اچھے اور برے لوگوں کی علامات رسول اللہ ﷺ کی نظر میں

   
تاریخ: 
۲۶ ستمبر ۲۰۱۲ء

(جامعہ نصرۃ العلوم کے طلباء سے ماہانہ اصلاحی بیان۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ امام بخاریؒ نے ’’الادب المفرد‘‘ میں حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے ایک روایت بیان کی ہے جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور برے مسلمانوں کی علامات بیان فرمائی ہیں ۔

اسماء بنت یزیدؓ انصاریہ خاتون ہیں، صحابیہ ہیں اور ان کا لقب خطیبۃ الانصار بیان کیا جاتاہے۔ بڑی خطیبہ تھیں اور عوتوں میں وعظ کیا کرتی تھیں۔ جس طرح حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ خطیب الانصار کہلاتے تھے، انہیں خطیب رسول اللہ بھی کہا جاتا تھا اور خطیب الاسلام کا لقب بھی سب سے پہلے انہی کے لیے بولا گیا تھا۔ حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن جناب رسول اللہؐ نے فرمایا ’’اَلا اُخبرکم بخیارکم‘‘ کہ کیا میں تمہیں تمہارے اچھے لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ضرور آگاہ فرمائیں۔ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’الذین اذا رأوا ذکر اللّٰہ‘‘ وہ لوگ جنہیں دیکھا جائے تو خدا یاد آجائے۔ یعنی جن لوگوں کو دیکھ کر خدا یاد آئے وہ تم میں سے اچھے لوگ ہیں۔ اس کی دو صورتیں بیان کی جاتی ہیں:

  1. ایک یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے جن کی عبادت، نیکی اور تقویٰ کی جھلک ان کے چہروں پر نور کی صورت میں دکھائی دیتی ہے اور انہیں دیکھ کر دل میں خیال آتا ہے کہ اس قدر با رونق اور پر نور چہرہ کسی اللہ والے کا ہی ہو سکتا ہے۔ عام طور پر انسان کے اندر کی کیفیات کا اس کے چہرے سے اندازہ ہو جاتا ہے اور چہرہ انسان کی باطنی حالت کا عکاس ہوتا ہے۔ غصہ ہو یا خوشی، غم ہو یا راحت، ناراضگی ہو یا رضا مندی، انسان کے چہرے سے اس کا پتہ چل جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کے نیک اعمال اور برے اعمال کے اثرات بھی چہرے سے ظاہر ہوتے ہیں۔
  2. بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے اپنے ایک خواب کا منظر بیان فرمایا کہ میں نے ایسے لوگوں کا ایک ہجوم دیکھا جن کے چہروں کی کیفیت یہ تھی کہ چہرے کا نصف حصہ خوبصورت اور باقی نصف حصہ بد صورت تھا۔ فرشتوں سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو ’’خلطوا عملاً صالحا وآخر سیئًا‘‘ اچھے اور برے اعمال خلط ملط کرتے رہے ہیں۔ اعمال صالحہ بھی انہوں نے کیے ہیں اور اعمال سیۂ میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ ان کے نیک اعمال ان کے چہروں پر حسن کی صورت میں نظر آرہے ہیں اور برے اعمال چہروں پر بد صورتی کے طور پر نمایاں ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے نیک اور مخلص بندوں کے چہروں پر ان کے خلوص اور نیک اعمال کا نور ہوتا ہے اور ان کے بارونق اور نورانی چہروں کو دیکھ کر خدا کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

  3. اس کا ایک معنیٰ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ لوگ جن کے اعمال و حرکات، ان کا اٹھنا بیٹھنا، لین دین، عبادات و معمولات اور اخلاق و معاملات اللہ تعالیٰ اور رسولؐ خدا کے احکام کے مطابق ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ایک مسلمان کی عملی زندگی کا نقشہ سامنے آجاتا ہے اور خدا یاد آتا ہے۔ بہر حال جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں جنہیں دیکھ کر خدا یا د آجائے۔

پھر فرمایا ’’ألا أخبرکم بشرارکم؟‘‘ کیا میں تمہیں تمہارے برے لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ’’بلٰی‘‘ یا رسول اللّٰہ! ضرور بیان فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’المشاؤون بالنمیمۃ، المفسدون بین الأحبۃ، الباغون البراء العنت‘‘۔ آپؐ نے تین باتوں کا ذکر فرمایا۔

