بھٹو صاحب کا ’’اعلان بلوچستان‘‘

   
تاریخ : 
۱۹ اپریل ۱۹۷۴ء

وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۳ اپریل کو بالآخر وہ اعلان کر ہی دیا جس کا قوم کو گزشتہ پون سال سے انتظار کرایا جا رہا تھا اور جس کے بارے میں وسیع پراپیگنڈا کے ذریعہ اس قدر سسپنس پیدا کر دیا گیا تھا کہ (ملک کے سنجیدہ سیاسی حلقوں کے سوا) اعلانِ تاشقند کی طرح اعلانِ بلوچستان بھی عوام کی توجہات کا مرکز اور اخبارات و رسائل میں موضوع بحث بن چکا تھا۔ اور خود وزیراعظم نے اس کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس اعلان سے تمام حلقے مطمئن ہو جائیں گے۔ لیکن اس قدر زور و شور اور جوش و خروش کے بعد جب دو روزہ بلوچستان سرکاری کانفرنس کے اختتام پر یہ ’’اعلانِ بلوچستان‘‘ ظہور پذیر ہوا تو ہمارے اس خدشہ نے حقیقت کا روپ دھار لیا جس کا اظہار ہم گزشتہ شمارہ میں کر چکے ہیں کہ

’’اب دیکھیے وزیراعظم کا ’’اعلانِ بلوچستان‘‘ بلوچ عوام کو امن و انصاف کی نوید دیتا ہے یا بھٹو صاحب کی مخصوص سیاسی حکمت عملی کا نیا خوشنما لیبل ثابت ہوتا ہے۔‘‘

بھٹو صاحب نے اس اعلانِ بلوچستان میں جو کچھ فرمایا، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

  1. بلوچستان میں فوجی کارروائی ہو رہی ہے اور پہلی بار سرکاری طور پر اس کا اعتراف کیا گیا ہے۔
  2. سول انتظامیہ جب تک تشفی کے ساتھ ’’ترقیاتی کاموں‘‘ کی ذمہ داریاں سنبھال نہیں لیتی، فوج یہ خدمات سرانجام دیتی رہے گی۔ البتہ ۱۵ مئی سے سول انتظامیہ کے لیے کی جانے والی فوجی کاروائیاں بند کر دی جائیں گی۔
  3. جو لوگ سنگین کاروائیوں میں ملوث نہیں ان کو رہا کر دیا جائے گا اور جو گھروں سے باہر چلے گئے ہیں ان کو عام معافی دے دی جائے گی۔
  4. بلوچستان میں سرداریوں اور قدامت پسند روایات کی خاصی ’’اصلاح‘‘ ہو چکی ہے اور اس طرح عوام کی فلاح و بہبود کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا گیا ہے۔

بھٹو صاحب کے اس اعلان کو بغور ملاحظہ کیا جائے تو الفاظ کے گورکھ دھندے اور بھٹو صاحب کی سیاسی ذہانت کے مظاہرہ کے سوا اس میں کچھ بھی نہیں ملتا۔ اس اعلان میں بڑی چابکدستی سے بلوچستان کی اصل صورتحال کو پس پردہ رکھ کر فوجی کاروائی کو جواز مہیا کرنے کے لیے بوگس اور بے بنیاد دلائل کو حسین الفاظ کا جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح بلوچستان کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ اور اس نازک مسئلہ کے الجھے رہنے کی صورت میں جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، ان کا راستہ بند ہو جائے گا؟

بھٹو صاحب کی سیاسی زیرکی اور چابکدستی میں کلام نہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ اس خصوصیت کو ہر مسئلہ کا حل سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اور بدقسمتی سے اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر بھٹو صاحب اپنی تمام تر خصوصیات کے باوجود عقل کل کے تصوراتی جال کا شکار ہونے سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکے۔ ورنہ مسائل کا حل کچھ مشکل نہیں، خصوصاً بلوچستان کا مسئلہ تو بالکل واضح ہے اور اسی قدر اس کا حل بھی آسان ہے۔ مگر اس کے لیے بھٹو صاحب کو ’’عقل کل‘‘ کے خوشنما خول اور پارٹی بازی کی سیاست کے دائرہ سے کچھ دیر کے لیے باہر تشریف لانا ہوگا۔

بلوچستان کا مسئلہ یہ نہیں جسے بھٹو صاحب نے اعلانِ بلوچستان میں باور کرانے کی ناکام کوشش فرمائی ہے۔ بلکہ اس مظلوم صوبہ کے عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں ملک کے دوسرے صوبوں کے عوام کی طرح آزادی کے ساتھ اپنی صوبائی قیادت منتخب کی تھی، بھٹو صاحب نے انہیں اس منتخب قیادت سے محروم کر دیا ہے، ان کے نمائندوں کو جیل میں ڈال دیا ہے، اور سنگین و گولی کے زور سے انہیں ۱۹۷۰ء کے عوامی فیصلہ سے انحراف کو تسلیم کر لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ لیکن وہ مظلوم عوام اپنے آئینی و جمہوری حق سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے یقیناً بھٹو صاحب کو یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا اور بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق لوٹانے ہوں گے۔ ورنہ آئینی، جمہوری اور انسانی حقوق کے جبری تعطل کے فطری ردعمل کی ذمہ داری بھٹو صاحب پر ہوگی۔

ان گزارشات کے بعد ملک کے سیاسی حلقوں سے کی گئی اس گزارش کا ذکر نامناسب نہ ہوگا جو ہم نے ۱۵ مارچ کے شمارہ کی ادارتی معروضات کے اختتام پر کی تھی۔ وہ گزارش یہ تھی:

’’اس موقع پر ہم بھٹو صاحب سے کچھ عرض کرنا تو لاحاصل سمجھتے ہیں، البتہ ملک کے سنجیدہ سیاسی حلقوں سے یہ ضرور گزارش کریں گے کہ وہ مسئلہ بلوچستان کی نزاکت کا احساس کریں اور اس کے جمہوری اور سیاسی حل کو قدم بہ قدم پیچھے دھکیلنے والے ہاتھ کو اس وقت سے پہلے پکڑ لیں جب یہ سیاسی عمل بھی ہماری دسترس سے باہر ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ وہ دن ہمیں نہ دکھائیں، آمین یا رب العالمین۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter