متحدہ جمہوری محاذ کی دو سالہ جدوجہد

   
تاریخ : 
۶ جون ۱۹۷۵ء

متحدہ جمہوری محاذ کے باعزم رہنما ہدیۂ تبریک کے مستحق ہیں کہ اس دور میں بھی جمہوری اقدار کی سربلندی اور ملکی سالمیت کے تحفظ کی جدوجہد میں مصروف ہیں جبکہ حکمران پارٹی اپنے اقتدار کو مضبوط اور شخصی آمریت کو مستحکم کرنے کی خاطر تمام سیاسی، اخلاقی اور جمہوری حدود و قیود کو خیرباد کہہ چکی ہے۔ محب وطن سیاسی رہنماؤں کے خلاف سرکاری ذرائع ابلاغ کا مکروہ پراپیگنڈا اور پولیس و فیڈرل فورس کے وحشیانہ مظالم ہٹلر اور مسولینی کی روح کو بھی شرما رہے ہیں۔

آج سے دو سال قبل جب متحدہ جمہوری محاذ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تو جمہوری اقدار کی بحالی اور ملکی سالمیت کے تحفظ کو اس کے پروگرام میں بنیادی حیثیت دی گئی تھی۔ دو سال کا عرصہ گواہ ہے کہ اس مقدس مہم کی راہ میں موجودہ حکومت نے ہر ممکن رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی مگر محاذ کے باہمت قائدین کے قدم رکنے کی بجائے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور یہ متحدہ جمہوری محاذ کی مسلسل مساعی کا نتیجہ ہے کہ آج حکومت کے یکطرفہ پروپیگنڈا کے باوجود عوام کی غالب اکثریت اس کے جمہوریت کش اقدامات اور آئین و قانون کے خلاف کارروائیوں کو محسوس کرنے لگی ہے۔ اور دو سال قبل کی بہ نسبت حکومت کے لیے آج عوام کو دھوکہ دینا زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔

  • لیاقت باغ راولپنڈی میں محاذ کے جلسے پر غنڈہ گردی اور بربریت کے مظاہرے،
  • محاذ کے رہنماؤں کی ٹرین پر گوجرانوالہ، وزیرآباد اور دوسرے ریلوے اسٹیشنوں پر حملے،
  • قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود مدظلہ اور اپوزیشن لیڈر خان عبد الولی خان پر قاتلانہ حملوں،
  • عطاء اللہ مینگل، خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی اور ولی خان اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاریوں،
  • تحریکِ بحالی جمہوریت کے ’’عوامی قیدیوں‘‘ پر وحشیانہ مظالم،
  • دفعہ ۱۴۴ اور ڈی پی آر کے اندھا دھند استعمال،
  • سرکاری ذرائع ابلاغ ٹی وی، ریڈیو و اخبارات کے ذریعے اپوزیشن کے خلاف مذموم پراپیگنڈا،
  • فیڈرل سکیورٹی فورس کی عوامی کارستانیوں،
  • قومی اسمبلیوں میں حزب اختلاف کی آواز کا گلا گھونٹ کر اسے بائیکاٹ پر مجبور کرنے اور پھر استعفیٰ کے مطالبے

سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ حکمران پارٹی ہر قیمت پر اپوزیشن کو راہ سے ہٹا دینا چاہتی ہے اور اس کی خواہش یہ محسوس ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپوزیشن جدوجہد کی راہ سے ہٹ جائے یا حکمران پارٹی کے حربوں سے زچ ہو کر اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائے تاکہ دھاندلی اور دھونس کے ذریعے کچھ اور مرضی کے افراد کو اسمبلی میں لا کر ’’ڈمی اپوزیشن‘‘ تشکیل دی جا سکے۔ لیکن محاذ کے رہنماؤں نے کمال تدبر اور فراست سے کام لے کر حکومت کے ان حربوں کو ناکام بنا دیا ہے اور اسمبلی میں وزیراعظم کی تقریر ان کی بوکھلاہٹ کا کھلا ثبوت ہے۔