  1. ایک یہ کہ ’’المشاؤون بالنمیمۃ‘‘ چغلیاں کھانے والے یعنی ایک دوسرے کی چغلی کرنے والے لوگ۔ چغلی کہتے ہیں ایک دوسرے کو خواہ مخواہ ان کی باتیں پہنچانے والے۔ ایک کی بات دوسرے کے آگے، دوسرے کی تیسرے کے آگے اور تیسرے کی بات چوتھے کے آگے۔ اس کا ہمارے ہاں عام طور پر رواج پایا جاتاہے اور ہم میں سے بہت سے لوگوں کی یہ عادت بن گئی ہے کہ بلا وجہ لوگوں کو یہ بتاتے رہتے ہیں کہ فلاں تمہارے بارے میں یہ کہہ رہا تھا اور فلاں جگہ تمہارے بارے میں یہ باتیں ہو رہی تھیں۔ بلا ضرورت ایسی بات کرنا شرعاً گناہ کبیرہ شمار کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں سرے سے اس کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ یہ باتیں اکثر جھگڑوں کا باعث بن جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں ہونے والے باہمی تنازعات اور جھگڑوں کی وجوہ تلاش کی جائیں تو اکثر تنازعات کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی چغلی کار فرما ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ بہت برا عمل ہے اور اسے جناب نبی اکرمؐ نے برے لوگوں کی علامت قرار دیا ہے۔ البتہ طلبہ کے لیے ایک بات عرض کرتا ہوں کہ ’’المشاءون‘‘ مبالغہ کا صیغہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا مزاج چغل خوری کا بن جائے وہ اس زمرے میں شمار ہوگا۔
  2. دوسری بات فرمائی ’’المفسدون بین الأحبۃ‘‘ کہ دوستوں کے درمیان فساد ڈالنے والے برے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک معاشرتی بیماری ہے کہ چند دوست اکٹھے محبت و اعتماد کے ساتھ رہ رہے ہیں، اگر کوئی آدمی ان کے درمیان غلط فہمیاں ڈال کر ان کی دوستی کو دشمنی میں بدل دیتا ہے تو وہ بہت بری حرکت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک خاندان محبت و اعتماد کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے اور کوئی شخص دخل دے کر ان کی محبت و اعتماد کی فضا کو خراب کر دیتا ہے تو وہ کوئی اچھا کا م نہیں کر رہا۔ محبت و اعتماد کی فضا خاندانوں میں ہو، دوستوں میں ہو، مشترکہ کام کرنے والوں میں ہو، اس میں فساد ڈالنے والوں کو جناب رسول اللہؐ نے برے لوگوں میں شمار کیا ہے۔
  3. تیسری بات حضورؐ نے فرمائی کہ ’’الباغون البراء العنت‘‘ شریف اور باعزت لوگوں میں عیب تلاش کر کے انہیں بدنام کرنے والے بھی برے لوگ ہوتے ہیں۔ عیب اور کمزوری سے کوئی شخص پاک نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے ساتھ اکثر لوگوں کا پردہ رکھتے ہیں۔ اب ایک شخص عزت کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے، لوگ اس کا احترام کرتے ہیں اور اسے اچھا آدمی سمجھتے ہیں لیکن کوئی شخص بلا وجہ اس کی ٹوہ میں رہتا ہے کہ اس کی کوئی کمزوری ہاتھ لگے تو اسے بدنام کروں، اس کا کوئی عیب میرے علم میں آئے تو اس کا پروپیگنڈہ کر کے اس کی عزت کو خراب کروں۔ لوگوں کے عیب تلاش کرنے کے لیے ٹوہ میں رہنا خاص طور پر معزز اور شریف لوگوں کے حالات کا تجسّس کر کے ان کے عیوب ڈھونڈنا اور پھر انہیں منتشرکر کے ان کی بدنامی اور بے عزتی کا باعث بنانا کوئی اچھی صفت نہیں ہے۔ آنحضرتؐ نے ایسا مزاج رکھنے والوں کو برے لوگ قرار دیا ہے۔

میں عزیز طلبہ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ تینوں خرابیاں آج ہمارے درمیان موجود ہیں اور چونکہ ہم ان کے عادی ہو گئے ہیں، اس لیے ہمیں یہ محسوس نہیں ہوتیں اور ہم بلا تکلف یہ حرکتیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا بار بار مطالعہ کرنا چاہیے، اس پر غور کرنا چاہیے اور پھر اپنے معمولات اور مزاج و عادات پر نظر ڈال کر اپنی کمزوریوں کو محسوس کرتے ہوئے اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter