(مولانا عبید اللہ سندھیؒ قومی سیمینار منعقدہ کراچی (۱۰ و ۱۱ ستمبر ۱۹۹۴ء) کے لیے لکھا گیا۔)
یہ المیہ کم و بیش ہر بڑی شخصیت کے ساتھ پیش آتا ہے کہ اس کی تصویر کے لیے اس کے معتقدین اور ناقدین اپنے اپنے ذوق کے مطابق الگ الگ فریم اور خاکے طے کر لیتے ہیں اور پھر تصویر کو ان میں فٹ کرنے کی متضاد کوششیں بسا اوقات اصل چہرے کو دھندلا کر کے رکھ دیتی ہیں۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ بھی نادان دوستوں اور بے رحم ناقدوں کے اس طرز عمل سے محفوظ نہیں رہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس منفرد انقلابی مفکر کی وفات کو نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ہم اس کی فکر کو لے کر آگے بڑھنے کی بجائے تاریخ کے صفحات میں اسے تلاش اور دریافت کرنے کے مرحلہ میں ہی رکے ہوئے ہیں۔
- مولانا عبید اللہ سندھیؒ کون تھے؟
- برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کی تاریخ میں ان کی جدوجہد اور کردار کی حیثیت کیا ہے؟
- اور کیا وہ اپنے فکر و فلسفہ میں مغربی سرمایہ داری اور اشتراکیت کی عالمی کشمکش سے متاثر ہو کر فریق بن گئے تھے؟
ان سوالات کا جائزہ لینے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان کی جدوجہد اور تگ و تاز کن مقاصد کے لیے تھی اور انہیں اپنی محنت کے لیے جو ماحول اور میدان ملا اس میں وہ کن مشکلات اور رکاوٹوں سے دوچار ہوئے۔
مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا ذاتی تعارف صرف اس قدر ہے کہ وہ ایک غیر مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے، اسکول کی تعلیم کے دور میں دوستوں کی سوسائٹی اور بعض کتابوں کے مطالعہ سے اسلام سے متاثر ہوا، اسلام قبول کیا، گھر بار چھوڑا، اور ان کی قسمت یاوری کرتے ہوئے انہیں اپنے وقت کے عارف باللہ سید العارفین حضرت حافظ محمد صدیقؒ (بھرچونڈی شریف سندھ) کی خدمت میں لے گئی جہاں ان کے دل و دماغ اور شخصیت و کردار کو ایک ایسا سانچہ میسر آگیا جس میں ڈھل کر وہ اسلام کے غلبہ و نفاذ اور ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کی اس تحریک میں ایک کارآمد پرزے کی طرح فٹ ہوگئے، جسے تحریک ولی اللٰہی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کے بعد مولانا سندھیؒ کا تعارف تحریک ولی اللٰہی کے ایک بے لوث کارکن اور باشعور راہنما کا تعارف ہے۔ اور یہی وہ پس منظر ہے جو مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی اصل شخصیت سے ہمیں متعارف کراتا ہے۔
مولانا عبید اللہ سندھیؒ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے شاگرد اور دست راست تھے جو اپنے دور میں تحریک ولی اللٰہی کے قائد اور جنگ آزادی کے سرخیل رہے ہیں۔ انہی کی وساطت سے مولانا سندھیؒ امام ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ، جدوجہد اور تحریک سے متعارف ہوئے اور پھر اسی کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے تحریک ولی اللٰہی کے لیے فکری اور نظریاتی کام بھی کیا اور معروضی حالات میں اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے جاں گسل محنت بھی کی۔ بلکہ اگر قربانیوں، محنت و مشقت اور ایثار کے حوالہ سے دیکھا جائے تو شاید ہی اس دور کا کوئی اور راہنما ان کا ہم پلہ ثابت ہو سکے۔
حضرت شیخ الہندؒ اور مولانا سندھیؒ کی جدوجہد کے مقاصد اور اہداف کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس فکری اور نظریاتی جنگ کے تاریخی تسلسل پر ایک نظر ڈال لی جائے جو مسلم معاشرہ کو بیرونی فلسفوں اور معاشرتوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے طویل عرصہ سے لڑی جا رہی ہے۔
- اس جنگ کا پہلا دور وہ تھا جب یونانی فلسفہ نے اسلامی عقائد پر یلغار کی اور مسلمانوں کے اعتقادی حصار کو توڑنا چاہا۔ مگر غزالیؒ، ابن رشدؒ اور ابن تیمیہؒ جیسی عبقری شخصیتیں سامنے آئیں اور یونانی فلسفہ ہی کی زبان اختیار کر کے اسی کے ہتھیاروں سے اس کا راستہ روک دیا۔
- دوسرے دور میں ہندو تہذیب و فلسفہ نے مسلم معاشرہ کو اپنے اندر ضم کر لینے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے مگر حضرت مجدد الفؒ ثانی اور ان کے رفقاء کی صبر آزما جدوجہد نے ہندو فلسفہ و معاشرت کی قوت ہاضمہ کو ناکارہ بنا دیا۔
- جبکہ اس جنگ کا تیسرا مرحلہ یورپی فلسفہ و معاشرت کی یلغار کا ہے جسے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے قبل از وقت محسوس کر لیا اور اس کا سامنا کرنے کے لیے ایک فکری اور علمی جدوجہد کی بنیاد رکھی دی جو آج تک اس معرکہ میں مسلمانوں کے لیے ڈھال بنی ہوئی ہے۔
مولانا عبید اللہ سندھیؒ جب حضرت شیخ الہندؒ کے معاون و مددگار کے طور پر اس تحریک میں شامل ہوئے تو یہ تحریک اس مرحلہ میں تھی کہ برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پوری طرح انگریزی عملداری میں آچکا تھا اور اس کے خلاف جہاد بالاکوٹ، بنگال کی فرائضی تحریک، اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سمیت تمام مزاحمتی تحریکیں وقتی طور پر ناکامی سے دوچار ہو چکی تھیں۔ مسلمانوں کی سیاست، تعلیم، معاشرت اور معیشت کے صدیوں سے چلے آنے والے ڈھانچے دہلی کے انگریز حکمرانوں کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ چکے تھے اور شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کارکنوں کی نئی کھیپ تیار کر کے بدیشی غاصبوں کے خلاف ایک نیا معرکہ بپا کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
گزشتہ تین صدیوں کے دوران میں جب یورپی اقوام نے دنیا بھر کو غلام بنانے کے لیے چاروں طرف یلغار کی تو یہ تنہا انگریزوں کی یلغار نہ تھی بلکہ اس میں فرانسیسی، ولندیزی، پرتگیزی اور جرمن بھی شامل تھے۔ لیکن انگریز کی شاطرانہ چالوں کے سامنے ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا اور بالآخر یہ سب یکے بعد دیگرے سپرانداز ہوتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ اس سلسلہ کا آخری سیمی فائنل بھی انگریزوں نے جیت لیا جو کمیونزم کے خلاف ’’کولڈ وار‘‘ کے نام پر چند سال قبل تک بپا رہا ہے۔ اور اب تمام مغربی اقوام امریکہ کی قیادت میں متحد ہو کر مسلمانوں کے ساتھ فائنل میچ کے لیے پوری طرح فارم میں ہیں۔
مگر جب شیخ الہندؒ نے اس صدی کے آغاز میں دہلی کے انگریز حکمرانوں سے دو دو ہاتھ کرنے کا پروگرام بنایا تو دنیا کا سیاسی منظر آج سے بہت مختلف تھا۔ ترکی کی خلافت عثمانیہ جو پانچ صدیوں تک مسلمانان عالم کی سیاسی وحدت و مرکزیت کی علامت سمجھی جاتی رہی ہے ابھی زندہ تھی، اور جرمن ایک توانا و طاقتور حریف کے طور پر انگریز قوم کا سامنا کر رہے تھے ، بلکہ انگریز دشمنی نے ترکوں اور جرمنوں کو ایک دوسرے کے قدرتی حلیف کی حیثیت دے رکھی تھی۔ ایسے حالات میں حضرت شیخ الہندؒ نے بھی ایک ہوشیار جرنیل کی طرح انگریزوں اور جرمنوں کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھانا چاہا اور اس کے لیے منصوبہ بندی کی۔ اس کی تفصیلات مولانا سید محمد میاںؒ نے اپنی کتاب ’’تحریک شیخ الہند‘‘ میں انڈیا آفس لائبریری لندن میں محفوظ سرکاری دستاویزات کے حوالہ سے مرتب کر دی ہیں اور اب جرمن وزارت خارجہ کے ایک سابق ڈپٹی سیکرٹری اور برلن یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے استاذ پروفیسر اولف شمل کے حوالہ سے بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ روزنامہ جنگ لندن ۱۶ اگست ۱۹۹۴ء کے مطابق پروفیسر اولف شمل کے بقول شیخ الہندؒ کی تحریک پر جرمن، ترک اور افغان حکومتیں ان کے ساتھ ایک ایسے معاہدہ پر متفق ہوگئی تھیں جس کا مقصد برصغیر میں انگریزی اقتدار کے خاتمہ کے لیے مشترکہ کارروائی کرنا تھا۔
اس جدوجہد کو ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ ’’تحریک شیخ الہندؒ‘‘ کے نام سے بھی متعارف تھی جبکہ پروفیسر اولف شمل نے اسے ’’برلن پلان‘‘ کا نام دیا ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ اس کے روح رواں تھے اور جرمنوں، ترکوں اور افغانوں کے ساتھ مذاکرات و معاہدات میں ان کے کردار کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ لیکن یہ تحریک بوجوہ ناکام ہوگئی اور اسی دور میں عالمی سیاسی منظر بھی تبدیل ہوگیا۔ ترکی کی خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا، جنگ عظیم اول میں جرمن شکست کھا گئے، اور کمیونسٹ انقلاب کے بعد روس ایک نئے حریف کے طور پر انگریزوں کے سامنے آگیا۔ ان حالات میں جبکہ شیخ الہندؒ کے پلان کی ناکامی کے بعد اس تحریک کے کم و بیش سب ارکان دہلی کی انگریزی حکومت کے عتاب کا شکار ہو کر جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے جا چکے تھے اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ تنہا جیل سے باہر رہ گئے تھے تو ایک موقع شناس اور مدبر سیاستدان کی حیثیت سے مولانا سندھیؒ کے لیے فطری راستہ یہی تھا کہ وہ انگریزوں کے نئے عالمی حریف ’’کمیونسٹ روس‘‘ کے ساتھ سلسلہ جنبانی کرتے۔ اور جس طرح ان کے استاذ حضرت شیخ الہندؒ نے انگریزوں اور جرمنوں کی کشمکش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی بالکل اسی طرح وہ انگریزوں اور روسیوں کی کشمکش سے فائدہ اٹھانے کی راہ نکالتے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ماسکو کا سفر کیا، وہاں کچھ عرصہ قیام کیا، کمیونسٹ لیڈروں سے ملاقاتیں کیں، کمیونسٹ انقلاب کا مطالعہ کیا اور مغربی سرمایہ داری اور کمیونزم کی کشمکش کے پس منظر میں روسی انقلاب کے بعض پہلوؤں پر کلمہ خیر بھی کہا۔
