مولانا سید محمد ایوب جان بنوری سے ملاقات

   
تاریخ اشاعت: 
۱۴ دسمبر ۱۹۷۳ء

جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سرحد کے امیر شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمد ایوب جان بنوری دامت برکاتہم ۲۱ رمضان المبارک ۱۳۳۰ھ کو پشاور میں پیدا ہوئے، آپ کے والد محترم کا اسم گرامی مولانا سید فضل خانؒ ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور دورہ حدیث دارالعلوم دیوبند میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمدؒ مدنی سے ۱۳۵۲ھ میں کیا۔ طالب علمی کے دور میں دارالعلوم میں طلبہ کی انجمن اصلاح الکلام کے ناظم رہے جبکہ شیخ الحدیث مولانا عبد الحق مدظلہ ایم این اے اکوڑہ خٹک اس انجمن کے صدر تھے۔ دورہ حدیث سے فراغت کے بعد پشاور میں ہی درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم پر کام کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ کو صوبہ سرحد جمعیۃ علماء ہند کا ناظم اعلیٰ چن لیا گیا اور آپ مسلسل سات برس تک اس عہدہ پر کام کرتے رہے۔ حضرت مولانا سید گل بادشاہؒ صاحب جب دورہ سے فارغ ہو کر آئے تو ان کی حسن کارکردگی اور اخلاص کے پیش نظر آپ نے ہی ان کا نام صوبہ سرحد جمعیۃ کی صدارت کے لیے پیش کیا جو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ حضرت مولانا گل بادشاہؒ کی شرط پر آپ ناظم اعلیٰ کے عہدہ پر کچھ عرصہ رہے اس کے بعد جماعتی کارکردگی سے مطمئن ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔ مولانا ہر سال شعبان میں شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ کی خدمت میں کچھ عرصہ کے لیے جاتے رہے۔

مولانا سید محمد ایوب جان بنوری نے آزادی کی تحریک میں جمعیۃ کے پلیٹ فارم پر نمایاں جدوجہد کی۔ ۱۳۷۰ھ میں انہوں نے پشاور میں دارالعلوم سرحد کی بنیاد رکھی جس کی تقریب میں شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر الدین غورغشتیؒ اور مجاہد جلیل حضرت مولانا عزیر گل مدظلہ بھی شریک ہوئے۔ ناظم اعلیٰ کے عہدہ سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی جمعیۃ سے مسلسل وابستہ رہے اور مجلس شوریٰ کے بدستور رکن رہے۔ جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ بھی تشکیل نو کے بعد سے مسلسل وابستہ اور رکن شورٰی ہیں۔ حضرت مولانا سید گل بادشاہؒ کی وفات کے بعد احباب کے اصرار اور اکابر کے ارشاد کے باعث دارالعلوم سرحد کے اہتمام اور دورۂ حدیث پڑھانے کی ذمہ داریوں کے باوجود جمعیۃ علماء اسلام سرحد کی امارت قبول فرما لی اور اب صوبہ میں جمعیۃ کی تنظیمی و سیاسی کار گزاری کی وہ بذات خود نگرانی فرماتے ہیں۔ ۲۲ سال سے دارالعلوم سرحد میں آپ بخاری شریف خود پڑھا رہے ہیں اور اس طرح آپ کے بالواسطہ اور بلاواسطہ شاگردوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے۔

گزشتہ دنوں آپ لاہور میں جمعیۃ کے مرکزی اجلاس کے موقع پر تشریف لائے تو ایک ملاقات میں راقم الحروف نے ان سے صوبہ سرحد کے متعلق لوگوں میں پائے جانے والے شبہات کے بارے میں کچھ سوالات کیے ۔آپ نے پورے اطمینان و اعتماد کے ساتھ جو جوابات لکھوائے ان جوابات کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

مولانا نے فرمایا کہ NAP (نیشنل عوامی پارٹی) کے ساتھ جمعیۃ کا معاہدہ ۵ نکات کی بنیاد پر طے پایا تھا اور دس ماہ کے مختصر دور وزارت میں اس معاہدہ پر عمل کرنے کی مخلصانہ کوششوں میں نیپ نے جمعیۃ کے ساتھ پورا تعاون کیا۔ مفتی صاحب نے جو اصلاحات نافذ کیں نیپ نے ان کو قبول کیا اور علماء اور قانون دانوں کے کمیشن میں بھی نیپ تعاون کرتی رہی، مگر ابھی یہ کمیشن رپورٹ تیار کر رہا تھا کہ مرکز کے ناروا رویہ کے خلاف حکومت کو مستعفی ہونا پڑا۔

مولانا نے بتایا کہ سرحد میں پاکستان سے علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں ہے، ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان میں رہیں گے۔ صرف صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے پختونستان رکھنے کا بعض لوگ ذکر کرتے ہیں جس کا مطلب ہرگز ملک سے علیحدگی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ایک دور میں مسلم لیگ کے صوبائی صدر ثمین جان خان نے بھی کہا تھا کہ سرحد کا نام پختونستان رکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔

مولانا بنوری نے فرمایا کہ مولانا مفتی محمودؒ نے دورِ وزارت میں اسلام اور ملک کی بہترین خدمت کی ہے۔ اگرچہ مرکزی حکومت نے ان کے کام میں مسلسل رکاوٹیں ڈالیں مگر مفتی صاحب ثابت قدمی سے اپنے موقف پر قائم رہے اور انہوں نے اسلامی اصلاحات اور اسلامی قانون کی تیاری کے سلسلے میں کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا۔

مولانا نے بتایا کہ میں جنوبی اضلاع کا تنظیمی دورہ کر چکا ہوں، جلد ہی باقی ماندہ حصہ کا دورہ کر کے تنظیمی صورتحال کا جائزہ لوں گا۔ سرحد میں جمعیۃ کے کارکنوں نے وسائل کے فقدان کے باوجود بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کو شکست دی ہے اور آئندہ بھی جمعیۃ سیاسی میدان میں وسائل نہ ہوتے ہوئے بھی مضبوط کردار ادا کرے گی۔

مولانا محمد ایوب بنوری نے مولانا ہزاروی کے رویہ پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ انہوں نے آخری عمر میں بہت غلط قدم اٹھایا ہے۔ جمعیۃ کے کارکن اصول کی حمایت کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مولانا ہزاروی بے حد کوشش کے باوجود جمعیۃ کے کارکنوں کو اپنے ساتھ نہیں لے جا سکے۔

آخر میں مولانا نے ملک بھر میں جمعیۃ کے کارکنوں کو پیغام دیا کہ وہ دل جمعی، اعتماد اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنا مشن جاری رکھیں، ان شاء اللہ دشمن کا ہر حربہ ناکام ہوگا اور جمعیۃ علماء اسلام اپنے عظیم اکابر کی تابندہ روایات کا پرچم ہمیشہ سربلند رکھے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter