دہشت گردی کے حوالہ سے عدالت عظمیٰ کا مستحسن فیصلہ

   
تاریخ اشاعت: 
اپریل ۲۰۱۹ء

’’اسلام آباد (جنگ رپورٹر) عدالت عظمیٰ میں دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت پانے والے ایک ملزم صفتین کی اپیل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دہشت گردی کی تعریف کے تعین کے لیے ۷ رکنی لارجر بینچ تشکیل دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل بینچ نے بدھ کے روز ملزم صفتین کی اپیل کی سماعت کی تو فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ۱۹۹۷ء سے آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ کون سا کیس دہشت گردی کے زمرہ میں آتا ہے اور کون سا نہیں آتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان کی سربراہی میں دہشت گردی کی تعریف کے لیے سات رکنی لارجر بینچ بنایا جا رہا ہے جو کہ دہشت گردی کی تعریف کا تعین کرے گا۔‘‘

یہ خبر بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم صحیح طور پر اندازہ کر سکیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے عالمی اور قومی سطح پر گزشتہ دو عشروں سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کی اخلاقی اور قانونی اساس کیا ہے اور اس کے جواز کی حیثیت کیا ہے؟

جب عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طبل بجایا گیا تھا اور تین درجن کے لگ بھگ ممالک یہ ڈھول بجاتے ہوئے میدان جنگ میں کود پڑے تھے تو یہ سوال عالمی سطح پر اٹھایا گیا تھا کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی کوئی تعریف طے کر لی جائے تاکہ غیر متعلقہ اور بے گناہ افراد و طبقات اس کا شکار نہ ہوں۔ کیونکہ بین الاقوامی برادری مظلوم اقوام کی آزادی کا حق تسلیم کرتی آرہی ہے اور معاندانہ ریاستی جبر کے خلاف جائز حد تک مزاحمت کے حق کو بھی روا سمجھا جاتا ہے، جبکہ مبینہ دہشت گردی کے خلاف حالیہ جنگ میں اس کا کوئی فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا اور یہ اتھارٹی صرف حملہ آور قوتوں کے لیے مخصوص کر دی گئی ہے کہ وہ جس فرد، طبقہ یا قوم کو چاہیں دہشت گرد قرار دے کر اس پر چڑھ دوڑیں اور اسے اپنا موقف، پوزیشن اور استحقاق بیان کرنے کے لیے کسی سطح پر کوئی فورم میسر نہ آ سکے۔ اس کی سادہ سی مثال فلسطینی عوام کی بے بسی کی صورت میں پیش کی جا سکتی ہے کہ ایک طرف اسرائیل اقوام متحدہ کے فیصلوں، عالمی رائے عامہ اور فلسطینی عوام کے مسلمہ حقوق کے علی الرغم اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کو مسلسل آگے بڑھا رہا ہے اور کسی بات کی سرے سے کوئی پروا نہیں کر رہا، جبکہ دوسری طرف فلسطینی عوام کی حریت کی جدوجہد کو بتدریج دہشت گردی کے لیبل سے معنون کر کے کارنر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جسے انسانی حقوق، قوموں کی آزادی اور ممالک کی خود مختاری کے علمبردار کم و بیش سبھی حلقوں کی بھرپور سپورٹ حاصل دکھائی دیتی ہے۔ اور یہ سب کچھ اسی ڈپلومیسی کا کرشمہ ہے کہ دہشت گردی کی کوئی تعریف اور حدود طے کیے بغیر اس کے خلاف جنگ کا بازار گرم کر دیا گیا ہے، چنانچہ جس طاقت ور ملک کا جی چاہتا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پرچم بلند کر کے لشکر کشی پر اتر آتا ہے۔

ہمارے ہاں کا قومی منظر بھی اس سے مختلف نہیں ہے اور اس کا صحیح طور پر ادراک کرنے کے لیے اب سے چار عشرے قبل کے قوی اخبارات اور آج کے قومی اخبارات پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے کہ ان دنوں جن لوگوں، جماعتوں اور شخصیات کو جہاد آزادی کا علمبردار قرار دیا جاتا تھا، ان کی بڑی بڑی خبریں اور انٹرویو نمایاں طور پر شائع ہوتے تھے، انہیں ملک کے مختلف حصوں میں استقبالیے دیے جاتے تھے، حتیٰ کہ سرکاری حلقوں میں بھی ان کی پذیرائی کا لیول کچھ کم نہ تھا، اب انہی لوگوں کو کن القاب سے یاد کیا جاتا ہے اور کون کون سے خطابات دے کر ان کی کردارکشی کی جا رہی ہے۔

۱۸۵۷ء کے بعد جب برطانوی استعمار نے اس خطہ کو اپنی باقاعدہ نوآبادی بنایا تو اس وقت ایک عوامی اصطلاح ’’وہابی‘‘ کے نام سے متعارف کرائی گئی تھی جو کسی کو قابل نفرت اور گردن زدنی ثابت کرنے کے لیے کافی سمجھی جاتی تھی، اور برطانوی پالیسی سازوں نے اسے اپنے مخالفین کے خلاف بے دریغ استعمال کیا تھا۔ اب اسی طرح کی ایک اصطلاح ’’دہشت گردی‘‘ کے نام سے عام کر دی گئی ہے جس کے تحت جس طاقت ور کا جس کمزور کے خلاف بس چلتا ہے وہ اس کا پرچم اٹھا کر کاروائی کر گزرتا ہے، جبکہ متاثر ہونے والوں کو شنوائی یا دادرسی کا کوئی فورم میسر نہیں آتا، اگر اٹھا کر غائب کر دیے جانے والے سینکڑوں افراد کو اس کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جائے تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہوگی۔

اس پس منظر میں عدالت عظمیٰ کو اگر اس کا خیال آ گیا ہے کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی کوئی تعریف طے کر دینی چاہیے تو ظاہر ہے کہ اس کا خیر مقدم ہی کیا جائے گا۔ بادشاہتوں کے دور میں اس قسم کی باتوں کی طرف بادشاہوں کو توجہ دلانے سے قبل ’’جان کی امان پاؤں تو عرض کروں‘‘ کی تمہید ضروری سمجھی جاتی تھی اور کسی حد تک مؤثر بھی رہتی تھی، مگر اب یہ بھی محض تکلف بن کر رہ گئی ہے۔ ہمیں بہرحال خوشی ہوئی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان دہشت گردی کی تعریف کرنے کے موڈ میں آگئے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں میں کچھ نہ کچھ توازن کا باعث تو بہرحال بن ہی جائے گی۔ ہم چیف جسٹس آف پاکستان کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ اس کی تکمیل کا جلد از جلد اہتمام کر کے قوم کو دہشت گردی کی اس دھند سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter