ترکی کو الجزائر بنانے کی کوشش!

   
تاریخ : 
۱۴ اپریل ۱۹۹۸ء

برادر اسلامی ملک ترکی میں حکومت نے اسلامی سرگرمیوں کو روکنے کا بل منظور کیا ہے جس کے تحت مذہبی تنظیموں میں شمولیت اور ان سے تعاون کو جرم قرار دینے کے علاوہ اسلامی شعائر و علامات کے اظہار کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت نے یہ قانون فوج کے دباؤ کے تحت منظور کیا ہے جو خود کو سیکولرازم کی محافظ قرار دیتے ہوئے ہر اس رجحان کو کچل دینا چاہتی ہے جو کسی بھی درجے میں اسلامیت کے اظہار کی علامت سمجھا جاتا ہو۔ ترکی میں مسعود یلماز کی موجودہ حکومت نے، جو خود بھی سیکولر حکومت ہے، گزشتہ دنوں فوج سے کہا تھا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے اور معاشرہ میں بڑھتے ہوئے اسلامی رجحانات کے خلاف ضرورت سے زیادہ سرگرمی نہ دکھائے۔ فوج کے جرنیلوں نے اس کا برا منایا ہے اور حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اسلامی حلقوں اور اداروں کے خلاف فوج کے اقدامات کے بارے میں کوئی منفی طرز عمل برداشت نہیں کیا جائے گا اور فوج معاشرہ میں مذہبی رجحانات کو بہر صورت دبا کر رکھے گی۔ اس دھمکی کے بعد حکومت کو مذکورہ بالا قانون منظور کرنا پڑا ہے اور اس طرح مسعود یلماز کی حکومت نے فوجی جنتا کی شدید ناراضگی کو وقتی طور پر ٹال دیا ہے۔

خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ترکی کو سیکولر جمہوریہ قرار دے کر اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ سے اسلام کو جبرًا بے دخل کر دیا گیا تھا اور مساجد و مدارس کی بندش کے ساتھ ساتھ داڑھی، پردہ، ٹوپی، اور عربی زبان بھی شجر ممنوعہ قرار پائی تھی۔ لیکن اسلام کے ساتھ لازوال محبت رکھنے والے ترک عوام زیادہ دیر تک اس صورتحال کو برداشت نہ کر سکے اور ۱۹۶۰ء کی دہائی میں منتخب وزیر اعظم عدنان میندریس شہیدؒ نے مذہبی اداروں اور اقدار و روایات کے خلاف پابندیوں کو نرم کرنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں وہ پھانسی کے پھندے پر جھول گئے اور سیکولر ازم کی دستوری طور پر محافظ فوج نے ایک بار پھر ترک عوام پر لادینیت کا شکنجہ کس دیا۔

اس کے بعد ترک عوام کے اسلامی رجحانات کی ترجمانی کی ذمہ داری نجم الدین اربکان نے سنبھالی اور معروف جمہوری طریقوں سے انتخابات کے ذریعے آگے بڑھتے ہوئے قومی سیاست کی صف اول میں آگئے۔ وہ ایک بار ترکی کے نائب وزیراعظم بنے اور دوسری بار وزیراعظم بنے، انہوں نے عوامی رجحانات کی نمائندگی کرتے ہوئے لادینیت کے شکنجے کو ڈھیلا کرنا شروع کیا جو سیکولر قوتوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا۔ بالآخر نجم الدین اربکان کو وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہونا پڑا، ان کی رفاہ پارٹی کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا، ان کے سیاست میں حصہ لینے پر پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی گئی، اور قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود رفاہ پارٹی کی سرگرمیوں کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ نجم الدین اربکان کی خوبی یہ ہے کہ وہ ٹکراؤ کی بجائے حکمت و تدبر پر یقین رکھتے ہیں اور صبر و حوصلہ کے ساتھ دھیرے دھیرے آگے بڑھتے ہیں۔ انہیں پابندیوں اور رکاوٹوں کی وجہ سے کئی بار اپنی پارٹی کا نام تبدیل کرنا پڑا اور اب پھر ان کی جماعت ’’فضیلۃ پارٹی‘‘ کے نام سے قومی سیاست میں موجود و متحرک ہے اور اس کے ووٹ بینک میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ترکی کے موجودہ وزیراعظم مسعود یلماز اگرچہ سیکولر رجحانات کے حامل ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ ایک سیاسی کارکن بھی ہیں، اس لیے عوامی رجحانات کو نظر انداز کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی اور ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے دینی اداروں اور مذہبی رجحانات کے خلاف فوج کے سخت ردعمل کو انہوں نے یہ کہہ کر بریک لگانے کی کوشش کی ہے کہ ’’فوج اپنے کام سے کام رکھے‘‘۔ لیکن فوجی جرنیل اس کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ عوامی رجحانات کی پرواہ کیے بغیر ترکی کو نصف صدی پہلے کی سیکولر ریاست کے دائرے میں پابند رکھنے پر تل گئے ہیں۔ اور اسی مقصد کے لیے دینی مدارس، اسلامی تعلیم، داڑھی، اور پردہ جیسے اسلامی شعائر کے خلاف ملک گیر آپریشن کو سختی کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس سخت گیر پالیسی کا اصل مقصد یہ ہے کہ ترکی کے اسلامی حلقے بھی ردعمل میں الجزائر کے بعض اسلامی گروپوں کی طرح اشتعال میں آکر تصادم کا راستہ اختیار کریں اور فوج کو انہیں تشدد کے ذریعے مکمل طور پر کچلنے کا موقع مل جائے۔ الجزائر میں یہی ہوا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے علمبردار اسلامک سالویشن فرنٹ نے ۱۹۹۲ء کے عام انتخابات کے پہلے مرحلہ میں اسی فیصد ووٹ حاصل کر لیے جس پر سیکولر فوج حرکت میں آئی اور انتخابات کے دوسرے مرحلہ کو منسوخ کر کے اسلامک سالویشن فرنٹ کو خلاف قانون قرار دے دیا اور اس کی قیادت اور کارکنوں کی بڑی تعداد کو جیلوں میں ڈال دیا۔ اس کے ردعمل میں بعض انتہا پسند اسلامی گروپ تشدد پر اتر آئے اور ملک خانہ جنگی کی راہ پر چل پڑا جس میں اب تک ہزاروں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، اور دونوں طرف سے قتل عام کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس کے بارے میں اب یہ شواہد بین الاقوامی پریس میں سامنے آچکے ہیں کہ انتہا پسند اسلامی گروپوں کو تشدد کی راہ پر ڈالنے اور خانہ جنگی کی فضا پیدا کرنے میں خود الجزائر کی سیکولر فوج کا ہاتھ ہے۔ اور جرنیلوں نے طے شدہ منصوبے کے مطابق اعتدال پسند لیڈر شپ کو جیلوں میں ڈال کر انتہا پسند گروپوں کو مقابلے پر آنے پر مجبور کیا اور خانہ جنگی کی صورت پیدا کر کے اسلامی حلقوں کے کارکنوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کر ڈالا۔ چنانچہ قتل عام میں ملوث متعدد افراد نے، جو اب مغربی ملکوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، بین الاقوامی پریس کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے یہ کاروائیاں فوج کے کہنے پر کی تھیں اور خانہ جنگی کا سارا پلان فوجی جرنیلوں کا تیار کردہ تھا۔

اس پس منظر میں ترکی میں اسلامی حلقوں کے خلاف سیکولر فوج کے سخت گیر اور متشددانہ طرز عمل کی وجہ بھی بظاہر یہی سمجھ میں آتی ہے کہ الجزائر کی طرح ترکی کے اسلامی حلقے بھی تشدد کی راہ پر چلیں اور فوج انہیں کچلنے کے لیے پورے لاؤ لشکر سمیت میدان عمل میں کود پڑے۔ لیکن جناب نجم الدین اربکان اس راہ پر چلتے نظر نہیں آتے، وہ عوامی رائے اور قوت پر بھروسہ کرتے ہوئے پر امن طریقہ سے پیش رفت کر رہے ہیں۔ یہ طریقہ کار اگرچہ لمبا اور صبر آزما ہے لیکن محفوظ اور قابل اعتماد راستہ یہی ہے۔ اور ہم ترکی کے اسلام دوست بھائیوں کے ساتھ یکجہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی ثابت قدمی اور کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter