حجاب پر پابندی — ثقافتی جنگ کا ایک مورچہ

   
تاریخ : 
جون ۲۰۱۹ء

روزنامہ اسلام لاہور میں ۲۰ مئی ۲۰۱۹ء کو شائع ہونے والی دو خبریں ملاحظہ فرمائیں:

’’فرانس مسلمان خواتین کے پردے پر پابندی سے متعلق اقدامات میں مزید ایک قدم آگے بڑھ گیا، فرانس کی سینٹ نے بچوں کو سکول لانے والی ماں کے اسکارف پہننے پر بھی پابندی کا قانون منظور کر لیا، فرانس کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں مسترد ہونے والے بل کو سینٹ نے ۱۸۶ ووٹوں سے پاس کیا جب کہ بِل کی مخالفت میں ۱۰۰ ووٹ پڑے، ۱۵۹ اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لیے آنے والی خواتین کے اسکارف پر پابندی سے متعلق بل دائیں بازو کی اسلام مخالف ری پبلکنز پارٹی نے پیش کیا، پارٹی کے سینیٹر جیکلین اسٹیج برنییو کا کہنا ہے کہ موجودہ ترمیم سے پہلے موجود نقاب پر پابندی کے قانون میں سقم کو دور کرنے اور سیکولرزم کے بنیادی اصولوں اور تحفظات کو دور کرنے میں یہ بِل مددگار ثابت ہو گا۔‘‘

’’آسٹریلیا میں پارلیمنٹ کی اکثریت کی عدم موافقت کے باوجود پرائمری سکولوں میں حجاب پر پابندی کا فیصلہ جاری کر دیا گیا تاہم خاتون رکن پارلیمنٹ مارتھا ھیمیسین نے اپنے حالیہ خطاب میں اس نئے قانون کو مسترد کر دیا، پارلیمنٹ میں حجاب کے ساتھ خطاب کے دوران مارتھا ھیمیسین نے تمام ارکان سے سوال کیا کہ کیا اس طرح حجاب پہن لینے سے کچھ بدل گیا ہے؟ کیا میں اب آسٹریلیا میں پیدا ہونے والی رکن پارلیمنٹ مارتھا ھیمیسین نہیں رہی؟ مارتھا نے اپنے خطاب کا آغاز مسلمانوں کو ماہ رمضان المبارک کی مبارک باد دیتے ہوئے کیا، انہوں نے باور کر لیا کہ یہ نفرت انگیز مہم کا نتیجہ ہے کہ مسلمان خواتین کو صرف حجاب پہننے کی وجہ سے سڑکوں پر تنگ کیا جاتا ہے اور نشانہ بنایا جاتا ہے، مارتھا کے مطابق حجاب مسلمان خواتین کی زندگی کا حصہ ہے جو ان کی ثقافت اور تشخص کو ظاہر کرتا ہے مگر اب اس کو مسلمان مخالف پالیسی کی علامت بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ ‘‘

حجاب اور نقاب کو ایک عرصہ سے مغربی دنیا میں مسلمانوں کی ثقافت کی علامت قرار دے کر نفرت اور تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سیکولرزم کے دعویدار کسی مسلمان خاتون کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے سر یا منہ پر نقاب ڈالے، اور فرانس نے تو قومی سطح پر حجاب کی مخالفت کو اپنا شعار بنا لیا ہے حالانکہ اس کا ذکر مسیحی روایات میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ مسیحی اشاعت خانہ فیروز بورڈ لاہور کی شائع کردہ لغات بائیبل ’’قاموس الکتاب‘‘ کے مصنف ’’برقع’‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ:

’’یعقوب کی راخل کی بجائے لیاہ سے شادی اسی لیے ممکن ہوئی کہ شادی کے دوران وہ برقع اوڑھے ہوئے تھی۔‘‘ (پیدائش ۲۹: ۲۳۔ ۔ ۲۵)

جبکہ بائبل کی کتاب ’’غزل الغزلات‘‘ کے باب چہارم میں خاوند اور بیوی کے باہمی مکالمہ میں خاوند کی طرف سے کہی گئی غزل کا ایک مصرعہ یوں درج ہے کہ:

’’تیری آنکھیں تیرے نقاب کے نیچے دو کبوتر ہیں۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ حجاب، نقاب اور برقع اسلام کی ایجاد نہیں ہے بلکہ پہلے سے آسمانی تعلیمات میں اس کا تذکرہ موجود ہے مگر مغرب کی سیکولر دنیا دوسرے بہت سے معاملات کی طرح پردہ اور حجاب کو بھی صرف مسلمانوں کا شعار قرار دے کر اس کی مخالفت پر تلی ہوئی ہے اور وہ اس حوالہ سے بائبل اور مسیحیت کا نام لینے کی اخلاقی جرأت سے محروم ہے۔

پھر اس صورتحال کو لطیفہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں کے لوکل سیکولر سیکولرازم کو مذہبی پابندیوں کی بجائے آزادی کا عنوان بتاتے ہیں مگر فرانس کے ارکان پارلیمنٹ مسلمان عورت کو اس کا یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ اپنے عقیدہ و مذہب اور ثقافت کے مطابق نقاب یا کم از کم اسکارف ہی استعمال کر سکے، بلکہ ایک مذہبی اور ثقافتی حق کو سکولرازم کے بنیادی اصولوں سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے عالمی چارٹر کی دفعہ ۲۷ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر شخص کو قوم کی ثقافتی زندگی میں آزادانہ حصہ لینے کا حق ہے، مگر ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ کسی قوم کے ہر فرد کو قوم کی ثقافتی زندگی میں آزادانہ حصہ لینے کا حق تو دیا جا رہا ہے مگر کسی قوم کا ’’ثقافتی تشخص و امتیاز‘‘ تسلیم کرنے کے لیے مغربی دنیا تیار نہیں ہے۔ اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے خاص طور پر تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے عقیدہ، مذہب اور ثقافت سے متعلق ہر چیز سے دستبردار ہو کر مغرب کی مسلط کردہ ثقافت کو بہرحال قبول کریں۔ گویا سیکولرازم کا معنی یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین و ثقافت سے دستبردار ہونے کا حق تو ہے مگر اس پر عمل کرنے اور اپنی سوسائٹی میں اپنے دین و ثقافت کا ماحول قائم رکھنے کا حق انہیں حاصل نہیں ہے۔ اور اس سے بڑی ستم ظریفی ہمارے لوکل دانشوروں کا یہ کہنا اور اس پر اصرار کرتے چلے جانا ہے کہ یہ کشمکش مذہبی اور ثقافتی نہیں ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ ’’انقلاب فرانس‘‘ کی کوکھ سے جنم لینے والی مغربی ثقافت مسلم دنیا میں تسلط جمانے کے ایجنڈے میں ناکام ہو کر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے اور نفرت و عناد میں ’’قد بدت البغضاء من أفواھہم وما تخفی صدورھم اکبر‘‘ (ان کے مونہوں سے دشمنی نکل پڑتی ہے اور جو ان کے سینے میں چپھی ہوئی ہے وہ بہت زیادہ ہے) کا مصداق بن کر رہ گئی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے اس صورتحال کا صحیح طور پر ادراک کریں اور اسلامی عقیدہ و ثقافت کے حوالہ سے مرعوبیت اور دفاع کے ماحول سے نکلتے ہوئے مغربی ثقافت اور فکر و فلسفہ کے تضادات اور بے اصولیوں کو واضح کرنے کا اہتمام کریں۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو دفاع اور مرعوبیت کے دائرے سے نکال کر علم و دانش کے ہتھیاروں کے ساتھ مغربی فلسفہ و ثقافت کے مقابلہ کے لیے تیار کرنا ہے، یہ دینی اور عصری دونوں قسم کے تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے اور اگر ہم خدانخواستہ ایسا نہ کر سکے تو بارگاہِ ایزدی کے مجرم بننے کے ساتھ ساتھ تاریخ کی عدالت میں بھی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور مستقبل اس جرم کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter