مذہبی طبقات، دہشت گردی اور طالبان ۔ ڈاکٹر یوگندر سکند کا سوالنامہ

   
تاریخ : 
نومبر ۲۰۰۹ء

چند ماہ قبل مذہبی طبقات، دہشت گردی اور طالبان کے بارے میں معروضی صورتحال کے حوالے سے بھارت کے معروف دانشور جناب یوگندر سکند کی طرف سے ایک سوالنامہ موصول ہوا جس کے جواب میں الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کی طرف سے تحریر کیے جانے والے جوابات ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے نومبر/دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں ادارتی معروضات کے طور پر شائع کیے گئے۔ (مدیر ماہنامہ الشریعہ ۔ ۹ فروری ۲۰۱۰ء)

سوال نمبر ۱: پاکستان میں موجودہ کشمکش کے بارے میں اور خاص طور پر طالبان کی قسم کے گروہوں کے سامنے آنے سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس کے اسباب کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ اس میں پاکستانی ریاست، ایجنسیوں اور امریکہ کا کیا کردار ہے؟

جواب: پاکستان کی موجودہ کشمکش کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اس فکری اور نظریاتی پس منظر کو سامنے رکھا جائے جس میں یہ کشمکش اس مقام تک پہنچی ہے۔ یہ فکری اور نظریاتی کشمکش قیامِ پاکستان کے بعد فورًا ہی شروع ہو گئی تھی کہ پاکستان کے معاشرتی ڈھانچے اور دستوری و قانونی نظام کی بنیاد کیا ہو گی؟

وہ عناصر جنہوں نے برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے داخلے کے وقت سے ہی اس خطے پر برطانوی راج کی مزاحمت کا آغاز کر دیا تھا اور مختلف اوقات، مراحل اور علاقوں میں سراج الدولہؒؒ سے لے کر شیخ الہند مولانا محمود حسنؐ کی تحریکِ ریشمی رومال تک مسلح مزاحمت، اور اس کے بعد سے ۱۹۴۷ء تک عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کے ذریعے برطانوی تسلط سے وطن عزیز کی آزادی کے لیے متحرک کردار ادا کیا تھا، ان کا مقصد اور ایجنڈا یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے اور اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس نئی ریاست میں معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل اسلامی شریعت اور احکام و قوانین کی بنیاد پر ہو، اور پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ملک کے طور پر دنیا میں اپنا کردار ادا کرے۔ سراج الدولہؒ، ٹیپو سلطانؒ، شاہ عبد العزیزؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، حاجی شریعت اللہؒ، سردار احمد خان کھرلؒ، تیتو میرؒ، فقیر ایپیؒ، حاجی صاحب ترنگزئیؒ، اور ۱۸۵۷ء کے ہزاروں مجاہدین سمیت ان گروہوں میں سے جس گروہ کو جہاں موقع ملا، اس نے اپنے زیر تسلط علاقے میں اسلامی شریعت کا اجرا و نفاذ کر کے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے مقصد کو واضح کیا۔ حتٰی کہ برصغیر کے بڑے علاقے میں مسلح جدوجہد ترک کر کے جب پُراَمن اور عدمِ تشدد پر مبنی تحریک آزادی کو آگے بڑھایا گیا تو بھی مقصدِ آزادی یہی قرار پایا کہ برطانوی تسلط سے نجات پانے کے بعد مسلم معاشرہ میں اسلامی شریعت کے اجرا و نفاذ کا اہتمام کیا جائے گا۔ چنانچہ مسلم لیگ کا دو قومی نظریہ، مولانا محمد علی جوہرؒ کی تحریکِ خلافت اور مجلسِ احرارِ اسلام کی حکومتِ الٰہیہ اسی جذبہ اور نظریہ کی ترجمان اور عکاس تھی۔

دوسری طرف وہ عناصر اور طبقات جنہوں نے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے سو سالہ، اور باقاعدہ برطانوی راج کے نوے سالہ دور میں، ایک نو آبادیاتی نظام کے کل پرزوں کا کردار ادا کیا تھا، اور اپنے فکر و مزاج کو اسی کے مطابق ڈال کر اپنا مستقبل اس کے ساتھ وابستہ کر لیا تھا، پاکستان کے معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے میں کوئی نظریاتی اور تہذیبی انقلاب ان کے مزاج اور مفادات کے خلاف تھا۔ اس لیے انہوں نے نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنے اور اپنا تمام وزن اس کے پلڑے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا اور اب تک وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ ان عناصر و طبقات کو تین معاملات میں برتری حاصل رہی ہے:

  • برطانوی دور میں سیاسی، انتظامی اور معاشی نظم و نسق ان کے ہاتھ میں تھا جو آزادی اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی انہی کے ہاتھ میں رہا۔
  • بین الاقوامی رجحانات بالخصوص نئی عالمی استعماری قوتوں کی پشت پناہی بھی انہیں حاصل چلی آ رہی ہے، اس لیے کہ جن قوتوں نے خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرا کے اس کے مرکز ترکی کو سیکولر جمہوریہ بنانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی، انہیں اسلام کے نام پر ایک نئے ملک کا قیام اور ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کسی طرح گوارا نہیں تھی۔ جبکہ سرمایہ دارانہ بلاک اور سوشلسٹ بلاک کے درمیان جاری عالمی سرد جنگ میں سرمایہ دارانہ بلاک کی ضرورت یہ تھی کہ سوویت یونین کے خلاف مسلمانوں کے مذہبی رجحانات بالخصوص ان کے جذبۂ جہاد سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس لیے مغربی بلاک نے یہ حکمتِ عملی طے کی مسلمانوں کے جذبۂ جہاد سے تو سوویت یونین کے خلاف فائدہ اٹھایا جائے لیکن ان کے نفاذِ شریعت کے پروگرام کو کسی جگہ بھی کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ سرمایہ دارانہ بلاک کی یہ حکمتِ عملی پاکستان کے ان داخلی عناصر و طبقات کی پشت پناہ بن گئی جو اس ملک میں نوآبادیاتی نظام کے تسلسل کو باقی رکھنے میں اپنی عافیت محسوس کر رہے ہیں۔
  • ملک کے تعلیمی نظام پر بھی انہی کا کنٹرول تھا، اس لیے اس بات کا بطور خاص اہتمام کیا گیا کہ ریاستی تعلیمی اداروں میں ایسے رجالِ کار اور افراد تیار نہ ہونے پائیں جو نوآبادیاتی نظام میں کسی قسم کی تبدیلی اور اسلامی شریعت کے احکام و قوانین کے نفاذ و اجرا کا ذریعہ بن سکیں۔

اس تناظر میں وہ عناصر و طبقات جو برطانوی تسلط سے آزادی کا اصل مقصد نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ اور اسلامی احکام و قوانین کے اجرا و نفاذ کو قرار دیے ہوئے تھے، انہوں نے پُراَمن سیاسی، جمہوری اور دستوری جدوجہد کے ذریعے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اور پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد کی منظوری سے لے کر، ۱۹۷۳ء کے دستور میں ملک کو اسلامی ریاست قرار دلوانے، اور ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی ضمانت حاصل کرنے تک، تمام مراحل پُراَمن سیاسی اور دستوری جدوجہد کے ذریعے طے کیے۔ انہیں دو سو سالہ تحریکِ آزادی کے شاندار پسِ منظر کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کی اسلام کے ساتھ جذباتی وابستگی اور نفاذِ اسلام کے لیے دینی قوتوں کے متحرک کردار کی پشت پناہی حاصل تھی اور ملک کی رائے عامہ ان کے ساتھ تھی، اس لیے وہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود مسلسل پیشرفت کرتے رہے۔

اس دوران ایک اور اہم واقعے نے نفاذِ شریعت کے حوالے سے حکمران طبقات سے عوام کی مایوسی میں اضافہ کیا۔ وہ یہ کہ بہاولپور، سوات، قلات، خیرپور اور دیگر ایسی ریاستوں میں جہاں برطانوی استعمار کے تسلط کے دوران عدالتی سطح پر شرعی قوانین کی عملداری موجود تھی، پاکستان کے ساتھ ان کے الحاق کے ساتھ ہی ان میں شرعی قوانین کا نظام ختم کر دیا گیا۔ جس نے عوام اور دینی حلقوں میں اس سوچ کو پختہ کر دیا کہ آزادی کے مقصد کے حصول، نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ، اور اسلامی شریعت کی عملداری کے لیے جو کچھ کرنا ہے خود انہی کو کرنا ہے، اور ملک کی رولنگ کلاس سے اس کے لیے کسی حمایت یا سہولت کی توقع عبث ہے۔

اس پسِ منظر میں جب افغانستان میں سوویت یونین کی باقاعدہ افواج کی آمد کے بعد وہاں جہاد کے عنوان سے قومی خود مختاری اور آزادی کی جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے دینی حلقوں اور عوام کا اس طرف متوجہ ہونا ایک فطری امر تھا۔ جہادِ افغانستان میں افغان عوام کا ایجنڈا یہ تھا کہ وہ سوویت یونین کے تسلط سے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے، جبکہ پاکستان کے دین کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھنے والوں کا ایجنڈا یہ تھا کہ وہ اپنے افغان بھائیوں کی مدد کے ساتھ ساتھ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی کے بعد جب افغانستان میں اسلامی شریعت کی عملداری قائم ہو گی تو اس سے پاکستان میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد کرنے والوں کو بھی تقویت ملے گی اور ان کے لیے اپنے مقصد اور منزل کی طرف پیشرفت آسان ہو جائے گی۔ سوویت یونین کی شکست اور عالمی سرد جنگ میں سرمایہ دارانہ بلاک کی کامیابی کی حد تک یہ ایجنڈا عالم اسلام کے بیشتر ممالک اور مغربی استعماری قوتوں کے مفاد میں تھا، اس لیے انہوں نے افغان جہاد کو مکمل طور پر سپورٹ کیا، لیکن یہ طے کر کے کیا کہ سوویت یونین کے خلاف مسلمانوں کے جذبۂ جہاد سے تو پوری طرح فائدہ اٹھایا جائے مگر اس کے نتیجے میں شریعت کے نفاذ کے ایجنڈے کو افغانستان میں پوری قوت کے ساتھ روک دیا جائے۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا، جونہی جہادِ افغانستان نے روسی فوجوں کی افغانستان سے واپسی اور عالمی سطح پر سوویت بلاک کے بکھر جانے کا ہدف حاصل کر لیا، مجاہدین کے بارے میں سرمایہ دارانہ بلاک کا طرزِ عمل تبدیل ہو گیا۔ افغانستان میں مجاہدین کی مستحکم حکومت بنوانے کی بجائے ان کے مختلف گروپوں کو باہمی خانہ جنگی کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا بلکہ اس خانہ جنگی کی حوصلہ افزائی کر کے مجاہدین کو بتدریج کمزور کرتے چلے جانے کی حکمتِ عملی طے کر لی گئی۔ جس کے نتیجے میں تاریخِ انسانی کا یہ اندوہناک المیہ سامنے آیا کہ جن ممالک اور قوتوں نے جہادِ افغانستان کے ثمرات دونوں ہاتھوں سے سمیٹے، انہوں نے جنگ لڑنے اور قربانیاں دینے والے مجاہدین کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ جہاد افغانستان کے نتیجے میں:

