غریبوں کے قرضوں پر تین گنا سود

   
مئی ۲۰۱۲ء

روزنامہ اسلام لاہور ۲۴ اپریل کی خبر کے مطابق جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اگلے بجٹ میں غریب عوام کے لیے رہائشی سہولیات اور بینکوں سے حاصل کردہ قرضوں پر سود کی معافی کی سکیم کا اعلان کرے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت غریب عوام کو ریلیف دینے کی بجائے انہیں بے گھر کر رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سیاستدانوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے اربوں روپے کے قرضے معاف کر دیے گئے ہیں لیکن غریب عوام کے دو کمرے کے مکان یا فلیٹ کے لیے حاصل کردہ قرضوں پر تین گنا سے زیادہ سود وصول کیا جا رہا ہے اور ان املاک کو نیلام کیا جا رہا ہے۔ بیان کے مطابق ۱۹۹۶ء سے اب تک ۲۰ ہزار افراد کے ۲۰۰ ارب روپے کے قرضے معاف کیے جا چکے ہیں مگر کراچی میں غریب لوگوں کے لاکھوں روپے کے قرضوں پر ڈبل سے زیادہ سود وصول کیا جا رہا ہے اور عدم ادائیگی پر ان کے فلیٹ نیلام کیے جا رہے ہیں۔ مولانا عبد الغفور حیدری نے اپنے اس بیان میں ایک اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے جو نہ صرف حکومت بلکہ ملک کے تمام محب وطن حلقوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

پاکستان کو ایک اسلامی رفاہی ریاست کے نام پر وجود میں لایا گیا تھا اور بعض بڑے سیاستدان اب بھی رفاہی ریاست اور خلافت راشدہ کا راگ الاپنے میں مصروف ہیں لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ قومی خزانہ اور اس کی ساری سہولیات امیر خاندانوں اور طبقات کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئی ہیں جبکہ غریب عوام اپنی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں اور ان کے لیے جسم و جان کا رشتہ بر قرار رکھنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ قومی وسائل کی غلط تقسیم، روز افزوں مہنگائی، کرپشن اور نادار طبقات و افراد کے ساتھ ظالمانہ سلوک کے تسلسل کے باعث خودکشیاں بڑھ رہی ہیں اور لاقانونیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس کا اصل حل تو پورے معاشی ڈھانچے کی از سر نو تشکیل اور خلافت راشدہ کے رفاہی سسٹم کی پیروی ہے لیکن اگر یہ خدانخواستہ ہمارے حکمرانوں کے مقدر میں نہیں ہے تو کم از کم غریب عوام کو یہ تھوڑی بہت سہولت ضرور ملنی چاہیے جس کا تذکرہ مولانا حیدری نے کیا ہے تاکہ غریب آدمی سانس تو قدرے آسانی سے لے سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter