تحفظ ناموس رسالتؐ اور مسلم ممالک کے سفراء کا عزم

   
تاریخ اشاعت: 
اپریل ۲۰۱۷ء

روزنامہ انصاف لاہور میں ۲۵ مارچ ۲۰۱۷ء کو شائع ہونے والی خبر ملاحظہ فرمائیے:

’’وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کی زیر صدارت منعقد ہونے والے مسلم ممالک کے سفیروں کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مسلم امہ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لیے متحد ہے۔ عرب لیگ اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرلز کو بھی ریفرنس بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں آذربائیجان بوسنیا، قازقستان، لبنان، مالدیپ، قطر، صومالیہ، تاجکستان اور ترکی کے سفیروں نے شرکت کی۔ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے حوالہ سے ایک نکاتی ایجنڈے اور مقدس ہستیوں کے خلاف پراپیگنڈے کا مؤثر جواب دینے پر غور کیا گیا۔ سفیروں نے معاملہ کو اجاگر کرنے پر پاکستان کے وزیر داخلہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر چودھری نثار علی خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذہب اور مقدس ہستیوں کی بے حرمتی ناقابل برداشت ہے اور دنیا کا کوئی قانون کسی بھی مذہب کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ دنیا کو ’’اسلام فوبیا‘‘ سے نکالنے کے لیے مسلم امہ مل کر کام کرے، دنیا تسلیم کرے کہ مذہب کی بے حرمتی بھی دہشت گردی ہے، مغربی دنیا اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے دہرا معیار نہ اپنائے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مسلم امہ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لیے متحد ہے، وزارت خارجہ گستاخانہ مواد کو روکنے کے لیے اسٹریٹیجی بنائے گی جو تمام مسلم سفیروں کے حوالہ کی جائے گی۔ مسلم ممالک کے سفیر اپنی حکومتوں سے رابطہ کر کے رائے حاصل کریں گے۔ اور مسلم ممالک کی آراء پر مشتمل حکمت عملی طے کی جائے گی۔ اجلاس میں عرب لیگ اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرلز کو بھی ریفرنس بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ریفرنسز میں گستاخانہ مواد سے متعلق معاملہ اٹھایا جائے گا، اور مسلم ممالک سے آراء ملنے کے بعد معاملہ اقوام متحدہ میں بھی اٹھایا جائے گا۔‘‘

حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی عزت و ناموس کے تحفظ اور مذہب کے احترام کا مسئلہ ایک عرصہ سے عالمی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ مغرب نے جب سے مذہب کو اپنی معاشرتی اور سماجی زندگی سے لاتعلق کیا ہے اس فلسفہ کے علمبردار انسانی سماج سے مذہب اور مذہبی اقدار کے کردار کو لاتعلق کر دینے کے نعرہ کے ساتھ ساتھ مذہب، مذہبی اقدار اور شخصیات کی حرمت و ناموس کو بھی منفی سرگرمیوں کا ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک شاید یہ ضروری ہے کہ دنیا بھر یمں مذہب اور مذہبی اقدار کو انسانی سماج سے عملاً لا تعلق کرنے کے لیے مذہب اور مذہبی شخصیات کے خلاف بے زاری اور نفرت کی فضا قائم کی جائے جس کے لیے ایک عرصہ سے سیکولر حکومتوں، حلقوں، لابیوں اور دیگر عناصر کی طرف سے مختلف شعبوں میں سرگرمیاں مسلسل جاری ہیں۔ حالانکہ نفرت، توہین اور استخفاف تمام مذاہب اور قوانین کے نزدیک جرم ہے اور کم و بیش ہر ملک میں کسی بھی عام شہری کو توہین اور ہتک عزت سے بچانے کے لیے قوانین موجود ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔

اس سلسلہ میں سادہ سا سوال ہے کہ ایک عام شہری کی عزت کو تو دنیا کے ہر ملک میں قانونی تحفظ حاصل ہے اور ہتک عزت کے ساتھ ساتھ ازالۂ حیثیت عرفی کے معاملہ میں دنیا کے ہر ملک کا قانون اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور دادرسی کا حق دیتا ہے مگر مذہبی شخصیات اور دنیا کی مسلمہ دینی ہستیوں کے لیے یہ حق تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ بلکہ جن ممالک میں مذہب اور مقدس شخصیات کی حرمت و ناموس کے تحفظ کے قوانین موجود ہیں انہیں آزادیٔ رائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے کر ان سے ایسے قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ مغربی فلسفہ و دانش کی اصل الجھن یہ ہے کہ اگر معاشرہ میں مذہب، مذہبی شخصیات اور مذہبی اقدار و راویات کا احترام اور ان کی تعلیمات موجود ہیں تو لوگوں کو ان کی پیروی سے روکا نہیں جا سکتا اور نہ ہی سماج میں ان کے کردار کو غیر مؤثر بنایا جا سکتا ہے جو مغربی فکر و فلسفہ کا بنیادی مقصد ہے، چنانچہ اس کے لیے اخلاقیات کے تمام دائروں کو پامال کرتے ہوئے انسانی حقوق اور آزادیٔ رائے کے مصنوعی نعرہ کی آڑ میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام تک کی حرمت و عزت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کسی بھی شخصیت کی توہین و استخفاف نہ تو آزادیٔ رائے کا تقاضہ ہے اور نہ ہی اسے کسی بھی درجہ میں انسانی حقوق کی فہرست میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

معروضی صورتحال یہ ہے کہ عالم اسلام میں مغرب کے اس فلسفہ و فکر کو مسلسل اور مضبوط مزاحمت کا سامنا ہے کہ انسانی سماج کو مذہب کے اثرات اور کردار سے آزاد کرایا جائے۔ دنیا بھر کے مسلمان نہ صرف اسلام کے معاشرتی کردار پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ اپنے اپنے معاشروں میں اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کے خواہاں ہیں اور دنیائے اسلام میں سینکڑوں حلقے اس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ جوں جوں مسلم ممالک میں نفاذ شریعت کی تحریکات آگے بڑھ رہی ہیں مغرب اور اس کے ہمنوا سیکولر حلقوں کی جھنجھلاہٹ میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور انہیں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ انسانی سماج کو مذہبی روایات و احکام کی عملداری سے الگ کر دینے کا فلسفہ متوقع کامیابی حاصل نہیں کر پا رہا۔

اس پس منظر میں ہم پاکستان کے وزیرداخلہ کی صدارت میں چند مسلم ممالک کے سفراء کے اس اجلاس اور اس کے فیصلوں کا خیرمقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ مہم بتدریج آگے بڑھے گی اور مسلم ممالک کے سفراء معروضی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے تحفظ ناموس رسالتؐ اور مذہبی اقدار و روایات کے احترام کے سلسلہ میں مسلم دنیا کے جذبات و احساسات کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور مغرب کو اس کے دوہرے معیار کا احساس دلانے کے لیے مؤثر کردار ادا کریں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter