پچیس دسمبر کا دن

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج پچیس دسمبر ہے اور ہمارے ہاں قومی حوالے سے دو اہم شخصیات کا تذکرہ چل رہا ہے۔

  1. ایک تو اس حوالے سے کہ ہمارے مسیحی دوست دنیا بھر میں آج کا دن حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یوم ولادت کے طور پر مناتے ہیں۔ ہمارے ہاں یوم منانے کا کوئی تصور شرعًا تو نہیں ہے، لیکن قومی اور باہمی روابط میں ایسا ہوتا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی یہ ہے کہ حضورؐ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تھے تو یہودی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ رسول اللہ نے پوچھا کہ تم دس محرم کا روزہ کیوں رکھتے ہو، تو انہوں نے کہا کہ اس دن حضرت موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے آزادی ملی تھی، فرعون غرق ہوا تھا، اور بنی اسرائیل آزاد فضا میں آئے تھے، تو ہم اس آزادی کے دن کی خوشی میں روزہ رکھتے ہیں شکرانے کا۔ جناب نبی کریمؐ نے ایک جملہ فرمایا ’’نحن احق بموسٰی منکم‘‘ موسٰی علیہ السلام کے ساتھ ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے، ہم زیادہ حقدار ہیں موسٰی علیہ السلام کے، تو حضورؐ نے بھی روزہ رکھنا شروع کر دیا تھا۔

    اتنی حد تک کہ خوشی میں شریک ہونا دوسری قوموں کے، اپنے معاصر، ہمسائے کی خوشی میں شریک ہونا جناب نبی کریمؐ کی سنت مبارکہ ہے۔ ہم تو یوم نہیں منایا کرتے لیکن مسیحی برادری پوری دنیا میں حضرت عیسٰیؑ کی یوم ولادت کے حوالے سے آج کے دن ان کی عید ہوتی ہے، تو اس عید کے موقع پر ان کے ساتھ خوشی میں شرکت، یہ ہمارا بھی حق ہے کہ ہمارے ملک کے شہری بھی ہیں، اور دنیا کی ایک بڑی برادری ہے۔

    عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف ان کے پیغمبر نہیں ہیں، اصلًا پیغمبر تو ہمارے ہیں۔ قرآن کریم نے حضرت عیسٰیؑ کا جس قدر تعارف کروایا ہے شاید کسی اور جگہ یہ تعارف نہ ہو۔ وہ پیغمبر تو ہیں ہی، لیکن مستقبل میں بھی ہمارے عقیدے کے مطابق وہ تشریف لائیں گے، امت مسلمہ کی قیادت فرمائیں گے، امت مسلمہ کی مدد فرمائیں گے، امت محمدیہ کی دوبارہ خلافت بحال کروائیں گے امام مہدیؒ کے ساتھ مل کر۔ باقی انبیاء تو ہمارے ماضی کے انبیاء ہیں، ہماری عقیدت، محبت، ایمان، احترام سب کے لیے ہے، لیکن عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام تو مستقبل کے حوالے سے بھی ہمارے نبی ہیں کہ ہماری انہوں نے قیادت فرمانی ہے، ہماری رہنمائی فرمانی ہے۔ اور امت مسلمہ کی نشأۃ ثانیہ کی جو دو بڑی شخصیتیں نمائندہ ہوں گی، امام مہدیؒ اور حضرت عیسٰیؑ، ان میں بڑی شخصیت حضرت عیسٰیؑ کی ہے۔ تو اس حوالے سے حضرت عیسٰیؑ کے ساتھ محبت، ایمان، عقیدت ہمارا بھی اسی طرح ہے اور ان کی تعلیمات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

  2. دوسری شخصیت قومی حوالے سے جو آج پچیس دسمبر کو یاد کی جاتی ہے وہ ہمارے بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم جو ہمارے قومی لیڈر تھے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سے یہ خدمت لی کہ انہوں نے مسلم قوم کو اکٹھا کیا اور ہندوؤں کے عزائم کو بھانپتے ہوئے مسلم امہ کے لیے الگ ملک کا مطالبہ کیا، اور الگ ملک کا صرف مطالبہ نہیں کیا بلکہ اس کی بنیادیں بھی واضح کیں کہ یہ اسلام کے لیے، اسلامی نظام کے تجربے کے لیے، قرآن و سنت کے احکام کے لیے، شریعت کی بالادستی کے لیے، قائد اعظم نے پاکستان کی قیادت بھی کی اور پاکستان کے اہداف بھی واضح کیے۔

    بعض لوگ یہ مغالطہ پھیلاتے ہیں کہ قائد اعظم نے یہ ساری باتیں پاکستان بننے سے پہلے لوگوں کو ساتھ ملانے کے لیے کی تھیں۔ یہ خود قائد اعظم محمد علی جناح پر زیادتی ہے، یہ کہنا ان کو اپنے اوپر قیاس کرنا ہے ایک سیاستدان کے طور پر، کہ وہ وقتی قسم کی بات کرنے کے عادی تھے، نہیں، قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان سے پہلے بھی پاکستان کا مقصد واضح کیا، اور قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات سے ایک مہینہ پہلے انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے جو تقریر کی، میں سمجھتا ہوں کہ وہ تقریر قائد اعظم کی پوزیشن کو دوٹوک واضح کرنے کے لیے کافی و شافی ہے۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوئے، اپنی وفات سے ایک مہینہ پہلے جو تقریر کی کہ میں پاکستان میں مغربی اصولوں کے مطابق نہیں، اسلام کے اصولوں کے مطابق معاشی نظام چاہتا ہوں، اسلام کے معاشی اصولوں کو یہاں نافذ دیکھنا چاہتا ہوں، اور انہوں نے یہ کہا تھا کہ میں اپنے معاشی ماہرین سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق معیشت کا ڈھانچہ استوار کریں گے۔

    تو وہ ہمارے قومی لیڈر تھے، ملک کے بانی تھے، آج ان کا یوم وفات بھی ہے، تو یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی وہ جدوجہد اور ان کے وہ خطابات جو انہوں نے پاکستان کے قیام کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے فرمائے تھے، ان کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے۔ اور پوری قوم کی ذمہ داری ہے کہ ان کی طرف ہم اپنا رخ واپس کریں۔ ہم ان کے راستے سے ہٹ گئے ہیں، علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کو ہم اپنا بڑا لیڈر تو کہتے ہیں لیکن ان کے افکار و تعلیمات کی طرف ہم توجہ نہیں دے رہے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کی جو تعلیمات تھیں، جو پاکستان کے بارے میں ان کے ارشادات تھے، جو انہوں نے پالیسی کے طور پر، اور جو انہوں نے اہداف کے طور پر باتیں بیان فرمائی تھیں، ان کو مشعل راہ بنایا جائے، اور ان کے لیے دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں، اور پاکستان کو ان کی امنگوں اور ان کی توضیحات کے مطابق ایک صحیح اسلامی ریاست کی شکل دیں۔ اللھم صل علیٰ سیدنا محمد۔

2016ء سے
Flag Counter