابوں میں اسلامی تعلیمات اور تہذیب و ثقافت کے حوالہ سے جو خلا پایا جاتا ہے اسے پر کیا جائے تاکہ ہماری نئی نسلیں صحیح طور پر مسلمان ہوں، اپنی دینی تعلیمات، تاریخ اور تہذیب و ثقافت سے پوری طرح آگاہ ہوں، اور جدید ترین ٹیکنالوجی، سائنس اور دیگر عصری علوم سے بھی مکمل طور پر بہرہ ور ہوں۔

غور طلب امر یہ ہے کہ ہمارے مسلم حکمرانوں کے نزدیک تعلیمی نصاب میں تبدیلی ان دو میں سے کس مقصد کے لیے ہونی چاہیے؟ ’’اعلانِ مکہ‘‘ میں اس تبدیلی کا مقصد برداشت اور مفاہمت کو قرار دیا گیا ہے جو ظاہر ہے کہ ہمارے نصاب تعلیم کے بارے میں مغرب کے مطالبات میں سے ایک ہے۔ کیونکہ مغرب یہ سمجھتا ہے کہ اسلامی تعلیمات مسلم نوجوانوں کو دوسری اقوام سے الگ ہونے کا احساس دلاتی ہیں اور گلوبلائزیشن کے عنوان سے دنیا کے مسلم معاشرہ کو مغربی فلسفہ و تہذیب میں ضم ہونے سے روکتی ہیں۔

پھر ہمارے حکمران اس بات سے بے خبر نہیں ہیں کہ مسلم امہ کے جن رجحانات کو وہ عدم برداشت اور غیر اعتدال پسندی سے تعبیر کر رہے ہیں اور اسے ختم کرنے کے لیے مسلم ممالک کے تعلیمی نصابوں کا آپریشن کرنا چاہتے ہیں، وہ خود کوئی عمل نہیں ہے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے گزشتہ دو سو سالہ طرز عمل اور اقدامات کا فطری ردعمل ہے۔ اور کسی عمل کے قائم رہتے ہوئے اس کے ردعمل کو روکنے کی کوشش کرنا، سائے کو پکڑنے کے مترادف ہوتا ہے۔ مسلم حکمران مغرب کے طرز عمل کو تبدیل کرانے، اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس کے مسلسل اقدامات کو روکنے کی تو سکت نہیں رکھتے، البتہ اس کے ردعمل میں مسلمانوں میں کسی درجہ میں غصہ اور غیرت کے اظہار کو روکنا چاہتے ہیں۔ اسے خودفریبی کے سوا اور کس عنوان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟

ہمیں خوشی ہوتی اگر اعلانِ مکہ میں مسلم ممالک کے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی اور جدید ترین علوم میں مغرب کے برابر آنے کو ہدف قرار دیا جاتا اور اس کے لیے یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے قائم کرنے کا اعلان کیا جاتا۔ مگر یہ انگور ہمارے حکمرانوں کو کھٹے نظر آ رہے ہیں اور وہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق مسلم ممالک کے تعلیمی نصابوں میں رہے سہے دینی اثرات اور مواد کو بھی ختم کرنے کے درپے ہو گئے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون جاری رکھنے اور باہمی برداشت اور مفاہمت کے عنوان سے مسلم ممالک کے تعلیمی نصابوں میں تبدیلی کے فیصلوں کے حوالہ سے مسلم سربراہ کانفرنس کے اعلانات ہمارے لیے مایوسی کا باعث بنے ہیں اور یوں نظر آ رہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین میں خانہ کعبہ کا طواف کرنے اور اس کے اندر داخل ہونے کی سعادت سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور چند چکنی چپڑی باتیں کرنے کے بعد ایک بار پھر یہ اعلان کر دیا ہے کہ مسلم امہ کے جذبات اور تمام تر معروضی حالات و حقائق اپنی جگہ پر مگر ’’پرنالہ وہیں رہے گا‘‘۔

   
2016ء سے
Flag Counter