بس یہ ہے وہ پس منظر جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یار دوستوں نے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے اشتراکیت سے متاثر ہونے کا مفروضہ قائم کر لیا اور اب تک آنکھیں بند کر کے اس لکیر کو پیٹے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے مولانا سندھیؒ کے بعض خوشہ چین جنہوں نے اپنے استاذ کی پیروی میں کمیونسٹ انقلاب اور نظام کے مطالعہ کی زحمت تو اٹھا لی لیکن ان کی طرح فکری و نظریاتی توازن قائم نہ رکھ سکے، خود پر ’’لغزش پا‘‘ کا الزام زیادہ بوجھل سمجھتے ہوئے انہوں نے اسے اپنے استاذ کی طرف منتقل کر دینے میں عافیت محسوس کی اور یہ بات ناقدین کے بے رحم ہاتھوں میں پہنچ کر ایک نئے فکری معرکے کا عنوان بن گئی۔ ستم بالائے ستم کہ نادان دوستوں اور بے رحم ناقدوں میں سے کسی نے بھی خود مولانا عبید اللہ سندھیؒ سے ان کا موقف اور پوزیشن سمجھنے کی زحمت گوارا نہ کی جو اپنی جلاوطنی کے اختتام پر ہندوستان واپسی سے چند ماہ قبل اپنی خود نوشت میں یہ تحریر فرما رہے ہیں کہ
’’۱۹۲۲ء میں ترکی جانا ہوا، سات مہینے ماسکو میں رہا، سوشلزم کا مطالعہ اپنے نوجوان رفیقوں کی مدد سے کرتا رہا۔ چونکہ نیشنل کانگریس سے تعلق سرکاری طور پر ثابت ہو چکا تھا اس لیے سوویٹ روس نے اپنا معزز مہمان بنایا اور مطالعہ کے لیے ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائیں۔ (یہ غلط ہے کہ میں لینن سے ملا، کامریڈ لینن اس وقت ایسا بیمار تھا کہ اپنے قریبی دوستوں کو بھی نہیں پہچان سکتا تھا)۔ میرے اس مطالعہ کا نتیجہ ہے کہ میں اپنی مذہبی تحریک کو جو امام ولی اللہؒ کے فلسفہ کی ایک شاخ ہے، اس زمانہ کے لادینی حملہ سے محفوظ کرنے کی تدابیر سوچنے میں کامیاب ہوا۔‘‘ (بحوالہ ’’میری زندگی‘‘ مولانا سندھیؒ ص ۱۲۔ مطبوعہ مجلس قاسم المعارف دیوبند)
مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی ’’اس نص صریح‘‘ کے بعد بھی اگر کوئی صاحب ماسکو میں مولاناؒ کے قیام، سوشلزم کے مطالعہ اور برصغیر کی آزادی کے لیے روسی راہنماؤں کا تعاون حاصل کرنے کی کوششوں کو ’’اشتراکیت سے متاثر ہونے‘‘ کا عنوان دینے پر مصر ہیں تو انہیں رائے قائم کرنے کے حق سے نہیں روکا جا سکتا لیکن مولانا سندھیؒ کا دامن اس الزام سے بہرحال پاک ہے۔
مولانا سندھیؒ پر اشتراکیت سے متاثر ہونے کے الزام کا ایک اور انداز سے بھی جائزہ لے لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ وہ یہ کہ کمیونزم اور کمیونسٹ انقلاب کے تین الگ الگ پہلو ہیں جنہیں سامنے رکھنا ضروری ہے
- کمیونزم کا اعتقادی پہلو جس کا تعلق خدا تعالیٰ کے انکار، مذہب سے نفرت اور اخلاقیات سے انحراف سے ہے،
- مغربی سرمایہ داری اور کمیونزم کے معاشی اصولوں کے تقابلی مطالعہ میں ترجیحات کا تعین،
- اور روسی انقلاب کے ابتدائی دور میں دنیا بھر کی تحریکاتِ آزادی کے ساتھ اس کا ہمدردانہ طرز عمل۔
جہاں تک اعتقاد و نظریات کا تعلق ہے مولانا سندھیؒ کا بڑے سے بڑا مخالف بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کے ایمان و کردار اور عبادات و اخلاق میں آخر وقت تک کوئی ایسا جھول سامنے آیا ہو جسے کمزوری تو کجا رخصت کے دائرہ میں شامل کیا جا سکے۔ ان کا ایمان و عمل تو حضرت ابوذر غفاریؓ کی طرح عزیمت و استقامت کا ایمان و عمل ہے جس کے ساتھ سوائے رشک کے اور کوئی نسبت قائم نہیں کی جا سکتی۔ اور مولانا سندھیؒ خود اپنے ایمانی عزم کا اظہار ان الفاظ میں کر رہے ہیں کہ
’’ہم پر قطعی طور پر لازم ہے کہ ہم تمام اقوام عالم کے سامنے ثابت کر دیں کہ انسانیت کے ہاتھ میں قرآن کریم سے زیادہ درست اور صحیح کوئی پروگرام نہیں ہے۔ پھر ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ جو لوگ قرآن کریم پر ایمان لا چکے ہیں ان کی جماعت کو منظم کیا جائے خواہ وہ کسی قوم یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہم ان کی کسی اور حیثیت کی طرف نہ دیکھیں بجز قرآن کریم پر ایمان لانے کے۔ پس ایسی جماعت ہی مخالفین پر غالب آئے گی لیکن ان کا غلبہ انتقامی شکل میں نہیں ہوگا بلکہ ہدایت اور ارشاد کے طریق پر ہوگا جیسا کہ والد اپنی اولاد پر غالب ہوتا ہے۔ اب اس نظام کے خلاف جو بھی اٹھ کھڑا ہوگا وہ فنا کر دینے کے قابل ہوگا۔‘‘ (الہام الرحمٰن بحوالہ ’’مولانا سندھیؒ کے علوم و افکار‘‘ از مولانا عبد الحمید سواتی ص ۱۷)
’’میرا یہ غیر متزلزل یقین اور عقیدہ ہے کہ اسلام کا مستقبل بڑا روشن اور شاندار ہے۔ بے شک اسلام پوری قوت اور توانائی کے ساتھ ایک بار پھر ابھرے گا لیکن خارج میں اس کا ڈھانچہ وہ نہیں رہے گا جو اس وقت ہے۔‘‘ (ذاتی ڈائری ص ۳۳)
’’میں مطمئن ہوں کہ اسلام کا احیاء نشاۃ ثانیہ میں دو اصولوں پر ہوگا
- اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ اور جو آدمی ہماری اس بات پر متفق ہے وہ ہماری جماعت کا فرد ہوگا۔ یہی ایک کلمہ تمام امور کے لیے کفایت کرنے والا ہے۔
- سود کی قطعی حرمت اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کو روکنا اور سود کھانے والوں کے خلاف اعلان جنگ کرنا۔ مسلمان ان دونوں اصولوں پر عمل پیرا ہوئے بغیر کسی طرح زندہ نہیں رہ سکتے۔‘‘
(بحوالہ مولانا سندھیؒ کے علوم و افکار ص ۲۴)
البتہ مولانا سندھیؒ نے مغربی سرمایہ داری اور کمیونزم کے تقابلی مطالعہ میں اپنی ترجیحات ضرور قائم کی ہیں جو ان امور پر اجتہادی نظر رکھنے والے ہر صاحب علم کا حق ہے۔ اس حوالہ سے مولانا سندھیؒ کے افکار اور ترجیحات سے اختلاف یا اتفاق دونوں کی گنجائش موجود ہے لیکن ایسے معاملات میں جن کا تعلق قرآن و سنت کی صریح نصوص سے نہیں، انہیں رائے قائم کرنے اور ترجیحات متعین کرنے کے علمی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح مولانا سندھیؒ نے روسی انقلاب کے ابتدائی دور میں دنیا بھر کی تحریکات آزادی کے ساتھ اس کے ہمدردانہ رویہ کی تعریف کی ہے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ یہ ایک فطری، نارمل اور معقول طرز عمل ہے جو ان جیسے حالات سے دوچار کسی بھی مجاہد آزادی کے لیے ناگزیر تھا۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ روسی انقلاب کے بارے میں مولانا سندھیؒ کے اس دور کے تاثرات کا اطلاق بعد کے ادوار پر بھی ہو جبکہ روس خود ایک استعمار کا روپ دھار چکا تھا اور مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کی اقوام کی آزادی غصب کر کے ان کے مذہب، ثقافت اور معاشرت کو ملیامیٹ کرنے کے درپے تھا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رومیوں اور ایرانیوں کی باہمی جنگ کے حوالہ سے قرآن کریم نے بھی ایک موقع پر رومیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور رومیوں کی کامیابی کو مسلمانوں کے لیے باعث فرحت قرار دیا ہے۔ لیکن یہ ایک وقتی بات تھی اور اس وقت کے معروضی حالات کے پس منظر میں تھی۔ اس کے چند سال بعد خود جناب رسول اللہؐ صحابہ کرامؓ کا لشکر جرار لے کر تبوک کے مقام پر جہاد کے لیے رومی لشکر کا انتظار کر رہے تھے۔
مولانا سندھیؒ نے اس دور میں روسی انقلاب کے بارے میں اگر کچھ تعریفی باتیں کی ہیں تو انہیں اس دور کے معروضی حالات کے پس منظر میں ہی دیکھنا ہوگا۔ ورنہ جہاں تک کمیونزم کے اعتقادی اور نظریاتی پہلوؤں کا تعلق ہے ان کے بارے میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا نظریہ اور عقیدہ بھی وہی ہے جو اس دور کے دوسرے اہل علم کا ہے کہ وہ اس سے متاثر یا مرعوب ہونے کی بجائے پوری قوت سے اس کا ابطال کر رہے ہیں اور اس کے مقابلہ میں اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
ہم اپنی معروضات کا اختتام مولانا سندھیؒ کے اس ارشاد پر کر رہے ہیں جس کے بعد اس سلسلہ میں کسی وضاحت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
’’جو امت قرآن کریم کا پروگرام نہیں اپنائے گی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ مسلمان قرآن کی عالمی تنظیمی دعوت کا پروگرام لے کر اٹھے اور پھر وہ اپنی اس تنظیمی دعوت میں کامیاب ہوگئے اور یہ صرف پچاس سال کی مدت یعنی واقعہ صفین کی تحکیم تک ہوا۔ اب جب کوئی امت اپنی تنظیمی دعوت لے کر اٹھے گی تو وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوگی جب تک وہ قرآن کے پروگرام کو نہ اپنائے۔ ہم نے یہ بات تحقیق سے دریافت کی ہے اور موجودہ دور میں عالمی تحریکات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمارا ایمان اس بات پر پختہ ہوگیا ہے۔ لوگ بالعموم یہ جانتے ہیں کہ روسی انقلاب فقط ایک اقتصادی انقلاب ہے، ادیان اور حیات اخروی سے بحث نہیں کرتا۔ اور ہم ان روسیوں کے پاس بیٹھے ہیں اور ان کے افکار و خیالات ہم نے معلوم کیے ہیں اور ہم نے بتدریج اور آہستہ آہستہ نرمی اور لطافت سے امام ولی اللہؒ کا پروگرام جو انہوں نے حجۃ اللہ البالغہ میں پیش کیا ان روسیوں کے سامنے رکھا تو انہوں نے اسے نہایت ہی مستحسن خیال کیا اور ہم سے پوچھنے لگے کہ کیا کوئی جماعت اس وقت ایسی ہے جو اس پروگرام پر عمل کرتی ہو؟ جب ہم نے نفی میں جواب دیا تو انہوں نے بہت افسوس کیا اور کہنے لگے اگر کوئی جماعت اس پروگرام پر عمل کرنے والی ہوتی تو ہم ان کے ساتھ شریک ہو جاتے اور ہم بھی ان میں داخل ہو کر ان کا مذہب اختیار کر لیتے اور یہ بات ہمارے لیے آسان بنا دیتی ہماری ان مشکلات کو جنہوں نے ہمارے پروگرام کو کسانوں میں نافذ ہونے سے روک رکھا ہے۔ یہ ان روسیوں کی بات کا بلا کم و کاست اور بلا تحریف کے خلاصہ ہے۔ اس کے بعد مجھے یقین ہوا کہ یہ لوگ ہمارے قرآنی پروگرام کو قبول کرنے کی طرف مجبور ہوں گے اگرچہ ایک زمانہ کے بعد ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم آج کے دور میں عالمی تحریکوں میں سے کسی تحریک کو ایسا نہیں پاتے کہ وہ قرآنی تعلیمات کے خلاف اور مناقض ہو، جس طرح انقلابی روس کی تحریک قرآنی پروگرام کے مناقض اور مخالف ہے اور باوجود اس کے کہ وہ بھی مجبور اور مضطر ہیں کہ قرآن اور اس کے پروگرام کی طرف رجوع کریں، باقی تحریکات کا کیا پوچھنا۔ اور اس چیز نے میرے ایمان میں زیادتی اور قوت پیدا کر دی ہے کہ ہدایت اور فلاح قرآن کے نزول کے بعد صرف قرآن کریم کے اتباع پر ہی موقوف ہے۔‘‘ (الہام الرحمٰن ص ۷۰ بحوالہ مولانا سندھیؒ کے علوم و افکار ص ۱۹)