ہم قرآن کس لیے پڑھتے ہیں؟

   
تاریخ: 
نامعلوم

کراچی سے گزشتہ جمعرات کو گوجرانوالہ واپس پہنچ کر اپنی معمول کی مصروفیات میں محو ہو چکا ہوں مگر دو تین حاضریوں کا تذکرہ باقی ہے۔ سہراب گوٹھ کی جامع مسجد گلشن عمرؓ میں واقع جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کی شاخ کے سامنے سے تو بیسیوں مرتبہ گزر ہوا ہو گا، مگر حاضری پہلی بار ہوئی۔ جامعہ کے اساتذہ کی فرمائش تھی کہ حاضری کی کوئی صورت نکلے اور طلبہ سے کچھ معروضات بھی کی جائیں۔ چنانچہ بدھ کی شب کو مولانا محمد شفیع چترالی کے ہمراہ عشاء کی نماز وہاں ادا کی، عشاء کے بعد طلبہ سے چند گزارشات کیں اور اس کے بعد کھانے پر حضرات اساتذہ کے ساتھ مختلف امور پر تبادلۂ خیالات ہوا۔

ایک بزرگ استاذ مولانا قاری محمد ابراہیم شاہ نے اس بات کا شکوہ کیا کہ میں نے جماعتی زندگی کیوں ترک کر دی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہ میں نے جماعت چھوڑی ہے اور نہ ہی عملی زندگی سے کنارہ کش ہوا ہوں، اب بھی جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا باقاعدہ رکن ہوں اور جمعیۃ کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے ہی عملی کام کر رہا ہوں۔ میں نے اپنا محاذ تبدیل نہیں کیا البتہ مورچہ ضرور بدلا ہے۔ انتخابی و تنظیمی سیاست کے مورچے سے فکری اور تعلیمی مورچے میں منتقل ہو گیا ہوں اور بحمد اللہ تعالٰی گزشتہ دو عشروں سے پوری دلجمعی کے ساتھ مصروف عمل ہوں۔ میری یہ حکمت عملی بہت سے دوستوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی، اور ان کا اس بات کو سمجھ نہ پانا خود میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔

جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن میں حسب معمول حاضری ہوئی اور ایک رات وہاں قیام رہا، مگر تعطیلات کی وجہ سے کوئی کلاس نہ ہو سکی۔ پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی کو جامعہ اشرفیہ لاہور کے اجلاس کی تفصیلات اور ملی مجلس شرعی کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا، اور پاکستان شریعت کونسل کے مستقبل کے پروگرام کے بارے میں باہمی تبادلۂ خیالات ہوا۔

کالعدم سپاہ صحابہؓ کے مرکزی رہنما مولانا عبد الغفور ندیم کی اپنے فرزند سمیت المناک شہادت پر تعزیت کے لیے ان کی مسجد میں حاضری ہوئی اور ان کے صاحبزادوں کے ساتھ ملاقات کر کے ان کے رنج و غم میں شرکت کی، جبکہ مولانا عبد الغفور ندیم شہیدؒ کی قبر پر حاضری اور دعا کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔

جمعرات کو صبح واپسی سے قبل معین آباد لانڈھی کے جامعہ عثمانیہ میں مولانا حافظ اقبال اللہ کے ہاں ناشتہ تھا، انہوں نے اساتذہ و طلبہ سے خطاب کے علاوہ علاقہ کے بہت سے علماء کرام سے ناشتے پر ملاقات کا اہتمام کر رکھا تھا۔ طلبہ سے خطاب کے دوران قرآن کریم کی تلاوت اور سماع کی اہمیت پر گفتگو کی جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قرآن کریم پر ہمارا ایمان ہے، ہم اس سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں، اس کا ادب و احترام کرتے ہیں اور ذوق و شوق کے ساتھ اسے پڑھتے اور سنتے ہیں۔ لیکن ہمیں ایک بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم قرآن کریم کو کس مقصد کے لیے پڑھتے ہیں؟ جبکہ قرآن کریم کو اصلاً کس مقصد کے لیے پڑھنا چاہیے اور اس کے پڑھنے اور سننے کا بنیادی تقاضا کیا ہے؟ ہم عام طور پر چند مخصوص مقاصد کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، مثلاً:

  1. ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم پڑھنے اور سننے سے ثواب ملتا ہے اور نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے، یہ بات بلاشبہ درست ہے کہ قرآن کریم پڑھنے اور سننے پر ہر حرف پر کم از کم دس نیکیاں ملتی ہیں اور ثواب میں اضافہ ہوتا ہے۔
  2. دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے برکت و رحمت کا حصول ہوتا ہے اور ہم اپنے گھروں میں، دکانوں اور کاروباری مراکز میں برکات حاصل کرنے کے لیے تلاوت قرآن کریم کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے رحمت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور برکات کی بارش ہوتی ہے۔
  3. تیسرا مقصد عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم پڑھنے سے شفا حاصل ہو گی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے روحانی بیماریوں کی شفا تو ملتی ہی ہے جسمانی امراض کے لیے قرآن کریم کا پڑھنا بھی باعث شفا ہے اور سنت نبویؐ بھی ہے۔
  4. چوتھا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم اس کے ذریعے بخشش کے طالب ہوتے ہیں، ہمارا کوئی بزرگ یا دوست دنیا سے رخصت ہو جائے تو ہم اس کو ایصال ثواب کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور بخشش و مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ اور یہ بات بھی شبہ سے بالاتر ہے کہ قرآن کریم کے ذریعے مغفرت اور بخشش حاصل ہوتی ہے۔
  5. پانچواں مقصد قرآن کریم پڑھنے سے یہ ہوتا ہے کہ دلی اور ذہنی پریشانیوں سے نجات حاصل ہو۔ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق نماز اور تلاوت قرآن کریم کے ذریعے ذہنی طور پر پریشان شخص کو سکون و اطمینان کی دولت ملتی ہے۔
  6. چھٹے نمبر پر ہم اپنے بچوں کو قرآن کریم اس شوق سے یاد کراتے ہیں کہ قیامت کے دن حافظ کے ماں باپ کو سونے چاندی کا تاج پہنایا جائے گا، اور خود حافظ کو بہت سے اعزازات ملیں گے۔
  7. ساتویں نمبر پر ہمارے قاری صاحبان قرآن کریم کو اچھے سے اچھے لہجے میں پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کے فن اور مہارت کا اظہار ہوتا ہے اور اس کے ذریعے قرآن کریم کا امتیاز و اعجاز بھی سامنے آتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کریم کا اپنا ایجنڈا بھی یہی ہے؟ یہ تو وہ فوائد ہیں جو ہم قرآن کریم سے حاصل کرتے ہیں اور قرآن کریم ان میں سے ہر فائدہ دیتا ہے۔ لیکن قرآن کریم کا اپنا مقصد اور ایجنڈا جو اس نے واضح طور پر بیان کیا ہے یہ ہے کہ وہ نسل انسانی کی راہنمائی کے لیے آیا ہے، ھدی للناس ہے، ھدی للمتقین ہے، یہ راہنمائی کی کتاب ہے، گائیڈنس کی کی کتاب ہے اور زندگی کے معاملات میں ڈائریکشن کی کتاب ہے۔ مگر ہم اسے راہنمائی کے لیے اور زندگی کے معاملات میں گائیڈنس کے لیے پڑھنے کی مجموعی طور پر ضرورت محسوس نہیں کر رہے، جو ہمارا اصل المیہ ہے اور قرآن کریم کی حق تلفی ہے۔

اس کی مثال اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں کوئی معزز شخصیت مہمان آ جائے، اسے پورا احترام اور پروٹوکول دیں، اس کی خدمت بھی کریں اور اس سے جتنے فائدے اٹھا سکتے ہوں، اٹھائیں۔ مگر اس سے یہ نہ دریافت کریں کہ جناب آپ کی تشریف آوری کا مقصد کیا ہے اور آپ کس غرض کے لیے ہمارے ہاں تشریف لائے ہیں؟ یہ طرزعمل خود غرضی کہلاتا ہے اور بدقسمتی سے ہم نے یہی طرز عمل قرآن کریم کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے کہ اس سے فائدے تو سارے اٹھا رہے ہیں لیکن اس سے یہ دریافت نہیں کر رہے کہ وہ کس مقصد کے لیے آیا ہے اور اس کا اپنا ایجنڈا کیا ہے؟

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں قرآن کریم سے جتنے فائدے مل سکتے ہیں ضرور حاصل کرنے چاہئیں، مگر اسے راہنمائی اور ہدایت کے لیے بھی پڑھنا چاہیے کہ اس کا سب سے بڑا اور اصل مقصد یہی ہے۔

2016ء سے
Flag Counter