  • عالمی سطح پر سوویت یونین کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ بلاک کو فتح حاصل ہوئی،
  • مشرقی یورپ کی ریاستیں آزاد ہوئیں،
  • بالٹیک ریاستوں نے کسی جدوجہد کے بغیر آزادی کی منزل حاصل کر لی،
  • وسطی ایشیا کی ریاستوں نے خودمختاری حاصل کی،
  • دیوار برلن ٹوٹی اور جرمنی ایک بار پھر متحد ہو گیا،
  • پاکستان نے بلوچستان کے ساحلوں تک سوویت یونین کی رسائی کے خوف سے نجات پائی،

مگر ان سب نے جہادِ افغانستان کے ثمرات سے اپنی اپنی جھولیاں بھرنے کے بعد مجاہدین کو تنہا چھوڑ دیا۔ جہادِ افغانستان سے بیرونی قوتوں نے اپنے اپنے مقاصد حاصل کر لیے لیکن جنگ لڑنے اور اس میں لاکھوں جانوں کی قربانی دینے والوں کا اپنا مقصد، کہ افغانستان ایک اسلامی ریاست بنے اور اس میں شریعت اسلامی کا نفاذ ہو، ادھورا رہ گیا۔ مجاہدین کے مختلف گروپوں کو اکٹھا بٹھانا، ان کا کوئی مشترکہ ایجنڈا طے کرنا اور ان کے مستقبل کی حدود اور دائرۂ کار کا تعین کرنا جہادِ افغانستان میں ان کو سپورٹ کرنے والوں اور ان کو قربانیوں سے فائدہ اٹھانے والوں کی ذمہ داری تھی۔ لیکن جب سب نے اپنا اپنا حصہ وصول کر کے گھروں کی راہ لی اور مجاہدین کو بے یارومددگار چھوڑ دیا تو ظاہر ہے کہ اب مجاہدین کے مختلف گروپوں نے اپنا اپنا ایجنڈا خود ہی طے کرنا تھا جو انہوں نے کیا اور اسی کے تلخ نتائج نہ صرف جنوبی ایشیا کے پورے خطے کو بلکہ مجاہدین سے لاتعلقی اختیار کرنے والوں کو بھی بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

طالبان کے مختلف گروہوں نے اسی صورتحال کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور اس پس منظر سے آنکھیں بند کرتے ہوئے ان کے کردار اور نفسیات کو سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ جہادِ افغانستان میں حصہ لینے والے مجاہدین کو تین حصوں میں تقسیم کر کے ان کے کردار کا الگ الگ تجزیہ کرنا بھی موجودہ صورتحال کے صحیح ادراک کے لیے ضروری ہے۔

  1. جنگ میں حصہ لینے والے مجاہدین کا ایک بڑا حصہ افغانستان کے ان باشندوں پر مشتمل ہے جنہوں نے سوویت یونین کے فوجی تسلط سے آزادی اور اپنے ملک کے اسلامی نظریاتی تشخص کی بحالی کے لیے جنگ لڑی۔ انہوں نے جب دیکھا کہ جہادِ افغانستان کے نتیجے میں سوویت فوجوں کی واپسی اور مجاہدین کی حکومت قائم ہو جانے کے باوجود جہاد کے اصل مقصد یعنی نفاذِ شریعت کی طرف کوئی مؤثر پیشرفت نہیں ہو رہی بلکہ بدامنی، افراتفری، لاقانونیت اور خانہ جنگی بڑھتی جا رہی ہے، تو وہ اس کے ردعمل میں طالبان کی صورت میں سامنے آئے اور ملک کے ایک بڑے حصے میں پانچ سال تک حکومت قائم کر کے جہادِ افغانستان کے منطقی ہدف کو دنیا کے سامنے واضح کر دیا۔ اور اب وہ امریکی اتحاد کی فوجوں کے خلاف اسی طرح جنگ لڑ رہے ہیں جیسے انہوں نے سوویت یونین کی فوجوں کے خلاف لڑی تھی اور وہ اسے بھی آزادی اور خودمختاری کی جنگ سمجھتے ہیں۔
  2. جہادِ افغانستان میں شامل مجاہدین کا دوسرا بڑا حصہ ان ہزاروں پاکستانی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد وطن واپس آئے۔ ان کے مستقبل کے بارے میں ان کی راہنمائی اور ان کے جذبات و تجربات کو صحیح رخ پر لگانے کے لیے منصوبہ بندی پاکستان کے قومی حلقوں کی ذمہ داری تھی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ شاید کچھ ذمہ دار حلقوں نے انہیں اس لیے کھلا چھوڑ دیا ہو کہ ان سے کشمیر میں اسی طرح فائدہ اٹھایا جا سکے گا جس طرح افغانستان میں ان سے فائدہ اٹھایا گیا تھا، مگر غالباً عالمی قوتوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ جس کے نتیجے میں مجاہدین کے ان گروپوں نے بھی اپنا اپنا ایجنڈا خود طے کیا اور اپنے اپنے ذہنی رجحانات کے مطابق میدان کار منتخب کر لیا۔ بہت سے افراد کی صلاحیتیں فرقہ وارانہ کشمکش کو بڑھانے میں استعمال ہوئیں جبکہ بہت سے گروہوں نے پاکستان کو افغانستان پر قیاس کرتے ہوئے نفاذِ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کر لیا اور ملک کی رولنگ کلاس کا طرزِعمل اس مسلح جدوجہد کے لیے بتدریج راستہ ہموار کرتا چلا گیا۔

    مثلاً سوات میں نفاذِ شریعت کے لیے جب جدوجہد شروع ہوئی تو طالبان کا کہیں بھی کوئی وجود نہیں تھا اور اس تحریک کا پسِ منظر صرف اتنا تھا کہ سوات کے عوام مطالبہ کر رہے تھے کہ انہیں ان کے ریاستی دور کا وہ عدالتی نظام واپس کر دیا جائے جو نہ صرف برطانوی دور میں بلکہ ۱۹۶۹ء تک پاکستان کے دور میں بھی رائج رہا ہے۔ ان کے خیال میں شرعی قوانین پر مبنی وہ عدالتی نظام انہیں سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے عقیدہ و مذہب سے بھی مطابقت رکھتا ہے، اس لیے وہی ان کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ ان کا یہ موقف قبول کر لیا گیا اور ایک آرڈیننس کے ذریعے انہیں یہ نظام مہیا کرنے کا اعلان کر دیا گیا، لیکن وہ آرڈیننس محض الفاظ کا ہیر پھیر تھا جس کی حقیقت واضح ہونے کے بعد عوام کے جذبات میں شدت پیدا ہوئی اور رفتہ رفتہ موجودہ حالات تک بات جا پہنچی۔ اس قسم کے ماحول میں جہادِ افغانستان میں حصہ لینے والے پاکستانی مجاہدین کے بعض گروہوں نے نفاذِ اسلام کے لیے شدت پسندی کا راستہ اختیار کیا جس کی ملک کے سنجیدہ دینی حلقوں نے کبھی حمایت نہیں کی اور خود ہم بھی اس طریق کار کو کھلے بندوں غلط قرار دینے والوں میں شامل ہیں، لیکن اس کے پسِ منظر اور اسباب و عوامل کو نظر انداز کر دینا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔

  3. جہادِ افغانستان میں شامل مجاہدین کا تیسرا حصہ دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے ان ہزاروں افراد پر مشتمل تھا جنہوں نے سوویت افواج کے خلاف جنگ میں عملاً حصہ لیا، مگر اس جنگ کے خاتمہ کے بعد اپنے اپنے ملک میں واپس جانے میں ان کے تحفظات تھے اور انہیں خدشہ تھا کہ وطن واپسی کی صورت میں ان کی جان اور آزادی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان ہی پناہ گاہ ہو سکتا تھا چنانچہ انہوں نے یہاں رہ جانے کو ترجیح دی اور پاکستان میں آباد ہونے کے لیے مختلف صورتیں اختیار کیں۔ ان کا بڑا حصہ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں آباد ہوا۔ ان کے بارے میں ایک مجموعی پالیسی طے کرنا اور انہیں منظم طریقے سے پاکستانی معاشرے میں ایڈجسٹ کرنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری تھی جس کی طرف پوری توجہ نہیں دی گئی اور انہیں بھی اپنے اپنے جذبات اور صلاحیتوں کے اظہار کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا۔ مجاہدین کے اسی حصے میں سے القاعدہ وجود میں آئی جس نے مشرقِ وسطٰی میں امریکی فوجوں کی موجودگی کو بھی اسی نظر سے دیکھا جس نظر سے وہ افغانستان میں سوویت یونین کی موجودگی کو دیکھتے تھے۔ اور ان کے لیے اس صورتحال کو قبول کرنا مشکل تھا کہ اگر افغانستان میں سوویت یونین کی مسلح افواج کی موجودگی افغانستان کی قومی خودمختاری اور آزادی کے منافی تھی تو مشرق وسطی میں امریکی افواج کی موجودگی ان ممالک کی قومی خودمختاری کے لیے خطرہ کیوں نہیں ہے؟ اور اگر افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی کی جنگ، آزادی کی جنگ اور جہاد تھی تو مشرقِ وسطٰی سے امریکی اتحاد کی فوجوں کی واپسی کی جنگ، آزادی کی جنگ اور جہاد کیوں نہیں ہے؟

ہمارے نزدیک افغانستان میں طالبان کا منظر عام پر آنا، پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے مسلح گروپوں کا متحرک ہونا، اور مشرقِ وسطٰی میں القاعدہ کا وجود اور قوت حاصل کرنا جہادِ افغانستان کی سپورٹر قوتوں کی اس غفلت، بے پروائی اور لاتعلقی کا منطقی نتیجہ تھا جو انہوں نے سوویت افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد جان بوجھ کر اختیار کر لی تھی، اس لیے اس صورتحال کا صرف مسلح گروپوں کا تنہا ذمہ دار قرار دینا زمینی حقائق اور انصاف کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ صورتحال نائن الیون کے المناک سانحہ کے بعد نمودار ہوئی ہے، مگر یہ بات درست نہیں ہے بلکہ خود نائن الیون کا حادثہ بھی انہی اسباب و عوامل کے باعث پیش آیا ہے۔ البتہ نائن الیون کے المناک سانحہ نے ان اسباب و عوامل کو مہمیز دی ہے اور ان کی قوت کار میں اضافہ کیا ہے جس کے بعد صورتحال تیزی کے ساتھ مزید بگڑتی چلی گئی ہے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی اتحاد کی فوجیں آئیں اور طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو مجاہدین کے مختلف گروپوں میں اشتعال کا بڑھنا اور ان میں باہمی تعاون اور ہم آہنگی کا فروغ بھی ایک فطری امر تھا جس کا سب سے زیادہ اثر پاکستان کی داخلی صورتحال پر پڑا۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی قوتوں اور پاکستان کی رولنگ کلاس نے مشترکہ طور پر اس مرحلے میں یہ حکمتِ عملی طے کر لی کہ مجاہدین کے مختلف گروپوں کی شدت اور اشتعال کو کم کرنے کی کوششوں کی بجائے علاج بالمثل کے طور پر اسے مزید بڑھانے کا ماحول پیدا کیا جائے اور وقفہ وقفہ سے مختلف علاقوں میں انہیں اشتعال دلا کر سامنے لایا جائے اور پھر اجتماعی کارروائی کے ساتھ انہیں کچل دیا جائے۔ سوات اور وزیرستان میں یہی کچھ ہوا ہے اور اب جنوبی پنجاب میں اسی قسم کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ہمارے خیال میں پاکستان میں شدت پسندی اور اس کے ذریعے مختلف طبقات کے درمیان کشمکش کا یہ ماحول اس پس منظر سے ہٹ کر بھی بعض عالمی اور علاقائی قوتوں کی ضرورت ہے جس کے لیے وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ یہ مسلح شدت پسندی اور دہشت گردی کراچی میں قومیت اور زبان کے حوالے سے اپنا کام دکھا چکی ہے، بلوچستان میں یہی ایجنڈا قومیت کے نام سے پیشرفت کر رہا ہے، سوات اور وزیرستان میں اس نے شریعت کے نفاذ کا عنوان اختیار کیا ہے، سنی اور شیعہ مسلح تصادم کے پیچھے یہی بیرونی مفادات کار فرما ہیں، اور اب دیوبندی بریلوی کشمکش کو فروغ دے کر پنجاب میں یہ صورتحال پیدا کرنے کی کوشش میں بھی یہی عوامل متحرک دکھائی دیتے ہیں۔

سوال نمبر ۲: ان انتہاپسندانہ تنظیموں کے وجود میں آنے میں مدارس کا کیا کردار ہے؟

جواب: انتہا پسندانہ جماعتوں کی تنظیم سازی اور ٹریننگ میں دینی مدارس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ مدارس قرآن و سنت کی تعلیم دیتے ہیں اور اسلامی عقائد کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرت کے فروغ اور مسلم معاشرہ میں اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کی تعلیم و ترغیب دیتے ہیں۔ اور چونکہ یہ مسلح تحریکیں اپنا مقصد اور ایجنڈا اسی کو بتاتی ہیں اس لیے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تنظیمیں مدارس کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔ مذکورہ بالا مقاصد کے لیے ملک میں جو جماعتیں اور افراد پُراَمن طور پر اور سیاسی و جمہوری جدوجہد کے ذریعے کام کر رہی ہیں، وہ بھی انہی دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ہیں، اور جو لاکھوں علماء کرام، مدرسین اور خطباء و ائمہ ملک بھر میں انتہائی امن و سکون کے ساتھ اور پورے امن و سلامتی کے ماحول میں دینی خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہیں، انہوں نے بھی انہی مدارس میں تعلیم پائی ہے۔

دینی مدارس سے تعلیم پانے والے وہ حضرات جو نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں پُراَمن طور پر تعلیمی اور دعوتی خدمات بجا لا رہے ہیں، اور وہ حضرات جو مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں، ان کے درمیان تناسب آٹے اور نمک کا بھی نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ انتہاپسندانہ تنظیموں کے قیام میں دینی مدارس کا کوئی کردار ہے، قطعی طور پر درست بات نہیں ہے۔ بالخصوص مجاہدین کے گروپوں کی تنظیم سازی تو جہادِ افغانستان کے دور میں آئی ایس آئی کے زیر سایہ ہوئی ہے اور اسی کا تسلسل اب بھی چلا آرہا ہے۔ پھر مجاہدین کی ٹریننگ بھی مدارس کے ماحول میں نہیں ہوئی بلکہ ان کی تنظیم سازی اور لانچنگ کی راہ ہموار کرنے والوں نے ہی ان کی ٹریننگ کے سارے مراحل طے کرائے ہیں۔

پھر ایک اور پہلو پر غور کرنا بھی ضروری ہے کہ عالمی سطح پر القاعدہ کے جس نیٹ ورک کو مبینہ دہشت گردی کی سب سے بڑی علامت قرار دیا جاتا ہے، اس کے بیشتر ارکان یونیورسٹیوں اور کالجوں کے تعلیم یافتہ ہیں، لیکن ان کی وجہ سے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو انتہاپسندی کا سرچشمہ قرار نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح اگر دینی مدارس کے تعلیم یافتہ حضرات کی کچھ تعداد اس عمل میں شریک ہے تو اس کی ذمہ داری دینی مدارس پر ڈال دینا بھی انصاف کی بات نہیں ہے۔

برصغیر میں دینی مدارس کے موجودہ آزادانہ نظام کا آغاز ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد ہوا تھا اور ان کی تاریخ کم و بیش ڈیڑھ سو سال پر محیط ہے، جبکہ موجودہ شدت پسندی کی تنظیموں کی عمر ربع صدی کے لگ بھگ ہے، اس لیے بھی مدارس کے ڈیڑھ سو سالہ پُراَمن کردار کو نظر انداز کر کے انہیں شدت پسندی اور انتہاپسندی کے موجودہ گروپوں کی تنظیم و تشکیل کا ذمہ دار قرار دینا درست نہیں ہے۔

سوال نمبر ۳: پاکستان کے بیشتر مدارس میں دوسرے مسلکوں اور مذاہب کو گوارا نہ کرنے کا جو سخت رویہ پایا جاتا ہے، اس کے بارے میں آپ کے احساسات کیا ہیں؟ یہ رویہ مدارس کے طلبہ کی ذہنیت کی تشکیل کس طرح کرتا اور دوسروں سے نفرت کی حوصلہ افزائی کیسے کرتا ہے؟ مزید یہ کہ اس سے دہشت گردی کیسے جنم لیتی ہے؟ اس سلسلے میں آپ کیا اصلاحات تجویز کریں گے؟

جواب: دینی مدارس کی بنیاد چونکہ مسلکی ترجیحات پر ہے اس لیے دوسرے مسالک اور مذاہب کے بارے میں عدم برداشت کی فضا مدارس میں بہرحال موجود ہے، جو کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے اور دینی قوتوں کی اجتماعیت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ لیکن کیا اس سے دہشت گردی نے جنم لیا ہے؟ یہ سوال توجہ طلب ہے۔ اس لیے کہ دینی مدارس میں سب سے زیادہ نفرت قادیانیوں کے خلاف پائی جاتی ہے لیکن دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ نے ان کے خلاف کبھی مسلح جدوجہد نہیں کی، بلکہ قادیانیوں کے خلاف نفرت کے اظہار اور حکومت سے ان کے بارے میں اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہمیشہ پُراَمن تحریک کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اسی طرح دینی مدارس میں دیوبندی بریلوی اختلافات اور حنفی اہلحدیث کشمکش بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے لیکن اس نے کبھی مسلح تصادم کی شکل اختیار نہیں کی۔ اس لیے سنی اور شیعہ گروہوں کے درمیان مسلح ٹکراؤ یا اس طرح کی شدت پسندی کے دیگر مظاہر کی جڑیں دینی مدارس کی بجائے کہیں اور تلاش کرنا ہوں گی اور اس کے لیے دینی مدارس کو ذمہ دار قرار دینا حقیقت پسندانہ بات نہیں ہوگی۔

نیز یہ بھی ایک معروضی حقیقت ہے کہ دینی مدارس کے مختلف مکاتبِ فکر کے الگ الگ وفاقوں کے باہمی میل جول اور بہت سے امور میں مشترکہ پالیسیوں اور موقف کے اظہار کے بعد دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے مابین عدمِ برداشت کی شدت میں مسلسل کمی آرہی ہے اور دن بدن فضا پہلے سے بہتر ہو رہی ہے۔ متعدد دینی تحریکات میں مختلف مکاتبِ فکر کے طلبہ نے مشترکہ جدوجہد کی ہے۔ اس لیے مختلف مکاتبِ فکر کے دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کے درمیان باہمی عدمِ مفاہمت اور عدمِ تعاون کی وہ فضا اگر موجود ہے جسے عدمِ برداشت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جس میں بتدریج سست رفتار بہتری کے آثار سامنے آرہے ہیں، لیکن اسے دہشت گردی کا باعث قرار دینے کا بہرحال کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں دینی مدارس کے وفاقوں کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنا ہوگا کہ جس طرح وہ اعلیٰ سطح پر باہمی ملاقاتوں، مفاہمت اور تعاون کا اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح مدارس کے اساتذہ اور طلبہ تک بھی اس کا دائرہ وسیع کریں۔

سوال نمبر ۴: مدارس کے طلبہ سمیت بہت سے مسلمان، مسلمانوں کو درپیش تمام مسائل کا ذمہ دار اغیار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں کو قرار دیتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ طرزِ فکر داخلی سطح پر اپنا احتساب کرنے اور متنوع مشکلات میں خود اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے جس کی مسلمانوں کو شدید ضرورت ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سوچ مسلمانوں کے لیے اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنے میں مانع بن رہی ہے؟

جواب: ہمارے خیال میں یہ تاثر درست نہیں ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ اور بہت سے مسلمان خود کو درپیش تمام مسائل کا ذمہ دار اغیار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں کو قرار دیتے ہیں۔ بلکہ دنیا بھر کی ہزاروں مساجد اور مدارس میں روزانہ یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ ہمارے مسائل اور مشکلات کی وجہ دینی تعلیمات سے دوری اور قرآن و سنت کے احکام پر عمل نہ کرنا ہے۔ ہر باشعور طالب علم اور دینی کارکن اپنی گفتگو کا آغاز اسی سے کرتا ہے۔ اور اسی وجہ سے دینی مدارس نے اپنے ذمے یہ بنیادی کردار لے رکھا ہے کہ معاشرہ میں دینی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے اور مسلمانوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات و احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ترغیب دی جائے۔

البتہ مسلم معاشرہ میں عام مسلمانوں کی دینی تعلیمات سے دوری کے اسباب میں اغیار کی سازشوں کا ذکر ضرور ہوتا ہے اور یہ بات غلط بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ مسلم ممالک پر استعماری تسلط کے دور میں ایسا پالیسی کے تحت کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے دور رکھا جائے اور بیشتر ممالک میں غیر ملکی استعمار کا تسلط ختم ہو جانے کے بعد اس کی جگہ لینے والی مسلمان حکومتوں نے بھی اس پالیسی کے تسلسل کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ

  • مسلمانوں کے معاشی وسائل پر اغیار کے غاصبانہ قبضہ، مسلم ممالک کی معیشت پر عالمی اداروں کا کنٹرول،
  • مسلم ممالک کے سیاسی معاملات میں عالمی قوتوں کی مسلسل مداخلت،
  • مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کی نفی کرتے ہوئے مسلم معاشروں میں مغربی تہذیب و ثقافت کی جارحانہ یلغار،
  • اور مغرب کے ایجنڈے سے انحراف کرنے والے مسلم ممالک پر مسلح جنگ مسلط کر دینے کی کارروائیاں

اب ایسی ڈھکی چھپی باتیں نہیں ہیں جن سے آنکھیں بند کی جا سکیں- اور اگر اس فضا میں یہ کہا جاتا ہے کہ عالمِ اسلام کی موجودہ مشکلات و مسائل کے پیچھے عالمی استعمار کی سازشیں کارفرما ہیں تو یہ کوئی خلاف حقیقت بات نہیں ہے۔ البتہ اغیار کی ان سازشوں اور مسلم ممالک پر عالمی استعمار کے ریموٹ کنٹرول نوآبادیاتی تسلط سے عالمِ اسلام کو نجات دلانے کے لیے مسلم اُمہ کی قیادت کچھ نہیں کر پا رہی۔ یہ بات بہرحال افسوسناک ہے۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ

  • مسلم اُمہ میں فکری بیداری کا ماحول پیدا کیا جائے، علم و آگہی کو فروغ دیا جائے،
  • مرعوبیت کی فضا سے نکلنے کی کوشش کی جائے،
  • اور نئی نسل کو تعلیم و تربیت کے ساتھ ملی حمیت اور تدبر و حوصلہ کی صفات سے بہرہ ور کیا جائے۔

ہمارا ایمان ہے کہ ملتِ اسلامیہ آج بھی قرآن و سنت کی تعلیمات سے آگاہی حاصل کر کے ان پر عمل کا ماحول پیدا کر لے، حریت فکر اور ملی حمیت کے جذبہ سے سرشار ہو جائے، اپنے وسائل اور صلاحیتوں سے ازخود فائدہ اٹھانے کی تدبیر اختیار کرے، اور دوست و دشمن کی حقیقت پسندانہ بنیاد پر پہچان کرنے کا حوصلہ کر لے، تو وہ اپنے مسائل اور مشکلات کو خود حل کر سکتی ہے۔ اس کے لیے تعلیم کے مسلسل فروغ اور فکری بیداری کی ضرورت ہے جس کے لیے دینی مدارس زیادہ بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

سوال نمبر ۵: آپ کی رائے میں تمام غیر مسلموں کو اسلام کا دشمن قرار دینا کیسا ہے؟

جواب: تمام غیر مسلموں کو اسلام کا دشمن سمجھنا درست نہیں ہے اور نہ ہی سنجیدہ اہلِ علم ایسا سمجھتے ہیں۔ غیر مسلموں میں بہت تھوڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے عالمی سطح پر میڈیا اور لابنگ کے وسائل پر ایسے محدود لوگوں کا تسلط زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس قسم کی عمومی فضا نظر آتی ہے۔ ورنہ مشرق و مغرب میں ہر جگہ غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اسلام سے واقف ہونا چاہتی ہے اسلام کو سمجھنا چاہتی ہے، اور بہت سے اسلامی احکام و قوانین کے بارے میں اپنے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات اور کنفیوژن کو دور کرنا چاہتی ہے۔ اور ان سے بھی کہیں زیادہ تعداد دنیا میں ایسے غیر مسلموں کی ہے جو سرے سے اسلام اور اس کی تعلیمات سے بے خبر ہیں اور ان کو اسلام کے پیغام اور تعلیمات سے باخبر کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔

سوال نمبر ۶: آپ کے خیال میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کی کارروائیاں اور دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کا رویہ مسلمانوں کے ایک بنیادی فریضے یعنی دعوت پر کس طرح اثر انداز ہوا ہے؟

جواب: اسلام کے نام پر دہشت گردی کی کارروائیاں اور دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کا رویہ مسلمانوں کے ایک بنیادی فریضہ یعنی دعوت پر یقیناً اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن اس مسئلے کا صرف یہی ایک پہلو نہیں ہے، دوسرے پہلو بھی ساتھ ساتھ قابل توجہ ہیں۔ مثلاً دعوت مسلمانوں کے بنیادی دینی فرائض میں سے ہے اور اس کے مستقل تقاضے اور آداب ہیں جن کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ لیکن اسلام کے عقائد و احکام کا تحفظ و دفاع اور مسلمانوں کے دینی ماحول کو مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار سے بچانا بھی مسلمانوں کے دینی فرائض میں سے ہے اور اس سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔

دعوت و تبلیغ کے اپنے تقاضے ہیں اور تحفظ و دفاع کے الگ سے اپنے تقاضے ہیں، ان میں سے کسی ایک کو دوسرے کی وجہ سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اصل بات تقسیمِ کار کی ہے، دونوں شعبے الگ الگ طرح کے رجال کار چاہتے ہیں۔ جیسے کسی بھی ملک کی وزارتِ دفاع اور وزارتِ خارجہ کا ماحول الگ الگ ہوتا ہے، فوجی ہیڈ کوارٹر اور وزارتِ خارجہ کی زبان اور لہجہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، اور ایک جنرل اور سفارتکار کے طرزِ گفتگو میں فرق نظر آتا ہے، اسی طرح یہاں بھی فرق ناگزیر ہے۔ البتہ باہمی ربط و مشاورت ضروری ہے اور دونوں کا ایک دوسرے کی ضروریات کو ملحوظ رکھنا مشترکہ مفاد کی حیثیت رکھتا ہے۔

دفاع سے ہماری مراد متشددانہ کارروائیاں نہیں ہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غیرمسلم قوتوں کے اقدامات اور کارروائیوں پر نظر رکھنا، ان کی نشاندہی کرنا، ان کے سدِباب کے لیے ضروری اسباب فراہم کرنا، اور متعلقہ افراد و طبقات کو اس طرف توجہ دلا کر مقابلہ کے لیے تیار کرنا ہے۔ جو ظاہر ہے کہ صرف اس وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے دعوتِ اسلام کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ دعوت کی راہ میں ہمارے نزدیک اصل رکاوٹ یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات پر مسلمانوں کے عمل کا ماحول کمزور ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں سے غیرمسلموں کے متاثر ہونے کی وہ فضا دوبارہ نہیں بن رہی جو قرونِ اولیٰ میں اسلام کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔

سوال نمبر ۷: غیرمسلموں کے بارے میں ان کے خیالات کے پیشِ نظر، پاکستان کی اسلامی تحریکیں اور مدارس کس حد تک ایسی مسلم گروہ پسندی یا فرقہ پرستی کو فروغ دینے کے ذمہ دار ہیں جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں؟

جواب: گروہ بندی اور فرقہ بندی کے مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے کسی بھی قسم کے اختلاف کو ہمارے ہاں گروہ بندی اور فرقہ بندی کا باعث سمجھا جانے لگا ہے، حالانکہ شرعی احکام میں فقہی اختلاف شروع سے چلا آرہا ہے اور عقائد کی تعبیرات میں تنوع بھی ابتدا سے موجود ہے۔ یہ اختلاف اور تنوع فطری بات ہے جس کی ضرورت، اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس اختلاف اور تنوع سے انکار ہمارے نزدیک اسلام کے فطری مذہب ہونے کی نفی کے مترادف ہے۔ البتہ اختلاف کو اپنے دائرے میں رہنا چاہیے، اسے امت میں تقسیم کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ اور مختلف مکاتب فکر کو ایک دوسرے کا وجود تسلیم کرتے ہوئے اور باہمی اختلاف رائے کا احترام کرتے ہوئے مشترکہ دینی مقاصد کے لیے مشترکہ جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

پاکستان میں اب سے پہلے ایسا ہوتا آیا ہے اور اب بھی اس کے امکانات اور ماحول موجود ہے۔ پاکستان کی اسلامی تحریکوں نے مختلف مواقع پر باہمی تعاون و اشتراک کا مظاہرہ کیا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ باہمی اختلاف اور ملی تقاضوں سے بے خبر نہیں ہیں اور بوقتِ ضرورت اپنے اختلافات کے باوجود مل جل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اور جب اسلامی تحریکیں کسی مشترکہ مقصد کے لیے باہمی اشتراک و تعاون کا کوئی فورم قائم کرتی ہیں تو انہیں دینی مدارس کا تعاون اور سپورٹ بھی حاصل ہوتی ہے، تاہم اس ماحول کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور ان عناصر سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے جو مختلف مکاتبِ فکر کے اختلاف کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی وقتاً فوقتاً کوشش کرتے رہتے ہیں۔

سوال نمبر ۸: آپ کی رائے میں مدارس کے موجودہ نظامِ تعلیم میں کون سی ایسی تبدیلیاں کی جانی چاہئیں جن کے نتیجے میں طلبہ اور علماء میں دوسرے مذاہب کے بارے میں وہ مثبت طرزِ فکر پیدا ہو سکے جو دعوتی سرگرمیوں کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے؟

جواب: دینی مدارس کا بنیادی مقصد معاشرے میں دینی تعلیمات کا فروغ، مسلمانوں کے عقائد و ثقافت کا تحفظ، اسلامی احکام و فرائض پر عملدرآمد کا ماحول برقرار رکھنا، اور مسلمانوں کو دینی تعلیم اور فرائض و واجبات کی ادائیگی کے لیے رجال کار فراہم کرنا ہے۔ اس لیے ان کے تعلیمی نظام و نصاب میں کسی ایسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے جو انہیں ان اہداف سے ہٹائے۔ البتہ ان مقاصد کے لیے دینی مدارس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے ہم بہت سی تبدیلیوں کی حمایت کرتے ہیں اور ایک عرصہ سے ان کے لیے مسلسل آواز بھی بلند کر رہے ہیں، مثلاً یہ کہ:

  • اسلامی تعلیمات و احکام کے ساتھ ساتھ دوسرے معاصر مذاہب و ادیان کی بنیادی تعلیمات، ان کی تاریخ اور ان کے پیروکاروں کے موجودہ ثقافتی و مذہبی تناظر سے آگاہی بھی علماء اسلام کے لیے ضروری ہے اور دینی مدارس کو اپنے نصاب میں اسے اہمیت دینی چاہیے۔
  • عالمی سطح پر بولی جانے والی زبانوں، ابلاغ کے جدید ذرائع، دعوت کے مروجہ اسلوب، اور تہذیب و معاشرت کے جدید مسائل سے طلبہ اور علماء کو واقف کرانا بھی دینی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔
  • مختلف مذاہب اور مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور طلبہ کے درمیان باہمی ملاقاتوں اور عصرِ حاضر کے مسائل پر باہمی تبادلہ خیالات کا اہتمام ہونا چاہیے۔
  • علماء و طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ جدل و مناظرہ کے ماحول سے نکل کر بریفنگ اور لابنگ کے اسلوب کو اختیار کریں اور دین کی دعوت و دفاع کے دونوں میدانوں میں معروضی حقائق اور عقلِ عام کے ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت حاصل کریں۔
  • اور ان سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ان کا تعلیمی معیار بلند ہو اور اسلامی علوم و فنون پر ان کی گرفت مضبوط ہو۔

سوال نمبر ۹: نفاذِ شریعت کے بارے میں پاکستان کے اسلامی گروہوں اور مدارس کے نقطۂ نظر کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا آپ یہ محسوس نہیں کرتے کہ احتجاج، حتٰی کہ تشدد یا حکومتی فرمان کے ذریعے سے شریعت نافذ کرنے کا عمومی طرزِ فکر لاحاصل ہے، کیونکہ بہت سے مسلمان خود بھی روایتی تصور کے تحت شریعت پر مبنی کسی ریاست کے محکوم بننا پسند نہیں کرتے؟ معاشرے کے با رسوخ طبقات کے ہاں شریعت اور اس کی تعبیر کے حوالے سے جو سوالات، الجھنیں اور تحفظات پائے جاتے ہیں، آپ کے خیال میں ان کا ازالہ کیے بغیر شریعت کا مؤثر نفاذ ممکن ہے؟

جواب: یہ سوال مختلف سوالات کا مجموعہ ہے جن کا الگ الگ جواب ضروری ہے۔

اصولی طور پر یہ بات درست ہے کہ نفاذِ شریعت کے لیے رائے عامہ، ووٹ اور سیاسی عمل ہی سب سے زیادہ مؤثر اور درست ذریعہ ہے، لیکن یہ پاکستان کے معروضی حالات میں کافی نہیں ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کی رولنگ کلاس نفاذِ شریعت کے حوالے سے عوام کے جذبات کا احترام کرنے اور قیامِ پاکستان کے نظریاتی اور ثقافتی مقاصد کے سامنے سرنڈر ہونے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوئی اور نہ آئندہ ہو گی۔ وہ صرف احتجاج اور دباؤ کی زبان کو سمجھتی ہے اور پاکستان کے حکمران طبقات کی نفسیات یہ ہے کہ وہ احتجاج اور دباؤ کے بغیر کوئی بات قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ چنانچہ پاکستان میں اب تک نفاذِ شریعت کے جس قدر اقدامات ہوئے ہیں وہ عوامی دباؤ اور اسٹریٹ پاور کے پُرجوش اظہار کے نتیجے میں ہوئے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں اگر رائے عامہ کی قوت کا استعمال مؤثر ہوگا تو وہ صرف احتجاج، اسٹریٹ پاور اور عوامی دباؤ کے ذریعے ہی ہوگا، جیسا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی کے لیے وکلاء کی تحریک میں اس کا ایک بار پھر تجربہ ہو گیا ہے۔ اس لیے جب پاکستان میں نفاذِ شریعت کی عوامی جدوجہد کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد اسٹریٹ پاور اور عوامی احتجاج ہی ہوتا ہے کہ اس کے سوا پاکستان کی رولنگ کلاس سے کوئی بات منوانے کا اور کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے اور پاکستان کے عوام اپنے مطالبات منوانے کے لیے اسی کو مؤثر ہتھیار سمجھتے ہیں۔ البتہ اس عوامی تحریک کا پُراَمن اور دستور و قانون کے دائرے کے اندر رہنا اور کسی بھی قسم کے تشدد سے اسے پاک رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان کے اندر کسی بھی مطالبے کے لیے ہتھیار اٹھانا، مسلح جدوجہد کا ماحول پیدا کرنا، عوام کو خوف و ہراس میں ڈالنا، اور لاقانونیت کی فضا پیدا کرنا ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے اور ہم نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے۔

جہاں تک حکومتی فرمان کے ذریعے احکامِ شریعت کے نفاذ کی بات ہے تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر ۱۹۲۴ء میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ تک احکامِ شریعت کے نفاذ کے لیے حکومتی فرمان اور ریاستی نظام ہی ایک مؤثر ذریعے کے طور پر کارفرما رہا ہے، اور یہ اسلام کی چودہ سو سالہ روایات کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات کا تقاضا بھی ہے۔ کوئی بھی حکم اور قانون اس وقت تک حکم یا قانون نہیں کہلا سکتا جب تک اس کے پیچھے ریاستی قوت اور حکومتی فرمان نہ ہو۔ حکومتی فرمان کے بغیر سوسائٹی کو احکام و قوانین کا پابند بنانے کی بات نظری طور پر کتنی ہی دلفریب کیوں نہ ہو، عملی طور پر ناممکن ہے۔ کارل مارکس نے بھی کمیونزم کی حقیقی منزل اسی کو قرار دیا تھا لیکن یہ محض نظری بات تھی جو عملی دنیا میں ایک قدم نہیں چل سکی، اور کارل مارکس کے پیروکاروں کو اس سے ایک درجہ نیچے اتر کر سوشلزم کے لیے ریاستی قوت اور حکومتی فرامین کا جس شدت کے ساتھ استعمال کرنا پڑا وہ انسانی تاریخ کا ایک اندوہناک باب بن چکا ہے۔

اسلام صرف اخلاقی تعلیمات اور عقائد و عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت میں معاشرتی، خاندانی اور قومی زندگی کے بارے میں سیکڑوں احکام و قوانین موجود ہیں جن کے نفاذ و اطلاق کے لیے ریاستی قوت اور حکومتی فرمان ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اسی بات سے فقہاء اسلام نے خلافت و حکومت کے فرض و واجب ہونے پر استدلال کیا ہے کہ چونکہ قرآن و سنت کے بہت سے احکام و فرائض کا نفاذِ حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے، اور جو چیز کسی فرض کی ادائیگی کے لیے موقوف علیہ کا درجہ رکھتی ہو وہ خود بھی فرض ہوتی ہے، اس لیے خلافت کا قیام مسلمانوں پر شرعاً واجب ہے۔

جہاں تک معاشرہ کے بارسوخ طبقات کے تحفظات کی بات ہے تو دنیا کے کسی بھی معاشرے میں اس کے بارسوخ طبقات کے تحفظات ایسے ہر قانون کے حوالے سے ہر وقت موجود رہتے ہیں جن سے ان کے مفادات پر زد پڑتی ہو، اور وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے اگر حکومت کا وجود اور اس کے فرامین صرف بارسوخ طبقات کے تحفظات و مفادات کے لیے ہوتے ہیں تو صرف شریعتِ اسلامیہ کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی دستور و قانون کے لیے حکومتی فرمان کی ضرورت مشکوک ہو جائے گی۔ باقی رہی یہ بات کہ بہت سے مسلمان روایتی تصور کے تحت شریعت پر مبنی کسی ریاست کا محکوم بننا پسند نہیں کرتے تو اس سلسلے میں دو باتیں قابل توجہ ہیں۔

  1. ایک یہ کہ کیا کسی بھی ملک میں بہت سے لوگوں کا اس ملک کے دستور و قانون کے روایتی تصور پر مبنی نظام و احکام کی پابندی کو پسند نہ کرنا اس امر کا جواز بن جاتا ہے کہ اس روایتی تصور کو ہی ختم کر دیا جائے؟ آج کی دنیا میں اکثریت کے رجحانات کو دیکھا جاتا ہے اور اس کے مطابق نظام چلایا جاتا ہے۔ اسی اصول پر دنیا بھر میں مسلمانوں کے عمومی رجحانات کو دیکھ لیا جائے کہ وہ اسلام اور شریعت کے روایتی تصور کے مطابق زندگی بسر کرنا پسند کرتے ہیں یا مارٹن لوتھر کی پروٹسٹنٹ تعلیمات کے طرز پر اسلام کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کو قبول کرتے ہیں؟ اس تاریخی حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مسلمانوں کے عمومی ماحول نے دنیا بھر میں کسی جگہ بھی مارٹن لوتھر یا اکبر بادشاہ کی طرز کی ری کنسٹرکشن کو کبھی قبول نہیں کیا۔ تو محض روایتی تصور کی پھبتی کے ساتھ امتِ مسلمہ پر چند لوگوں کے خیالات کو مسلط کرنے کا کیا جواز ہے؟
  2. دوسری بات یہ کہ جس طرح دنیا میں کسی بھی دستور و قانون کی تعبیر و تشریح کے لیے کچھ مسلّمہ اصول اور متعین پراسیس موجود ہوتا ہے، جس سے ہٹ کر اس کی کوئی تعبیر و تشریح قابل عمل نہیں قرار پاتی، اسی طرح قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کے بھی کچھ متعینہ اصول اور ایک ایسا علمی اور عملی طریق کار موجود ہے جس پر چودہ سو سال سے امت کا اجماعی اور جمہوری تعامل چلا آ رہا ہے۔ اسے نظر انداز کر کے قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کو چند افراد کے تصورات و خواہشات کا اسیر نہیں بنایا جا سکتا۔

قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے دو درجے ہیں۔ ایک وہ منصوص احکام جن کی قرآن و سنت میں پوری صراحت کے ساتھ وضاحت کر دی گئی ہے، ان کے بارے میں کسی نئی تعبیر و تشریح کو قبول کرنا خود قرآن و سنت کی نفی کے مترادف ہے۔ دوسرا درجہ اجتہادی اور استنباطی مسائل و احکام کا ہے، ان میں اجتہاد و استنباط کا راستہ قیامت تک کھلا ہے۔ لیکن کسی بھی اجتہاد یا استنباط کو قانون یا حکم کا درجہ اس وقت حاصل ہوگا جب امت مسلِمہ کا جمہوری ماحول یا کم از کم وہ سوسائٹی جس کے تناظر میں وہ اجتہاد کیا گیا ہے، اسے عمومی طور پر قبول کر لے گی۔ اس سے پہلے اس کی حیثیت محض ایک رائے کی ہے جسے اختیار کرنے اور پیش کرنے کا تو ہر شخص کو حق حاصل ہے، لیکن اسے سوسائٹی پر مسلط کرنے کا کسی شخص کو حق حاصل نہیں ہے۔ میں مثال کے طور پر علامہ محمد اقبالؒ کی ایک اجتہادی رائے کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ قادیانیوں کو عقیدۂ ختم نبوت اور دیگر مسلّمہ اسلامی عقائد سے انحراف کی بنیاد پر فقہی احکامات کے مطابق گردن زدنی قرار دینے کی بجائے مسلم معاشرہ میں دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر قبول کر لیا جائے۔ یہ ایک اجتہادی رائے تھی جس سے ہر شخص کو اختلاف کا حق حاصل تھا، لیکن یہی رائے جب تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام کا متفقہ موقف قرار پائی اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی اسے قبول کر لیا تو اسے شرعی حکم اور ملکی قانون کا درجہ حاصل ہو گیا۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایک غلط روایت نے جنم لیا ہے اور بارسوخ طبقات کے اثر و رسوخ کے ذریعے اسے مسلسل فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ یہ کہ قرآن و سنت کے بارے میں کچھ لوگوں کی پیش کردہ تعبیرات و تشریحات کو براہ راست ریاستی قوت کے ذریعے قانون کا درجہ دے دیا جاتا ہے اور درمیان کے ایک ناگزیر مرحلہ کو یکسر نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ اسے علمی حلقوں اور عمومی ماحول میں بھی قبولیت کا درجہ حاصل ہوا ہے یا نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قانون کے کاغذات میں تو اس کا وجود ہوتا ہے لیکن عام معاشرہ میں اسے قبولیت اور احترام کا مقام نہیں ملتا اور عجیب طرح کی کنفیوژن پیدا ہو جاتی ہے۔ اکبر بادشاہ کے اجتہادات کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا اور آج بھی ایسا ہو رہا ہے۔ جس کی ایک مثال پاکستان کے سابق صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں نافذ ہونے والے عائلی قوانین ہیں، جو قانون کی فائلوں میں تو موجود ہیں لیکن ملک کا عام مسلمان اب بھی نکاح، طلاق اور وراثت کے مسائل میں ان قوانین کی پروا کیے بغیر کسی مفتی سے فتویٰ لینے کو ہی ترجیح دیتا ہے، اور اسلامی احکام پر عمل کے خواہشمند کسی بھی مسلمان کے لیے ملکی قانون کی بجائے مفتی کا فتویٰ ہی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس بنا پر اس عمل میں یہ ایک ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے کہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح میں کسی بھی نئی رائے، اجتہاد یا استنباط کو براہ راست ریاستی قوت کے ذریعے قانون کا درجہ دینے کی بجائے علمی حلقوں اور عمومی ماحول میں اس کی قبولیت کا انتظار کیا جائے، جیسا کہ قادیانیوں کے بارے میں علامہ محمد اقبالؒ کی اجتہادی رائے کے ساتھ ہوا ہے۔

سوال نمبر ۱۰: علماء اور مدارس کے ہاں فقہی اجتہادات اور شریعت کو آپس میں گڈمڈ کر دینے کا جو رجحان پایا جاتا ہے، اس کے بارے میں آپ کا احساس کیا ہے؟ (اگر یہ غلط ہے تو) اس غلط رجحان کی عکاسی طبقہ علماء کے ہاں بین المذاہب تعلقات، تصور جہاد اور نفاذ شریعت کے سوال میں کس انداز سے ہوتی ہے؟ علماء کے ہاں شریعت، فقہ اور بدلتے ہوئے معاشرے کا بہتر فہم پیدا کرنے کے لیے آپ کے نزدیک کون سے اقدامات ضروری اور ناگزیر ہیں؟

جواب: شریعت اگر اسلامی احکام و قوانین کا نام ہے تو فقہی اجتہادات کو اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ اسلامی احکام و قوانین کا ایک بڑا حصہ فقہی اجتہادات پر مبنی ہے۔ خلافت راشدہ کے دور میں بھی بہت سے احکام و قوانین کی بنیاد فقہی اجتہادات پر ہوتی تھی، اس لیے شریعت اور فقہی اجتہادات کو ایک دوسرے کے مقابل لانے کا تصور ہی بنیادی طور پر غلط ہے۔

قرآن و سنت کے منصوص اور صریح احکام تو ہمیشہ کے لیے ناقابل تغیر ہیں، البتہ وہ منصوص احکام جو صریح نہیں ہیں ان کی تعبیر و تشریح استنباط اور اجتہاد کے ذریعے کی جاتی ہے، اور وہ احکام جو منصوص نہیں ہیں ان کا تعین بھی منصوص احکام کی روشنی میں اجتہادات کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ اس لیے شریعت اور اجتہاد باہم لازم و ملزوم ہیں۔ اور جس طرح منصوص اور صریح احکام شریعت کا حصہ ہیں، اسی طرح استنباطی اور اجتہادی مسائل و احکام بھی شریعت کا ہی حصہ ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ غیر صریح اور غیر منصوص مسائل و احکام میں ان کے اسباب و علل اور عرف و تعامل کی تبدیلی کے ساتھ تغیر و تبدل کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اور اسلامی احکام و قوانین میں حرکت پذیری کا یہ امکان ہی انہیں ہر زمانے اور ماحول کے لیے قابل عمل بناتا ہے۔

جہاں تک بین المذاہب تعلقات، تصورِ جہاد اور نفاذِ شریعت جیسے مسائل کا تعلق ہے، ان کے بارے میں مسلّمہ فقہی مذاہب میں پوری تفصیل کے ساتھ احکام و ضوابط موجود ہیں جن کی بنیاد پر آج کے حالات اور ضروریات کے تناظر میں نئی قانون سازی بھی کی جا سکتی ہے۔ اور ہمارے نزدیک قیامِ پاکستان کے بعد تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام کے طے کردہ ۲۲ دستوری نکات اسی طرز کے اجتہاد اور قانون سازی کی عکاسی کرتے ہیں، جب کہ وفاقی شرعی عدالت کے بہت سے فیصلے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی متفقہ قانونی سفارشات بھی اسی اجتہادی عمل کا حصہ ہیں۔

البتہ اس حوالے سے علماء کرام اور دینی مدارس کے حلقوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عالم اسلام کے مختلف حصوں میں ہونے والے اجتہادی عمل اور علمی مساعی سے آگاہی حاصل کریں، معاشرتی اور عالمی ماحول سے واقف ہوں، انسانی سوسائٹی کے جدید مسائل اور تقاضوں سے باخبر ہوں، معاصر مذاہب، نظام ہائے زندگی اور دستوری و قانونی ارتقاء پر ان کی نظر ہو، اور اس پورے تناظر کو سامنے رکھ کر وہ اپنی علمی ذمہ داریوں اور کردار کا تعین کریں، کیونکہ اسی صورت میں وہ اپنے علمی و دینی فریضے سے صحیح طور پر سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ دینی مدارس اور علمی مراکز کو اس سلسلے میں خصوصی کورسز اور محاضرات کا اہتمام کرنا چاہیے اور دینی مدارس کے طلبہ و اساتذہ کے ساتھ ساتھ مساجد کے ائمہ و خطباء اور دینی جماعتوں کے کارکنوں کو بھی اس دائرے میں شریک کرنا چاہیے۔

سوال نمبر ۱۱: صوبہ سرحد میں طالبان کی طرف سے سکھوں پر جزیہ کے نفاذ اور عورتوں کے ساتھ ان کے برتاؤ کے بارے میں آپ کے تاثرات کیا ہیں؟ کیا آپ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی حیثیت اور عورتوں کے معاشرتی کردار کے حوالے سے طالبان کے تصورات سے اتفاق کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو اس پر آپ کی تنقید کیا ہے؟

جواب: صوبہ سرحد کے طالبان کی طرف سے اگر سکھوں پر جزیہ نافذ کیا گیا ہے تو یہ غلط ہے۔ پاکستان کے دستور کے تحت ملک کے تمام غیر مسلم اقلیتوں کی حیثیت شرعاً ’’معاہد‘‘ کی ہے یعنی وہ اقلیتیں جو ایک معاہدہ کے تحت ملک کی آبادی کا حصہ بنی ہیں اور یہ معاہدہ ملک کا دستور ہے۔ ان کے ساتھ وہی معاملات روا رکھے جائیں گے جو دستور میں طے کیے گئے ہیں اور اس سے ہٹ کر ان کے ساتھ کوئی معاملہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں غیر مسلموں اور عورتوں کے بارے میں پاکستان کے تناظر میں علماء کرام کے ۲۲ دستوری نکات اور ۱۹۷۳ء کے دستور کے بعد اسلامائزیشن کے سلسلے میں ہونے والی قانونی پیشرفت اور ارتقا ہی نفاذِ شریعت کا صحیح معیار ہے جس سے انحراف جائز نہیں ہے۔

سوال نمبر ۱۲: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ طالبان معیشت، بین الاقوامی تعلقات اور پاکستان میں مختلف نسلی گروہوں کے باہمی تعلقات کے پیچیدہ مسائل سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت اور وژن سے بہرہ ور ہیں؟ اگر حکومت اور اقتدار طالبان کو مل جائے تو آپ کے خیال میں ان کا ان مسائل سے نمٹنے کا طریق کار اور نتائج کیا ہوں گے؟

جواب: طالبان کو ہم دو الگ الگ حصوں میں سمجھتے ہیں:

  1. افغانستان کے طالبان کے بارے میں ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ وہ جہادِ افغانستان کے دوران سوویت افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں پیدا کی گئی افراتفری، خانہ جنگی اور جہاد کے نظریاتی اہداف کو نظرانداز کیے جانے کے نتیجے میں سامنے آئے تھے، اور افغانستان کے ایک بڑے حصے میں منظم حکومت قائم کر کے انہوں نے شرعی نظام نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے زیر حکومت علاقے میں امن بھی قائم کیا تھا۔ جب کہ افغانستان میں امریکی افواج کی آمد کے بعد ان کا خیال ہے کہ وہ اسی طرح قومی آزادی اور اسلامی تشخص کی بحالی کی جنگ لڑ رہے ہیں جیسے انہوں نے روسی افواج کی موجودگی کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ وہ افغانستان کے مخصوص حالات اور کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہاں کے حالات و ضروریات کو بہتر طور پر سمجھتے ہوئے ان سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

    البتہ جب ان کی حکومت قائم تھی، اس دوران ہم نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ ملک میں دستوری حکومت قائم کریں اور دستور سازی اور قانون سازی کے حوالے سے پاکستان کے علماء کرام کی پارلیمانی جدوجہد کو سامنے رکھ کر اور اس سے استفادہ کرتے ہوئے دستور و قانون کی تشکیل کے مراحل طے کریں۔ اس وقت ہم نے انہیں یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ بین الاقوامی معاملات اور ملک کے معاشی و اقتصادی ڈھانچے کی تشکیل میں ان بین الاقوامی ماہرین سے مشاورت کا اہتمام کریں جو اسلامی تعلیمات پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی ترویج و تنفیذ میں کردار ادا کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ایسے ماہرین نہ صرف مسلم ممالک میں موجود ہیں بلکہ مغربی دنیا اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں میں بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اب اگر افغانستان میں ان کی دوبارہ حکومت قائم ہوتی ہے جس کے امکانات کا عالمی پریس میں مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے تو ہمارا انہیں یہی مشورہ ہوگا کہ:

    • دستوری حکومت تشکیل دیں،
    • پاکستان کے دینی حلقوں کی پارلیمانی جدوجہد سے راہنمائی حاصل کریں، اور
    • مختلف شعبوں میں ان مسلم ماہرین سے مشاورت کا اہتمام کریں جو نفاذِ اسلام پر یقین رکھتے ہیں اور اس میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
  2. مگر پاکستان میں طالبان کے نام سے کام کرنے والے گروہوں کے بارے میں ہماری رائے یہ نہیں ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ گروہ اگرچہ نفاذِ شریعت کے بارے میں پاکستان کی رولنگ کلاس کے مسلسل منافقانہ رویے کے رد عمل میں نمودار ہوئے ہیں، لیکن ایک تو ان کا طریق کار درست نہیں ہے۔ اور دوسرا ان کی جدوجہد کا فائدہ ان قوتوں کو مل رہا ہے جو پاکستان میں افراتفری اور خانہ جنگی کا ماحول قائم کرنا چاہتی ہیں اور جن کی خواہش ہے کہ نفاذِ شریعت کے نام پر ایسی الٹی سیدھی حرکتیں وقتاً فوقتاً ہوتی رہیں جو رائے عامہ کو نفاذِ شریعت کے عمل اور جدوجہد سے متنفر کرنے کا باعث بنیں۔ پاکستان میں طالبان کے گروہوں نے متعدد ایسی حرکات کی ہیں جو اس ضمن میں آتی ہیں۔ ہو سکتا ہے بہت سے طالبان غیرشعوری طور پر اس سازش کا حصہ بنے ہوں، لیکن شعوری طور پر اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والوں کے وجود سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس بنا پر ہماری رائے یہ ہے کہ پاکستانی طالبان شعوری یا غیرشعوری طور پر ان قوتوں کے حق اور فائدے میں استعمال ہو رہے ہیں جن کا ہم نے تذکرہ کیا ہے اور ان کی سرگرمیوں سے ملک اور اسلام دونوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    ہمارے نزدیک پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے قراردادِ مقاصد، علماء کرام کے ۲۲ دستوری نکات، اور ۱۹۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات کی بنیاد پر سیاسی اور دستوری جدوجہد ہی صحیح راستہ ہے۔ اور طالبان یا اس طرز پر کام کرنے والے تمام گروہوں کو ملک کے جمہور علماء کے موقف اور پالیسی پر واپس آجانا چاہیے۔

سوال نمبر ۱۳: مدارس اور مذہبی گروہوں نے جہاد افغانستان میں حصہ لینے کا جو فیصلہ کیا، آپ کی رائے میں اس کے نتائج بین الاقوامی، علاقائی اور ملکی سطح پر ان کی توقعات کے مطابق نکلے یا برعکس؟ کیا آپ کے خیال میں یہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے کچھ اہم پہلوؤں سے صرف نظر کیا گیا؟ اگر غلطی تھی تو کہاں اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا آپ مذہبی قیادت کے لیے اس پالیسی پر ناقدانہ غور کرنے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟ اگر ہاں تو اس کے لیے آپ کیا مناسب اور مؤثر اقدام تجویز کرتے ہیں؟

جواب: افغانستان میں روسی افواج کی آمد کے بعد جہاد کا اعلان افغانستان کے علماء کرام نے کیا تھا اور پاکستان کی متعدد دینی جماعتوں اور مدارس کے طلبہ و اساتذہ نے اس کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس میں عملی طور پر شرکت بھی کی تھی۔ یہ حمایت اور تعاون اس بنیاد پر تھا کہ اپنے وطن کی آزادی اور قومی خودمختاری کی بحالی کے لیے افغان عوام کی جنگ نہ صرف ان کا قومی حق ہے بلکہ یہ شرعی فریضہ اور جہاد بھی ہے، اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اس جہادِ آزادی میں ان سے تعاون اور ان کی امداد دنیا بھر کے مسلمانوں بالخصوص پڑوسی مسلمانوں پر شرعاً واجب ہے۔ وہ جہاد کی فضیلت و اہمیت اور اس کے احکام و مسائل قرآن و سنت اور فقہ میں مسلسل پڑھتے چلے آرہے تھے جن پر عملدرآمد کا انہیں موقع سامنے نظر آ رہا تھا۔ نیز مسلم ممالک پر استعماری قوتوں کے تسلط اور عالمِ اسلام کے وسائل اور متعدد مقامات پر غیر مسلم طاقتوں کے قبضہ اور وہاں کی اکثریتی مسلم آبادی کو آزادی اور اسلامی تشخص سے محروم کر دینے کے تناظر نے انہیں مسلط قوتوں کے خلاف نفرت و انتقام کے جذبہ سے بھی سرشار کر رکھا تھا، چنانچہ انہوں نے پورے جوش و خروش کے ساتھ اس میں حصہ لیا۔

ابتدا میں افغان علماء کے اس اعلان جہاد اور پاکستان کے دینی حلقوں کی طرف سے ان کی حمایت و تعاون کو دیوانے کا خواب سمجھا گیا اور کھلم کھلا یہ کہا گیا کہ یہ چند مذہبی دیوانے اور بے وقوف ہیں جو ایک عالمی طاقت کے ساتھ ٹکرا کر اپنا سر پھوڑنے جا رہے ہیں۔ مگر ان دیوانوں کی یہ دیوانگی جاری رہی، کم و بیش تین سال تک کیفیت یہ تھی کہ ان مجاہدین نے عام طور پر میسر معمولی ہتھیاروں کے ساتھ فقر و فاقہ کے ماحول میں گوریلا جنگ لڑی۔ انہیں پاکستانی حکومت اور اس کے بعد پاکستانی عوام کی تھوڑی بہت حمایت حاصل تھی۔ اس زمانے میں یہ مجاہدین شیشے کی بوتلوں میں پٹرول اور صابن کا محلول بھر کر مصنوعی بم بنایا کرتے تھے اور انہیں ٹینک شکن ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ان تین چار برسوں میں ان مجاہدین کے استعمال میں آنے والے ہتھیار اگر کسی جگہ یادگار کے طور پر محفوظ کیے گئے ہوں تو انہیں دیکھ کر اس دور کی جنگ کے ماحول کا آج بھی بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس بے سروسامانی کی جنگ کے نتیجے میں جب افغانستان کے ایک بڑے حصے میں مجاہدین کے مختلف گروپوں نے اپنے زیراثر علاقے قائم کر لیے اور یہ نظر آنے لگا کہ یہ جنگ جاری رہ سکتی ہے تو امریکہ اور دیگر بہت سے ممالک نے اس جنگ میں سوویت یونین کی ہزیمت کے امکانات دیکھ کر اس میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا اور پھر افغان مجاہدین کے پاس جدید ہتھیاروں اور وسائل کی ریل پیل ہو گئی۔

ہمارے خیال میں اس مرحلے میں افغان مجاہدین کے مختلف گروپوں کی قیادت سے غلطی ہوئی کہ انہوں نے بیرونی امداد اور سرمایہ دارانہ بلاک کی معاونت اور حمایت کی حدود طے کرنے کی بجائے انہیں جنگ میں ایک شریک کار کے طور پر قبول کر لیا۔ مجاہدین کے آٹھ مختلف گروپوں کو ملا کر ایک اتحاد قائم کیا گیا اور سرمایہ دارانہ بلاک نے اس جنگ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اگر افغان مجاہدین کی قیادت کچھ مزید صبر سے کام لے کر بیرونی امداد و تعاون کو انتہائی ضرورت کی حد تک محدود رکھتے ہوئے پالیسی سازی کے معاملات پر اپنی گرفت قائم رکھتی تو نتائج بہت مختلف ہوتے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ جب کہ ہماری معلومات کے مطابق اس موقع پر افغان مجاہدین کے آٹھ مختلف گروپوں کے متحدہ محاذ کی قیادت میں اس مسئلے پر اختلاف رائے بھی ہوا اور متحدہ محاذ کے سیکرٹری جنرل مولانا نصر اللہ منصور شہید نے سرمایہ دارانہ بلاک کے سامنے افغان مجاہدین کی قیادت کی خودسپردگی کے اس رویے سے اختلاف کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ مولانا نصر اللہ منصور شہید کا موقف یہ تھا کہ بیرونی قوتوں سے امداد لی جائے لیکن پالیسی سازی پر اپنا کنٹرول قائم رکھا جائے، مگر وہ اپنے موقف کو منوا نہ سکے اور اتحاد سے الگ ہوگئے۔

اس کے بعد صورتحال یہ بن گئی کہ افغان مجاہدین اپنے وطن کی آزادی، افغانستان کی قومی خود مختاری، اور ایک شرعی اسلامی حکومت کے قیام کے لیے لڑ رہے تھے۔ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک سے آنے والے ہزاروں نوجوان اپنے افغان بھائیوں کی امداد اور جہاد میں عملی شرکت کے جذبہ سے لڑ رہے تھے۔ لیکن عالمی قوتیں بالخصوص سرمایہ دارانہ بلاک اس جنگ کے ذریعے سوویت یونین کو شکست دینے کے مقصد کے تحت اس جنگ کو سپورٹ کر رہا تھا اور اسی وجہ سے ایسا ہوا کہ سوویت افواج کی واپسی کے بعد سرمایہ دارانہ بلاک نے اپنا ہدف حاصل کر کے جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور پہلے دونوں گروہ جہاد افغانستان کے نظریاتی اہداف کے حصول کے لیے سرگرداں ہو گئے۔

یہی وہ موقع ہے جب پاکستان میں، جو جہادِ افغانستان کا سب سے بڑا پشت پناہ اور مجاہدین کا بیس کیمپ تھا، حکومتی سطح پر اختلافات پیدا ہوئے۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم اس جنگ کو اس کے منطقی نتائج تک پہنچانے اور افغان مجاہدین کی حکومت کے قیام اور استحکام تک اس میں عملاً شامل رہنے کا عزم رکھتے تھے، جب کہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم اس جنگ کو اسی مرحلہ پر مکمل سمجھتے ہوئے اس سے کنارہ کشی کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اسی کشمکش کی فضا میں جنیوا معاہدہ نے جنم لیا جو جہادِ افغانستان اور افغان عوام کے بارے میں عالمی قوتوں کی منافقانہ پالیسیوں کا شاہکار تھا اور اس نے افغانستان میں ایک مستحکم حکومت و نظام کے قیام کی بجائے خانہ جنگی اور خلفشار کا نیا ماحول پیدا کیا۔

اسی خلفشار اور خانہ جنگی سے طالبان نے جنم لیا جنہوں نے افغانستان کے ایک بڑے حصے کو کچھ عرصے کے لیے بداَمنی اور لاقانونیت سے تو نجات دلا دی لیکن وہ اپنی حکومتی ترجیحات میں ایسی ترتیب قائم نہ کر سکے کہ اپنے اصل اہداف کی طرف مؤثر پیشرفت جاری رکھ سکتے۔ ظاہر بات ہے کہ طالبان کی حکومت کا وجود میں آنا مقامی حالات کا نتیجہ تھا جو عالمی قوتوں کے ایجنڈے اور مفادات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، چنانچہ کچھ عرصہ تک تو ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی اور انہیں عالمی ایجنڈے میں فٹ کرنے کے لیے اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش ہوتی رہی، لیکن جب یہ بات طے ہو گئی کہ انہیں عالمی ایجنڈے اور پروگرام میں ایڈجسٹ کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے تو ان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ یہ مرحلہ وہ تھا جب افغانستان کے جہاد میں شریک ہونے والے عرب مجاہدین نے مشرقِ وسطی میں اسرائیل، بیت المقدس، تیل کی دولت کے استحصال، اور امریکی افواج کی موجودگی کے تناظر میں اپنا ایجنڈا طے کیا اور اس کی طرف پیشرفت کا پروگرام بنایا، اور ظاہر بات ہے کہ یہ بھی عالمی قوتوں کے مفاد اور ایجنڈے سے متصادم بات تھی۔

افغان طالبان اور عرب مجاہدین کا دائرۂ کار الگ الگ تھا، لیکن نظریاتی اہداف مشترک تھے، اس لیے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی، ہم آہنگی اور تعاون کی فضا موجود تھی۔ دوسری طرف یہ دونوں گروہ عالمی استعمار کے پروگرام اور ایجنڈے کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے تھے، کیونکہ مشرقِ وسطی میں اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا اور افغانستان میں ایک نظریاتی اسلامی حکومت کا راستہ روکنا عالمی استعمار کی اولین ترجیحات چلی آرہی ہیں، چنانچہ وہ جنگ جو اس سے پہلے افغان مجاہدین اور سوویت افواج کے درمیان تھی، اب وہی معرکہ افغان مجاہدین، عرب مجاہدین اور امریکی استعمار کے درمیان معرکہ آرائی میں تبدیل ہوگیا۔

ہمارے خیال میں اس مرحلے میں مجاہدین کی قیادت کو اپنی ترجیحات کے تعین میں حقیقت پسندانہ طور پر معروضی حالات کا لحاظ رکھنا چاہیے تھا جو نہیں رکھا جا سکا اور بازی الٹ گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر دونوں جنگیں بیک وقت لڑنے کی بجائے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو مستحکم کرنے کو ترجیح دی جاتی جس کے لیے ایک دستوری حکومت کا قیام، عالمی سطح پر حکمتِ عملی کے ساتھ رائے عامہ کی حمایت کا حصول، اور عالمِ اسلام کی دینی قوتوں کو نظریاتی اور ملی اہداف کے لیے مجتمع کرنا سب سے زیادہ ضروری امور تھے۔ مشرقِ وسطی کی جنگ کو اس وقت تک تھوڑا مؤخر کر لیا جاتا تو یہ ایک بہتر حکمتِ عملی ہوتی، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اور ہم اس امکان کو نظر انداز نہیں کرتے کہ ایسا نہ ہو سکنے کے پیچھے ان دونوں گروہوں کے مجاہدین کے انتہائی خلوص کے باوجود ان دیکھے ہاتھ حرکت میں رہے ہوں گے۔

نائن الیون کے المناک سانحہ نے اس صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی پیدا کر دی اور وہ کام جو ابھی کئی سالوں میں ہونے تھے، اس کے لیے مہینے اور ہفتے بھی طویل دکھائی دینے لگے۔ اس مرحلہ میں افغان طالبان اور عرب مجاہدین میں سے کسی ایک کو دوسرے کے لیے قربانی دینا تھی اور ہمارے خیال میں اگر یہ قربانی عرب مجاہدین دے دیتے تو افغان طالبان کو سنبھلنے اور عالمِ اسلام میں اپنے بہی خواہوں سے رابطہ و مشاورت کے ساتھ کوئی نہ کوئی راستہ نکالنے کا تھوڑا سا موقع مل جاتا۔ لیکن یہ بھی نہ ہوا اور اپنے عرب مجاہد بھائیوں کی خاطر افغان طالبان نے پورے خلوص کے ساتھ اپنی حکومت کی قربانی دے دی۔ یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر عرب مجاہدین افغان طالبان کے لیے قربانی دیتے تب بھی بالآخر نتیجہ یہی ہونا تھا اور جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ہونا طے پا چکا تھا۔ ہمیں اس سے اتفاق ہے لیکن ہمارا وجدان یہ کہتا ہے کہ اگر طالبان حکومت اور عالمِ اسلام میں ان کے بہی خواہوں کو باہمی مشاورت و رابطہ اور کوئی راستہ نکالنے کے لیے سنبھلنے کا تھوڑا سا وقت مل جاتا تو نتائج کی شدت کو کم کر نے کے امکانات بہرحال موجود تھے۔ بہرحال اب جو ہونا تھا ہو چکا اور اس کے بعد کے مراحل بتدریج طے ہو رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ افغان قوم کے موجودہ حالات زیادہ دیر تک قائم نہیں رہیں گے اور ان میں نئی کروٹ کے آثار اب افق پر واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس لیے افغان طالبان کو ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی نئی منصوبہ بندی اور صف بندی کرنا ہوگی اور دوست دشمن کی پہچان بلکہ نادان اور دانا دوستوں کے درمیان فرق کے لیے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض کرنا ہو گا۔

جہاں تک پاکستان کے ان دینی حلقوں کا تعلق ہے جنہوں نے جہادِ افغانستان میں اپنے افغان بھائیوں کی مدد کی اور ان کے ساتھ شریک کار ہوئے، مختلف مراحل کی ان غلطیوں اور کوتاہیوں کے باوجود ان کا یہ فیصلہ اور کردار ہمارے خیال میں بالکل درست تھا اور اس پر کسی قسم کی ندامت کے اظہار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ان کی قربانیوں سے عالمی سطح پر متحارب دو قوتوں میں سے ایک نے فائدہ اٹھایا اور اپنے مقاصد حاصل کیے، لیکن اگر وہ اس جنگ میں شریک نہ ہوتے اور خاموشی اختیار کر لیتے تو یہی فوائد دوسری عالمی قوت کے پلڑے میں چلے جاتے۔ مجاہدین کے عمل اور قربانیوں سے کسی ایک قوت کو تو فائدہ پہنچنا ہی تھا بلکہ جب بھی کوئی گروہ یا قوت اس قسم کے ماحول میں کوئی کردار ادا کرتی ہے تو لازمی طور پر کسی کو فائدہ پہنچتا ہے اور کسی کو نقصان بھی ہوتا ہے۔ اگر قومیں اپنے فیصلے اس بنیاد پر کرنے لگیں تو شاید ہی کوئی قوم یا طبقہ کسی معرکہ میں کوئی کردار ادا کر سکے۔ فیصلوں کی بنیاد اپنے اہداف پر ہوتی ہے، اس لیے افغان مجاہدین اور ان کے پاکستانی مددگاروں نے جو فیصلہ کیا تھا، عالمی سطح پر اس کا ایک نتیجہ منفی ہے کہ طاقت کا توازن نہیں رہا اور دو قوتوں کے آمنے سامنے رہنے سے کمزور قوتوں کو جو سہارا مل جاتا تھا وہ نہیں رہا اور اب ساری دنیا ایک ہی عالمی طاقت کے رحم و کرم پر ہے، لیکن اس کے فوائد بھی ہوئے ہیں جن کا تذکرہ ہم ابتدا میں کر چکے ہیں کہ اس سے نہ صرف مشرقی یورپ، وسطی ایشیا اور بالٹک ریاستوں کو خودمختاری ملی بلکہ جرمنی کو بھی اتحاد نصیب ہوا ہے۔

باقی رہی بات جہادِ افغانستان کے نظریاتی اہداف کی کہ افغانستان کی قومی خودمختاری بحال ہو اور وہاں ایک نظریاتی اسلامی حکومت قائم ہو تو تمام تر خرابیوں اور وقتی ناکامیوں کے باوجود اس کے امکانات کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ اور شاید افغان مجاہدین اپنے ہی ماضی کی ایک روایت دہرانے جا رہے ہیں، محمود غزنویؒ کو سومنات تک پہنچنے کے لیے سترہویں کامیاب حملے سے پہلے سولہ ناکام حملوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن کیا سومنات محمود غزنویؒ کی قدم بوسی سے انکار پر زیادہ دیر قائم رہ سکا تھا؟

   
2016ء سے
Flag Counter