میدان جنگ سے فرار ۔ بزدلی اور حکمت عملی کا فرق

   
۲۰ دسمبر ۲۰۰۱ء

حضرت خالد بن ولیدؓ غزوۂ موتہ سے مسلمانوں کا لشکر لے کر مدینہ منورہ واپس پہنچے تو مدینہ منورہ میں غم و حزن کی فضا تھی۔ علامہ شبلیؒ نعمانی نے اپنی تصنیف سیرت النبیؐ میں لکھا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غم اور پریشانی کے عالم میں مسجد نبویؐ کے ایک کونے میں جا بیٹھے جبکہ مدینہ کے عام لوگوں نے آنے والے لشکر کا استقبال اس طرح کیا کہ ان کے چہروں پر خاک پھینک رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ’’میدان جنگ سے بھاگنے والو واپس آگئے ہو؟‘‘

یہ سن آٹھ ہجری کی بات ہے جب جناب رسول اللہؐ نے صلح حدیبیہ کے بعد مختلف ممالک کے حکمرانوں کو دعوت اسلام کے خطوط لکھے تو اس وقت کی سب سے بڑی عیسائی سلطنت روم کے باجگزار صوبہ شام کے ایک حکمران کے نام بھی خط روانہ کیا۔ خط لے کر جانے والے صحابی حضرت حارث بن عمیرؓ تھے جنہیں قیصر روم کے ایک ماتحت عرب سردار شرجیل بن عمرو نے شہید کر دیا۔ آنحضرتؐ نے اپنے سفیر کے قتل کا قصاص لینے کے لیے تین ہزار صحابہ کرامؓ پر مشتمل لشکر روانہ کیا جس کا کمانڈر حضرت زید بن حارثہؓ کو مقرر فرمایا جو کہ ایک آزاد کردہ غلام تھے۔ جبکہ لشکر میں حضرت خالد بن ولیدؓ اور بعض دیگر معروف جرنیل بھی شامل تھے اس لیے عام عرب روایات کے مطابق زید بن حارثہؓ کی تقرری کو محسوس کیا گیا مگر آپؐ نے لشکر کو انہی کی قیادت میں روانہ کر دیا اور ساتھ ہی یہ ہدایت فرمائی کہ زید بن حارثہؓ شہید ہوں تو ان کی جگہ عبد اللہ بن رواحہؓ لشکر کے امیر ہوں گے اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالبؓ لشکر کی کمان سنبھالیں گے۔

تین ہزار صحابہؓ کا یہ لشکر جب شام کے علاقہ بلقاء میں پہنچا تو نہ صرف شرجیل بن عمرو ایک لاکھ فوج جمع کر کے اس کی کمان کرتے ہوئے مقابلہ کے لیے موجود تھا بلکہ خود قیصر روم بھی ایک لاکھ فوج کے ساتھ اسی علاقہ میں خیمہ زن تھا۔ یہ اس وقت کی سب سے بڑی عیسائی سلطنت اور دنیا کی سپر پاور روم کے ساتھ مسلمانوں کی پہلی معرکہ آرائی تھی۔ امیر لشکر زید بن حارثہؓ نے اپنی عددی قوت کو دشمن کے مقابلہ میں بہت کم سمجھتے ہوئے جنگ شروع کرنے سے قبل جناب نبی اکرمؐ سے دوبارہ رابطہ قائم کرنے کا خیال ظاہر کیا مگر حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور بعض دیگر حضرات نے اس سے اتفاق نہ کیا اور رائے دی کہ اب جب کہ ہم یہاں تک آہی گئے ہیں تو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی بجائے مقابلہ میں ڈٹ جانا چاہیے۔ چنانچہ موتہ کے مقام پر تین ہزار کا یہ لشکر شرجیل بن عمرو کے ایک لاکھ کے لشکر کے مقابلہ میں جا کھڑا ہوا۔ جنگ شروع ہوئی اور امیر لشکر حضرت زید بن حارثہؓ بے جگری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ آگے بڑھے اور انہوں نے بھی کچھ دیر مقابلہ کے بعد شہادت کا مقام حاصل کر لیا۔ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے لشکر کی کمان سنبھالی اور مقابلہ پر ڈٹ گئے۔ پرچم ان کے دائیں ہاتھ میں تھا جس پر دشمن نے وار کیا اور وہ ہاتھ کٹ گیا، انہوں نے پرچم دوسرے ہاتھ میں لے لیا، اس پر ایک وار ہوا اور وہ بھی کٹ گیا، اب پرچم کو انہوں نے گردن میں دبا کر گرنے سے بچایا اور پوری دلیری کے ساتھ کھڑے رہے۔ اس دور میں میدان جنگ میں پرچم کا گر جانا شکست کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

حضرت خالد بن ولیدؓ ایک سپاہی کی حیثیت سے لشکر میں موجود تھے اور جنگ میں شریک تھے۔ انہوں نے یہ منظر دیکھا تو جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھ کر پرچم تھام لیا اور لشکر سے مخاطب ہو کر اعلان کیا کہ جناب رسول اللہؐ کے مقرر کردہ تینوں امیر باری باری شہید ہوگئے ہیں اب مشورہ کا وقت نہیں ہے اس لیے میں نے از خود آگے بڑھ کر کمان سنبھال لی ہے اور اب اس لشکر کی کمان میں خالد بن ولیدؓ کر رہا ہوں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کے سامنے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے اس لشکر کو دشمن کے نرغے سے بحفاظت کس طرح نکالا جائے۔ اور اس وقت کی معروضی صورتحال میں کامیابی یہی تھی کہ لشکر کو کسی مزید نقصان کے بغیر جنگ سے باہر لے جایا جائے تاکہ صورتحال کا ازسرنو جائزہ لے کر نئی حکمت عملی طے کی جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے کمال حکمت عملی، حوصلہ مندی اور تدبر کے ساتھ اس لشکر کو دشمن کے نرغہ سے نکالا لیکن دوبارہ جنگ میں شریک ہونے کی بجائے مدینہ منورہ واپسی کی کو زیادہ بہتر سمجھا تاکہ آنحضرتؐ کی خدمت میں تفصیل عرض کر کے نئی ہدایات لی جائیں۔

یہ لشکر جب مدینہ منورہ پہنچا تو اسے عام طور پر شکست سمجھا گیا اور اسی وجہ سے مدینہ منورہ کے کچھ لوگوں نے آنے والوں کو میدان جنگ سے فرار کا طعنہ دے کر ان کے چہروں پر خاک بھی پھینکی۔ مگر جناب رسول اللہؐ نے اس پسپائی کو شکست قرار دینے کی بجائے دوبارہ حملہ کی تیاری کے لیے میدان جنگ سے واپسی قرار دیا۔ اور یہی وہ موقع تھا جب حضرت خالد بن ولیدؓ کی جرأت و تدبر اور جنگی حکمت عملی کو سراہتے ہوئے جناب نبی اکرمؐ نے انہیں ’’سیف اللہ‘‘ کا خطاب بھی دیا۔

اس غزوہ میں مسلمانوں کی پسپائی کا بدلہ لینے کے لیے جناب رسول اللہؐ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں ایک لشکر شام پر چڑھائی کے لیے پھر تیار کیا اور اس کا امیر حضرت زید بن حارثہؓ کے فرزند حضرت اسامہ بن زیدؓ کو مقرر فرمایا۔ وہ اس وقت انیس بیس برس کے لگ بھگ عمر کے نوجوان تھے، ان کی امارت پر بھی بعض حضرات کی طرف سے اعتراض کیا گیا تو حضورؐ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا لیکن بخدا وہ بھی امارت کا اہل تھا اور یہ اس کا بیٹا اسامہ بھی امارت کی اہلیت رکھتا ہے۔ آنحضرتؐ نے بیماری کے باوجود خود مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جا کر لشکر کو روانہ کیا مگر یہ لشکر ابھی تھوڑے فاصلہ پر جرف کے مقام تک پہنچا تھا کہ حضورؐ کا وصال ہوگیا اور حضرت اسامہ بن زیدؓ لشکر کو لے کر واپس آگئے اور آپؐ کی تجہیز و تکفین میں شریک ہوئے۔ رسول اکرمؐ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ بنے تو ہر طرف بغاوت اور ارتداد کے فتنے اٹھ کھڑے ہوئے اور بہت مشکل صورتحال پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے حضرت عمر بن الخطابؓ اور بعض دیگر صحابہ کرامؓ نے خلیفہ رسول اللہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مشورہ دیا کہ اس موقع پر اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کو شام کی طرف رومیوں کے مقابلہ کے لیے روانہ نہ کیا جائے بلکہ مدینہ منورہ کی حفاظت اور دفاع کے لیے اس لشکر کو روک لیا جائے۔ مگر حضرت صدیق اکبرؓ نے یہ کہہ کر لشکر کی روانگی روکنے سے انکار کر دیا کہ جس لشکر کو خود جناب رسول اللہؐ روانہ کر چکے ہیں اسے میں نہیں روک سکتا۔

چنانچہ لشکر کی دوبارہ روانگی طے پائی اور حضرت صدیق اکبرؓ نے خود مدینہ منورہ سے باہر جا کر لشکر کو رخصت کیا اور یہ فرمایا کہ اگر خلافت کی ذمہ داریاں نہ ہوتیں تو وہ خود بھی اس لشکر میں اسامہ بن زیدؓ کی قیادت میں رومیوں کے خلاف جنگ میں شریک ہوتے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ لشکر کو لے کر شام کی طرف بڑھے تو اس بار کوئی بڑی مزاحمت نہ ہوئی اور وہ بڑھتے بڑھتے دمشق کے قریب الزیت اور المزہ کے مقامات تک جا پہنچے، وہاں کچھ دن قیام کیا اور مدینہ منورہ واپس لوٹ آئے۔ یہ لشکر غزوۂ موتہ میں مسلمانوں کی وقتی پسپائی کا جواب بھی تھا اور سلطنت روما کے زیر تسلط عرب علاقوں کی فتوحات کا نقطۂ آغاز بھی ثابت ہوا۔ اور پھر اس کے بعد اس وقت کی سب سے بڑی عیسائی سلطنت اور سپر پاور ’’سلطنت روما‘‘ کو مسلمانوں کے پے در پے حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے سمٹنے اور سمٹتے چلے جانے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter