دفاعی بجٹ میں کمی، قومی خودکشی کے مترادف

   
تاریخ اشاعت: 
مئی ۱۹۹۵ء

ان دنوں عالمی طاقتوں اور اداروں کی طرف سے پاکستان کو مسلسل یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات میں کمی کرے اور جدید ہتھیاروں کی تیاری سے گریز کرنے کے علاوہ فوج کی تعداد بھی گھٹائے۔ خود ہمارے بعض دانشور بھی اسی خیال کا اظہار کر رہے ہیں اور دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے لیے دفاعی اخراجات کو کم سے کم کرنا ضروری ہے۔ لیکن ایسا کرنے والے حضرات دو باتوں کو بھول جاتے ہیں یا جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔

  1. ایک یہ کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے اور اس ناتے سے اسے دنیا بھر کی اسلام دشمن قوتوں سے خطرہ ہے،
  2. دوسری یہ کہ پاکستان کا سابقہ بھارت سے ہے جس کی تنگ نظر ہندو اکثریت کے ساتھ مسلمانوں کی گزشتہ ایک ہزار برس سے مسلسل محاذ آرائی ہے۔ اور کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے تب بھی اس تاریخی پس منظر کے ہوتے ہوئے اس کشیدگی اور محاذ آرائی کا ختم ہونا ممکن نہیں ہے۔

ان تاریخی حقائق کے ہوتے ہوئے پاکستان کو دفاعی اخراجات میں کمی اور فوج کو گھٹانے کا مشورہ یقیناً پاکستان کی خیر خواہی نہیں ہے۔ پھر اسلامی نقطۂ نظر سے اس مسئلہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ مشورہ اسلامی تعلیمات کے بھی یکسر منافی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ

’’دشمن کے مقابلہ میں جتنی قوت تمہارے بس میں ہو مہیا کرو تاکہ دشمن پر تمہارا رعب قائم رہے۔‘‘ (سورۃ الانفال)

گویا حکمِ خداوندی کا منشا یہ ہے کہ مسلمانوں کی دفاعی قوت اتنی ضرور ہونی چاہیے کہ دشمن کے مقابلہ میں طاقت کا توازن ان کے حق میں ہو کیونکہ اس کے بغیر دشمن پر رعب قائم ہونا اور دشمن کا مسلمانوں کی قوت سے مرعوب ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے امت اس امر پر متفق ہیں کہ جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری اور مکمل دفاعی ٹیکنالوجی کا حصول مسلمانوں کے دینی فرائض میں سے ہے اور اس معاملہ میں کوتاہی کر کے مسلمان حکومتیں اپنی شرعی ذمہ داری سے کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔

اس کے علاوہ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر بھی اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو اس معاملہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے جہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ

’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)

اس آیت کریمہ کی تشریح میں امام ترمذیؒ نے صحیح سند کے ساتھ ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے ملک کی عمومی اقتصادی صورتحال اور دفاعی اخراجات کے درمیان توازن و تناسب کے سلسلہ میں اسلام کے مزاج اور ہدایات کا پتہ چلتا ہے۔ قصہ یوں ہے کہ معروف صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے موقع پر مسجد نبویؐ اور اس کے ملحقہ حجروں کی تعمیر تک رسول اکرمؐ کے میزبان رہے، اور حضرت امیر معاویہؓ کے دور خلافت میں اس وقت کی ایک بڑی قوت سلطنت روما کے خلاف جہاد میں حصہ لینے کے شوق میں بڑھاپے اور ضعف کے باوجود اصرار کر کے لشکر میں شامل ہوئے، ان کی قبر رومی سلطنت کے دارالحکومت قسطنطنیہ (استنبول) میں ہے۔ وہ رومیوں کے خلاف جنگ کے دوران ایک محاذ پر تھے جہاں مسلمانوں اور رومیوں کا آمنا سامنا ہوا اور ایک پرجوش مسلمان مجاہد مسلمانوں کی صف سے نکل کر اکیلا ہی دشمن کی صفوں میں گھس گیا جس پر کسی صاحب نے قرآن کریم کی یہ آیت بلند آواز سے پڑھی ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس نوجوان نے اکیلے دشمن کی صفوں میں گھس کر غلطی کی ہے جو اس آیت کریمہ کی منشا کے خلاف ہے۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی اس موقع پر موجود تھے انہوں نے لوگوں کی زبان سے اس آیت کریمہ کا حوالہ سن کر ان کو ٹوکا اور فرمایا کہ تم نے آیت کا مطلب صحیح نہیں سمجھا کیونکہ اس آیت کا مفہوم یہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ آیت ہم انصار مدینہؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس میں ہمیں ایک غلط سوچ پر تنبیہ کی گئی ہے۔ پھر حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے اس کا پس منظر یوں بیان فرمایا کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہم انصار مدینہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپؐ کی نصرت و رفاقت میں مصروف ہوگئے۔ ہجرت کے دوسرے سال ہی غزوات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور مسلسل چند برس ایسے گزرے کہ ہم اپنے کاروبار، کھیتی باڑی اور معاشی حالات کی طرف توجہ نہ دے سکے جس سے ہماری معاشی صورتحال ناگفتہ بہ ہوگئی۔ لیکن چند برسوں کے بعد جب مسلمان مضبوط ہوگئے اور کفار کی پے در پے شکستوں کے باعث کچھ استحکام کی صورتحال نظر آنے لگی تو بعض انصارؓ نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب حالات خاصے بدل گئے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری اس طرح کی مدد کی ضرورت نہیں رہی اس لیے ہمیں جہاد کے معاملات سے تھوڑا سا صرف نظر کر کے اپنے معاشی حالات بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور کھیتی باڑی اور کاروبار کے معاملات کی طرف دوبارہ متوجہ ہونا چاہیے۔ اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی کہ

’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘

اس لیے اس آیت میں ہم انصار مدینہ کو اس سوچ پر تنبیہ کی گئی ہے اور اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھے ہو۔ آیت کریمہ کے مطابق ہلاکت کا راستہ یہ ہے کہ جہاد پر خرچ کرنے سے ہاتھ روک لیا جائے جس کا نتیجہ لازماً یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی فوجی طاقت کمزور ہوگی اور طاقت کا توازن دشمن کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی اس وضاحت کے ساتھ یہ بات پوری طرح روشن ہو جاتی ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں معاشی خوشحالی اور اقتصادی ترقی کے ساتھ فوجی اور دفاعی قوت کا توازن و تناسب اس طور پر قائم رکھنا ضروری ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں فوجی قوت کا توازن بگڑنے نہ پائے۔ اس کے بغیر مسلمانوں کی فوجی قوت میں کمی کرنا قرآن کریم کی زبان میں ’’قومی خودکشی‘‘ کہلائے گا۔

اس پس منظر میں جب ہم آج پاکستان کو درپیش صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں اور بھارت کی فوجی طاقت میں مسلسل اضافہ پر نظر ڈالتے ہیں تو یقیناً پاکستان کی فوجی قوت میں کمی کے مشورے وطن عزیز کے مفاد کے منافی دکھائی دیتے ہیں۔ بلکہ قرآن کریم کے مذکورہ بالا دونوں احکام یعنی وقت کی جدید ترین فوجی قوت کے حصول کا حکم اور فوجی اخراجات میں کمی کو ہلاکت کا راستہ قرار دینا ہماری فوجی اور دفاعی پالیسی کو واضح طور پر یہ رخ دیتے ہیں کہ ہم دفاع کے لیے ایٹمی قوت کے حصول کی کوشش کریں اور انصار مدینہؓ کی طرح ہر قسم کی تنگی ترشی اور معاشی نقصانات برداشت کرتے ہوئے پاکستان کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ایک مستحکم اور ناقابل شکست فوجی قوت بنانے کی طرف توجہ دیں۔

مجاہدین کی عالمی تنظیم ’’حرکۃ الانصار‘‘

افغانستان میں مسلح روسی جارحیت کے بعد اس خطہ کے غیور علماء اور مسلمانوں نے جہاد کا آغاز کیا تو اس میں دنیا بھر کے غیرت مند مسلمانوں کے ساتھ پاکستان کے علماء اور دینی کارکنوں نے بھی پورے جوش و جذبہ کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ پاکستان کے دینی مدارس میں جہاد افغانستان کے لیے علماء اور طلبہ کو منظم کرنے کے کام کا آغاز فیصل آباد کے مجاہد عالم دین مولانا ارشاد احمد شہیدؒ نے کیا اور ’’حرکۃ الجہاد الاسلامی‘‘ کے نام سے مجاہدین کی جماعت تیار کی جس نے مختلف محاذوں پر افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ جہاد میں عملی حصہ لیا۔ مولانا ارشاد احمد شہیدؒ کی شہادت کے بعد یہ جماعت دو حصوں میں بٹ گئی۔ مولانا سیف اللہ اختر کی قیادت میں ’’حرکۃ الجہاد الاسلامی‘‘ کے پلیٹ فارم پر کام ہوتا رہا اور مولانا فضل الرحمان خلیل کی سربراہی میں ’’حرکۃ المجاہدین‘‘ منظم ہوگئی۔ دونوں جماعتوں نے افغانستان کے مختلف محاذوں کے علاوہ تاجکستان، کشمیر اور دیگر علاقوں میں جہاد میں پرجوش حصہ لیا۔ ان کے ذریعے ہزاروں علماء اور طلبہ نے جہاد کی تربیت حاصل کی، سینکڑوں نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا اور ملک کے دینی مدارس میں جہاد کی فضا قائم ہوگئی۔

دو سال قبل اکابر علماء کرام کی محنت سے دونوں جماعتوں میں اتحاد کی راہ ہموار ہوئی اور دونوں تنظیموں کے راہنماؤں نے حرکۃ الجہاد الاسلامی اور حرکۃ المجاہدین کی بجائے ’’حرکۃ الانصار‘‘ کے نام سے ایک نئے مشترکہ پلیٹ فارم پر کام شروع کر دیا جو اس وقت مقبوضہ کشمیر اور دیگر خطوں میں اپنی جرأت مندانہ جہادی سرگرمیوں کے باعث عالمی سطح پر متعارف ہے اور دینی بیداری کی مسلح تحریکات میں ایک باوقار اور منظم جماعت کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل چند غیر مطمئن دوست حرکۃ الجہاد الاسلامی کے دوبارہ احیاء کی طرف متوجہ ہوئے اور مولانا سیف اللہ اختر کی سربراہی میں اس سمت عملی پیش رفت کا آغاز ہوگیا تو اکابر علماء نے صورتحال کا بروقت نوٹس لیا اور مجاہدین کے اس وسیع حلقہ کو ایک نئے خلفشار سے بچا لیا۔ اس سلسلہ میں دو عظیم افغان کمانڈروں حضرت مولانا محمد ارسلان رحمانی اور حضرت مولانا جلال الدین حقانی کے ساتھ انٹرنیشنل اسلامک مشن کے سربراہ مولانا عبد الحفیظ مکی کی توجہات اور مساعی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان بزرگوں نے شبانہ روز کی محنت کے ساتھ حرکۃ الانصار اور نو تشکیل شدہ حرکۃ الجہاد الاسلامی کے راہنماؤں میں پیدا ہوجانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوئے ان سب کو حرکۃ الانصار کے پلیٹ فارم پر دوبارہ مجتمع کر دیا جس کے نتیجہ میں نہ صرف حرکۃ الانصار کی متفقہ قیادت کا چناؤ عمل میں آگیا ہے بلکہ نیا دستور اور مجلس شوریٰ بھی طے پا گئی ہے۔

ہم اس مثبت اور مبارک پیشرفت پر مولانا ارسلان رحمانی، مولانا جلال الدین حقانی، مولانا عبد الحفیظ مکی اور حرکۃ الانصار کے تمام راہنماؤں اور کارکنوں بالخصوص مولانا قاری سیف اللہ اختر اور مولانا فضل الرحمان خلیل کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کی بھرپور کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، اللہم ربنا آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter