غامدی صاحب کا تصور سنت

   
تاریخ : 
جون ۲۰۰۸ء

محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور سنت کے بارے میں ’الشریعہ‘ کے صفحات میں ایک عرصے سے بحث جاری ہے اور دونوں طرف سے مختلف اصحاب قلم اس سلسلے میں اپنے خیالات پیش کر رہے ہیں۔ راقم الحروف نے بھی بعض مضامین میں اس کا تذکرہ کیا تھا اور یہ عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے سنت نبوی کے بارے میں جو انوکھا تصور پیش کیا ہے، اس کے جزوی پہلوؤں پر گفتگو کے ساتھ ساتھ اس کی اصولی حیثیت کے بارے میں بھی بحث و مکالمہ ضروری ہے تاکہ وہ جس تصور سنت سے آج کی نسل کو متعارف کرانا چاہتے ہیں، اس کا صحیح تناظر سامنے آئے اور اس کو قبول یا رد کرنے کے بارے میں متعلقہ حضرات پورے اطمینان کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔

اسی پس منظر میں گفتگو کے آغاز کے طور پر چند گزارشات قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ محترم غامدی صاحب اپنے موقف کی وضاحت کے لیے اس مکالمہ میں خود شریک ہوں گے اور اپنے قارئین، سامعین اور مخاطبین کی راہ نمائی کے لیے کردار ادا کریں گے۔

محترم جاوید احمد غامدی اور ان کے مکتب فکر کے ترجمان ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور کا اپریل ۲۰۰۸ء کا شمارہ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں غامدی صاحب کے رفیق کار جناب محمد رفیع مفتی نے سوال و جواب کے باب میں دو سوالوں کے جواب میں سنت نبوی کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف پیش کیا ہے اور ان کے یہی ارشادات ہماری ان گزارشات کی بنیاد ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں محمد رفیع مفتی صاحب فرماتے ہیں:

’’قرآن مجید میں ہر چیز کے موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جو دعوت دی گئی ہے اور حق کی شہادت کے حوالے سے جو استدلال کیا گیا ہے، اس میں کوئی کمی نہیں ہے اور وہ ہر پہلو سے جامع ہے، چنانچہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کتاب اجزائے دین کے بیان اور ان کی تفصیلات کے پہلو سے مکمل ہے۔ اجزائے دین کے حوالے سے کئی چیزوں کو اس میں بیان ہی نہیں کیا گیا، مثلاً نماز کی رکعتیں، اوقات اور دیگر تفصیلات، زکوٰۃ کی شرحیں، مونچھیں پست رکھنا، عید الفطر اور عید الاضحی وغیرہ، شریعت سے متعلق یہ اہم چیزیں قرآن مجید میں موجود ہی نہیں۔ چنانچہ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ قرآن مجید اس پہلو سے جامع ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے دین کے سب اجزا بیان کر دیے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا دین ایک رسول کے ذریعے سے دیا ہے اور یہ بات ایک تاریخی سچائی ہے کہ اس رسول نے خدا کا یہ دین ہمیں علم کی صورت میں بھی دیا ہے اور عمل کی صورت میں بھی۔ جو دین ہمیں علم کی صورت میں ملا ہے، وہ سارے کا سارا قرآن مجید میں ہے اور جو عمل کی صورت میں ملا ہے، وہ سنت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت میں جاری کیا ہے۔

چنانچہ اگر ہم قرآن کے علاوہ سنت کے اس ذریعے کا انکار کرتے ہیں تو پھر ان سب اعمال کو ہم بطور دین قبول ہی نہیں کر سکتے۔ بے شک ان میں سے بعض چیزوں کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے، لیکن اس میں وہ ذکر اس طرح سے موجود ہے کہ گویا یہ پہلے سے موجود اور متعارف چیزیں ہیں جن پر لوگ عمل کر رہے ہیں اور قرآن محض کسی خاص پہلو سے ان کا ذکر کر رہا ہے۔ جب یہ حقیقت ہے تو پھر پورا دین حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن و سنت دونوں کی طرف رجوع کریں۔‘‘

جبکہ اسی باب میں ایک اور سوال کے جواب میں، جس میں یہ دریافت کیا گیا ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک سنت سے کیا مراد ہے اور یہ کون کون سی ہیں، محمد رفیع مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’سنت دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک یہ درج ذیل ہیں:

عبادات

(۱) نماز (۲) زکوٰۃ اور صدقہ فطر (۳) روزہ و اعتکاف (۴) حج وعمرہ (۵) قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں

معاشرت

(۱) نکاح و طلاق اور اس کے متعلقات (۲) حیض و نفاس میں زن و شوہر کے تعلقات سے اجتناب

خورد و نوش

(۱) سور، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت (۲) اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ

رسوم و آداب

(۱) اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا (۲) ملاقات کے موقع پر السلام علیکم اور اس کا جواب (۳) چھینک آنے پر الحمد للہ اور اس کے جواب میں یرحمک اللہ (۴) نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت (۵) مونچھیں پست رکھنا (۶) زیر ناف کے بال کاٹنا (۷) بغل کے بال صاف کرنا (۸) بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا (۹) لڑکوں کا ختنہ کرنا (۱۰) ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی (۱۱) استنجا کرنا (۱۲) حیض و نفاس کے بعد غسل (۱۳) غسل جنابت (۱۴) میت کا غسل (۱۵) تجہیز و تکفین (۱۶) تدفین (۱۷) عید الفطر (۱۸) عید الاضحی‘‘۔

محمد رفیع مفتی صاحب کی ان دونوں عبارتوں کو سامنے رکھ کر ہم جس نتیجے پر پہنچے ہیں، وہ کچھ اس طرح ہے کہ:

  • غامدی صاحب سنت نبوی کے حجت ہونے کے قائل ہیں اور اس بارے میں وہ جمہور امت کے ساتھ ہیں، مگر سنت کی تعریف اور تعین میں وہ جمہور امت سے ہٹ کر ایک الگ مفہوم طے کر رہے ہیں۔
  • وہ سنت کے صرف عملی پہلوؤں پر یقین رکھتے ہیں اور سنت کے ذریعے علم میں کسی نئے اضافے کے قائل نہیں ہیں۔
  • سنت کے عملی پہلوؤں میں بھی وہ اسے صرف دین ابراہیمی کی سابقہ روایات کی تجدید و اصلاح اور ان میں جزوی اضافوں تک محدود رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک دین ابراہیمی کی سابقہ روایات سے ہٹ کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نیا عمل اور ارشاد سنت میں شامل نہیں ہے۔
  • سنت کے ساتھ ساتھ وہ قرآن کریم کا وظیفہ بھی صرف اس دائرے میں محدود کر رہے ہیں کہ وہ پہلے سے موجود و متعارف چیزوں کا ذکر کرتا ہے۔ گویا پہلے سے موجود و متعارف چیزوں سے ہٹ کر کوئی نیا حکم دینا یا دین میں کسی نئی بات کا اضافہ کرنا قرآن مجید کے دائرۂ کار میں بھی شامل نہیں ہے۔
  • ان کے نزدیک سنت کسی اصول و ضابطہ پر مبنی نہیں ہے جس کی بنیاد پر کسی بھی کام کے سنت یا غیر سنت ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہو، بلکہ سنت لگی بندھی اشیا کی ایک فہرست کا نام ہے جس میں کسی حوالے سے کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔
  • اس فہرست سے ہٹ کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا عمل غامدی صاحب کے نزدیک سنت کہلانے کا مستحق نہیں ہے اور نہ ہی اسے حجت کا درجہ حاصل ہے۔
  • سنتوں کی اس فہرست میں شامل تمام امور کا تعلق ایک مسلمان کی ذاتی زندگی اور زیادہ سے زیادہ خاندانی معاملات سے ہے جبکہ سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے تعلق رکھنے والے امور میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و اعمال کو سنت کا درجہ حاصل نہیں ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حاکم، قاضی، کمانڈر اور ڈپلومیٹ وغیرہ کے طور پر جو کچھ کیا ہے اور جو کچھ فرمایا ہے، وہ بھی سنت کے اس مفہوم سے خارج ہے۔

چنانچہ سنت کے اس مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے جو ہم نے مندرجہ بالا دو عبارتوں سے سمجھا ہے، یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ سنت نبوی کا یہ مفہوم نہ صرف یہ کہ جمہور امت بالخصوص خیر القرون کے اجماعی تعامل کے منافی ہے بلکہ انتہائی گمراہ کن اور عملاً سنت کے حجت ہونے سے انکار کے مترادف ہے۔ سنت اور حدیث کے حوالے سے محدثین کے بعض فنی مباحث سے قطع نظر جمہور امت کے نزدیک سنت و حدیث میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ تمام ارشادات و اعمال شامل ہیں جو کسی بھی حوالے سے صحیح سند کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ ان میں ناسخ و منسوخ اور راجح و مرجوح کی ترجیحات، صحیح و ضعیف کی چھان پھٹک اور واجب العمل ہونے یا نہ ہونے کی درجہ بندی اپنے مقام پر مسلم ہے، لیکن سنت نبوی کی تعیین کا بنیادی ماخذ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات و اعمال ہیں جنھیں محدثین کرام نے پورے استناد و اعتماد کے ساتھ محفوظ رکھا ہے۔ احادیث کے اسی ذخیرے سے سنت کا تعین اور انتخاب ہوتا ہے، اس لیے دین میں سنت کے حجت ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ماخذ کی حیثیت سے حدیث نبوی بھی حجت کا درجہ رکھتی ہے اور یہ حدیث و سنت صرف دین ابراہیمی کی سابقہ روایات کی خبر کا فائدہ نہیں دیتی بلکہ انشا کے درجے میں بہت سے نئے احکام اور قوانین کا اضافہ بھی کرتی ہے، اس لیے اگر قرآن و سنت دونوں کے کردار کو دین ابراہیم کی سابقہ روایات کی خبر دینے اور ان میں تھوڑی بہت اصلاح و ترمیم نیز پہلے سے موجود و متعارف امور کے تذکرہ تک محدود کر دیا جائے تو نہ قرآن کریم مستقل طور پر ’’الکتاب‘‘ کے درجے پر فائز رہتا ہے اور نہ ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’مستقل رسول‘‘ قرار دینا آسان ہوگا بلکہ (نعوذ باللہ) دونوں کی حیثیت عملاً بنی اسرائیل کے ان انبیاء کرام علیہم السلام اور ان پر نازل ہونے والی وحی کی طرح ہو جائے گی جو موسوی شریعت کے تسلسل کو آگے بڑھانے اور بعض ترامیم اور جزوی ردوبدل کے ساتھ بنی اسرائیل کو اس شریعت پر چلاتے رہنے کے لیے تشریف لاتے رہے ہیں۔

اسی طرح جمہور امت کے نزدیک حدیث و سنت صرف عمل کا فائدہ نہیں دیتی، بلکہ وہ علم کا ماخذ بھی ہے اور ہر دور میں علمائے امت نے حدیث و سنت کے ذخیرے سے عمل میں راہ نمائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے ’’علم‘‘ کے باب میں بھی استفادہ کیا ہے۔ مثلاً عقیدہ کا تعلق خالصتاً ’’علم‘‘ سے ہے اور جمہور امت کے نزدیک جو باتیں عقائد و ایمانیات میں شامل ہیں، ان کی بنیاد صرف قرآن کریم پر نہیں ہے، بلکہ حدیث و سنت کو بھی ایمانیات و عقائد کے تعین اور تعبیر و تشریح دونوں حوالوں سے ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ اور جس طرح قرآن کریم کے ارشادات ہمارے عقیدہ و ایمان کا حصہ بنتے ہیں، اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات بھی ایمان و عقیدہ کی بنیاد اور اساس ہیں۔

میں اس سلسلے میں صحابہ کرامؓ کے دور کے دو واقعات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ خیر القرون میں عقیدہ کے تعین اور تعبیر، دونوں میں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث نبوی کو بھی ماخذ کی حیثیت حاصل تھی اور ان دونوں کی وضاحت اور ان کے صحیح مصداق کے تعین کے لیے صحابہ کرامؓ سے رجوع کیا جاتا تھا۔

امام مسلم نے ’’صحیح مسلم‘‘ کی ایک روایت میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ یحییٰ بن یعمرؒ نے، جو تابعین میں سے ہیں، بیان کیا کہ جب بصرہ میں معبد جہنی نے تقدیر کے انکار کی بات کی تو میں اور حمید بن عبد الرحمن حج یا عمرہ کے لیے روانہ ہوئے اور ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہمیں صحابہ کرامؓ میں سے کسی بزرگ کی زیارت نصیب ہو گئی تو ہم ان سے معبد جہنی کے اس عقیدے کے بارے میں دریافت کریں گے۔ ہمیں اس سفر میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی زیارت کا شرف حاصل ہو گیا۔ ہم نے ان سے عرض کیا کہ ہمارے علاقے میں کچھ لوگ ہیں جو قرآن کریم بھی پڑھتے ہیں اور علم کی باتیں بھی خوب کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہے اور دنیا میں جو کام بھی ہوتا ہے، نئے سرے سے ہوتا ہے (یعنی پہلے سے اس کے بارے میں کچھ لکھا ہوا نہیں ہے)۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ جب تم واپس جا کر ایسے لوگوں سے ملو تو انھیں میری طرف سے کہہ دو کہ میں ان سے براء ت کا اعلان کرتا ہوں اور وہ جب تک تقدیر پر ایمان نہیں لائیں گے، اگر احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیں تو ان سے وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طویل حدیث سنائی جس میں ایمانیات کا ذکر کرتے ہوئے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ وتؤمن بالقدر خیرہ و شرہ۔ تم تقدیر پر بھی ایمان لاؤ کہ خیر اور شر سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔

دوسرا واقعہ بھی امام مسلم نے کتاب الایمان میں ذکر کیا ہے، اس میں ایک اور تابعی بزرگ حضرت یزید الفقیر فرماتے ہیں کہ میں خوارج کے اس عقیدہ سے متاثر تھا کہ جو شخص ایک بار جہنم میں چلا گیا، وہ وہاں سے کبھی نہیں نکلے گا اور شفاعت کوئی چیز نہیں ہے، مگر مجھے ایک مرتبہ بہت سے دوستوں کے ساتھ حج کے لیے جانے کا موقع ملا تو مدینہ منورہ میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کو مسجد نبوی میں دیکھا کہ وہ ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگائے لوگوں کو وعظ فرما رہے تھے۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں کچھ لوگوں کے جہنم سے نکل کر جنت میں جانے کا ذکر کیا تو میں نے سوال کر دیا کہ حضرت! قرآن کریم تو کہتا ہے کہ ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ۔ اے اللہ، جس کو تو نے جہنم میں داخل کیا تو اسے رسوا کر دیا۔ اور قرآن کریم میں ہے کہ کلما ارادوا ان یخرجوا منہا اعیدوا فیہا، جہنم سے جب بھی لوگ نکلنے کا ارادہ کریں گے تو اسی میں لوٹا دیے جائیں گے۔ تو اس کے بعد آپ حضرات یہ کیا کہہ رہے ہیں کہ شفاعت ہوگی اور کچھ لوگوں کو جہنم میں سے نکالا جائے گا؟ حضرت جابرؓ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ کیا تم نے قرآن کریم پڑھا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا کہ کیا اس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’مقام محمود‘‘ کا تذکرہ بھی پڑھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں پڑھا ہے تو اس پر حضرت جابر بن عبد اللہ نے ایک طویل حدیث سنائی جس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قیامت کے دن ’’مقام محمود‘‘ میں کھڑے ہو کر شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت پر بے شمار لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، جبکہ وہ آگ میں جل کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے۔ یزید الفقیر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر سے یہ حدیث سن کر ہم نے آپس میں گفتگو کی اور ایک دوسرے سے کہا کہ تمہارے لیے بربادی ہو، کیا یہ بزرگ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جھوٹ بول رہے ہیں؟ چنانچہ ایک شخص کے سوا ہم سب رفقاء نے اپنے سابقہ عقیدے سے رجوع کر لیا۔

ان دونوں واقعات کو ایک بار پھر پڑھ لیجیے بلکہ ہم نے انھیں مختصراً نقل کیا ہے، ہو سکے تو صحیح مسلم میں انھیں براہ راست بھی دیکھ لیجیے، ان میں عقیدہ کی بات ہے۔ اور ایک واقعہ میں تو اشکال کے لیے قرآن کریم کی دو آیات کا حوالہ دیا گیا ہے، عقیدہ کی وضاحت کے لیے صحابہ کرام سے رجوع کیا گیا ہے، دونوں بزرگوں یعنی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت جابر بن عبد اللہؓ نے عقیدہ کی وضاحت کے لیے حدیث نبوی پیش کی ہے، اور پوچھنے والوں نے اسے کافی سمجھتے ہوئے اپنے عقیدہ کو درست کر لیا ہے۔

اہل السنۃ والجماعۃ کا اسلوب یہی ہے کہ وہ دین کے حوالے سے سنت و حدیث کو ماخذ و معیار سمجھتے ہیں، جبکہ اس کی وضاحت کے لیے صحابہ کرام سے رجوع کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اہل السنۃ والجماعۃ کہلاتے ہیں۔ چنانچہ عقائد کے باب میں جو رسالے عقائد کے بحث و مباحثہ کے آغاز میں لکھے گئے تھے، ان میں حضرت امام ابوحنیفہؒ کا رسالہ ’’الفقہ الاکبر‘‘، امام محمد کا رسالہ ’’عقیدۃ الشیبانی‘‘، امام احمد بن حنبل کا رسالہ ’’العقیدۃ‘‘ اور امام طحاوی کا رسالہ ’’العقیدۃ الطحاویہ‘‘ معروف رسائل ہیں۔ ان میں جتنے عقائد کا ذکر ہے اور جن پر ایمان لانا ایک مسلمان کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے، ان میں سے بیشتر کا ماخذ حدیث نبوی ہے اور قرآن کریم کے ساتھ ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات سے بھی عقائد و ایمانیات میں استفادہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں صحیح بخاری جمہور امت اور اہل سنت کے اسلوب کا بہترین نمونہ ہے جس میں حضرت امام بخاریؒ نے ’’الجامع الصحیح‘‘ کے سب سے پہلے باب ’’کتاب الایمان‘‘ میں عقائد و ایمانیات بیان کیے ہیں اور سب سے آخری باب ’’کتاب الرد علی الجہمیۃ‘‘ میں عقائد کی تعبیرات و تشریحات کا ذکر کیا ہے اور دونوں ابواب میں یعنی عقیدہ کے تعین اور اس کی تعبیر و تشریح دونوں میں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ احادیث نبویہ کو بھی بنیاد بنایا ہے، ان دونوں کی وضاحت اور ان کے مصداق کے تعین کے لیے حضرات صحابہ کرام کے ارشادات و توضیحات سے استدلال کیا ہے، اور یہی قرآن و سنت کی بنیاد پر دین کی تعبیر و تشریح کا صحیح اسلوب اور معیار ہے۔

اس ضمن میں ماہنامہ ’’اشراق‘‘ کے مذکورہ شمارے (اپریل ۲۰۰۸) کے صفحہ ۸ میں سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کے اس ارشاد کا حوالہ دینا بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ:

’’اصل الفاظ ہیں: بل رفعہ اللہ الیہ۔ اس رفع کی وضاحت قرآن نے سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۵۵ میں اس طرح فرمائی ہے کہ وفات کے بعد اللہ تعالیٰ انھیں اپنی طرف اٹھا لیں گے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ روح قبض کر کے ان کا جسم بھی اٹھا لیا جائے گا تاکہ ان کے دشمن اس کی توہین نہ کر سکیں۔‘‘

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بارے میں غامدی صاحب کا یہ کہنا امت کے اجماعی عقیدہ کے منافی ہے، اس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ ان کے نزدیک عقیدہ کے تعین و تعبیر میں سنت و حدیث کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور ان کے خیال میں قرآن کریم سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح قبض کیے بغیر زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا گیا تھا۔ اگرچہ ان کا یہ موقف بھی محل نظر ہے کہ قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ حالت میں آسمانوں کی طرف اٹھائے جانے کا ثبوت نہیں ملتا، لیکن اس وقت ہمارا یہ موضوع گفتگو نہیں ہے اور ہم سردست یہ عرض کرنا چاہ رہے ہیں کہ چونکہ غامدی صاحب سنت و حدیث کو علم کا ذریعہ نہیں سمجھتے اور عقائد کے ماخذ کے طور پر تسلیم نہیں کرتے، اس لیے انھیں امت کے اس اجماعی عقیدہ سے انحراف کرنا پڑ رہا ہے۔ اور بات صرف اس ایک عقیدہ تک محدود نہیں ہے، اور بھی بہت سے معاملات میں جمہور امت کے اجماعی تعامل سے غامدی صاحب کے انحراف کی وجہ یہی ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ ’’تصور سنت‘‘ صرف امت کے اجماعی تعامل و عقیدہ ہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ و من یشاقق الرسول اور ویتبع غیر سبیل المؤمنین کی حدوں کو چھوتا ہوا بھی نظر آ رہا ہے۔ اس لیے ہم ’الدین النصیحۃ‘ کے تحت پورے خلوص کے ساتھ انھیں اس گمراہ کن تصور سے رجوع کا برادرانہ مشورہ دینا اپنی دینی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
   
2016ء سے
Flag Counter