حال ہی میں آزاد کشمیر کے سلسلہ میں بھی حکمران پارٹی نے خانہ جنگی کی بنیاد رکھنے اور متحدہ جمہوری محاذ کی بیخ کنی کا ’’جواز‘‘ تلاش کرنے کی سعیٔ لاچار کی۔ سردار محمد عبد القیوم خان کی برطرفی، مسلم کانفرنس کے کارکنوں کے خلاف غنڈہ گردی، فیڈرل فورس کا آزادکشمیر آپریشن، متحدہ جمہوری محاذ کے رہنماؤں کے دورۂ آزاد کشمیر کی صورت میں مجوزہ اقدامات اور سردار عبد القیوم کے آزاد کشمیر میں داخلہ پر پابندی۔ یہ تمام کارروائیاں ایک ہی محور کے گرد گھومتی رہیں لیکن محاذ کے رہنماؤں کا تدبر اور سردار محمدعبد القیوم خان کا حوصلہ آڑے آیا اور بھٹو صاحب کی محاذ کو ’’اڑنگے پر لا کر پٹخنی دینے‘‘ کی خواہش ناتمام رہی۔

اور اب جبکہ ’’بلی تھیلے سے باہر‘‘ آچکی ہے، بھٹو صاحب قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے ارکان اسمبلی سے مستعفی ہونے اور ان کی سیٹوں پر ضمنی انتخاب کرانے کا اعلان فرما کر اپنے عزائم کو بے نقاب کر چکے ہیں، اور پی پی پی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مبشر حسن کی طرف سے اپوزیشن ارکان اسمبلی کے خلاف غنڈہ گردی کے مظاہرہ کا باضابطہ اعلان سامنے آچکا ہے، ملکی سالمیت او رجمہوری اقدار متحدہ محاذ کو ایک اور مہم کا راستہ دکھا رہی ہیں۔ یہ مہم سخت بھی ہے اور قدم قدم پر ایثار و قربانی کی متقاضی بھی۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ نے اس نئی مہم کا اعلان ان الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے:

’’حکومتی جماعت نے ہمارے خلاف مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اب ہم بھی حکومت کے خلاف مہم چلائیں گے اور اسے یا تو جمہوریت بحال کرنا پڑے گی یا اقتدار سے الگ ہونا پڑے گا۔‘‘

حکمران پارٹی کی دھاندلیوں اور غیر آئینی کارروائیوں کے خلاف جمہوری قوتوں کی یہ مہم ان شاء اللہ آخری اور فیصلہ کن ثابت ہوگی اور یقیناً حکمران پارٹی کو جمہوری اقدار، آئین کے تقدس اور ملکی سالمیت کے تقاضوں کے سامنے سرنڈر ہونا پڑے گا۔ متحدہ جمہوری محاذ نے اس مہم کے باضابطہ آغاز کے لیے ۱۴ و ۱۵ جون بروز ہفتہ و اتوار لاہور میں محاذ میں شامل تمام جماعتوں کے کارکنوں کا قومی کنونشن طلب کیا ہے جس میں موجودہ سیاسی صورتحال پر غور و خوض کے بعد آئندہ لائحۂ عمل کا اعلان کیا جائے گا اور عوام کے سیاسی، معاشی اور آئینی حقوق کی بحالی کی فیصلہ کن مہم کا باقاعدہ آغاز ہوگا۔

قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ کی ہدایت پر جمعیۃ کی مرکزی مجلس عمومی کے تمام ارکان کو متحدہ جمہوری محاذ کے قومی کنونشن میں شرکت کے لیے باضابطہ دعوت نامے جاری کر دیے گئے ہیں اور کنونشن کے اختتام پر اس کے فیصلوں کی توثیق کے لیے جمعیۃ کی مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ حضرت مفتی صاحب نے مجلس عمومی کے تمام ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ ۱۴ و ۱۵ جون کے ساتھ ۱۶ جون کا دن بھی فارغ رکھیں تاکہ ضروری جماعتی امور کی تکمیل بھی اسی موقع پر ہو جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter