’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟‘‘

   
تاریخ : 
۲۹ نومبر ۲۰۰۷ء

نیویارک سے شائع ہونے والے اردو جریدے ہفت روزہ ’’نیویارک عوام‘‘ نے ستمبر ۲۰۰۷ء کے پہلے شمارے میں امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل ارج کیسی کی ایک تقریر کی رپورٹ شائع کی تھی جس میں انہوں نے نیشنل گارڈ ایسوسی ایشن کی ایک سو انتیسویں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’انتہا پسند مسلمانوں کے خلاف شروع کی گئی نظریاتی جنگ کئی عشروں تک جاری رہ سکتی ہے اور یہ جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک اعتدال پسند مسلمان انتہا پسند مسلمانوں پر بالادستی حاصل نہ کر لیں۔‘‘

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے انتہاپسند مسلمانوں پر اعتدال پسند مسلمانوں کو غلبہ دلانے کی یہ جنگ روز بروز واضح ہوتی جا رہی ہے اور بہت سے مسلم ممالک کے مقتدر حلقے بھی اس جنگ میں انتہا پسندوں کو شکست دینے کے لیے پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی جن اعتدال پسند مسلمانوں کو مسلم معاشروں میں غلبہ دلانے کے لیے یہ جنگ لڑ رہے ہیں ان کا حدود اربعہ کیا ہے؟ اور معتدل مسلمانوں کا وہ کون سا طبقہ ہے جس کے غلبے کے بغیر امریکی فوج کے سربراہ کو دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں کامیابی مشکوک دکھائی دے رہی ہے؟

دہلی سے شائع ہونے والے جریدے سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نے ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں ایک رپورٹ کے ذریعے اس صورتحال کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور امریکہ کے تھنک ٹینک ’’رینڈ کارپوریشن‘‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی رہنماؤں کے نزدیک اعتدال پسند مسلمانوں سے کیا مراد ہے اور وہ کس طرح کے مسلمانوں کو مسلم دنیا میں اقتدار اور بالادستی دلانے کے لیے ساری تگ و دو کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں اعتدال پسند مسلمان کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ:

  1. جمہوریت اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کو قبول کرتا ہو،
  2. سیاسی، دینی اور ثقافتی تنوع کا احترام کرتا ہو،
  3. غیر طائفی بنیادوں پر قائم قوانین کو تشریعی مصدر تسلیم کرتا ہو،
  4. دہشت گردی اور تشدد کی ہر شکل کا مقابلہ کرتا ہو۔

بظاہر یہ چاروں باتیں بہت خوبصورت اور بے ضرر دکھائی دیتی ہیں لیکن قدرے سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ ان کا جائزہ لیا جائے تو اس اعتدال پسندی کا اصل نقشہ واضح ہوتا نظر آتا ہے جسے قبول کرانے کے لیے مسلمانوں پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور خوف و لالچ کا ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔

  1. جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے، مسلمانوں کو اس بات سے اختلاف نہیں ہے کہ کسی بھی ملک میں حکومت کا قیام عوام کی مرضی سے ہونا چاہیے اور عوام کا اعتماد ہی کسی حکومت کے وجود اور بقا کے لیے واحد سند جواز ہے۔ لیکن عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت قانون سازی میں قرآن و سنت کے دائرے کی پابند ہے اور شریعت اسلامیہ کے اصولوں کو کراس کر کے کسی قانون سازی کی مجاز نہیں ہے۔ مغرب کے نزدیک یہ بات پارلیمنٹ کی خودمختاری (ساورنٹی) کے منافی ہے اور وہ مسلمانوں کو اس سے دستبردار کرانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے، جبکہ قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔

    عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق سے مراد انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کا وہ اعلامیہ ہے جس کی پابندی کی تمام دنیا کو تلقین کی جا رہی ہے۔ جبکہ اس تیس نکاتی اعلامیہ کی متعدد دفعات قرآن و سنت کے صریح احکام سے متصادم ہیں اور ان احکام شرعیہ کی مکمل نفی کیے بغیر انسانی حقوق کے اس اعلامیہ کو من و عن قبول نہیں کیا جا سکتا۔

  2. سیاسی، دینی اور ثقافتی تنوع کے احترام کا مطلب یہ ہے کہ مختلف ثقافتوں، سیاسی گروہوں اور مذاہب کے ماننے والوں کے بارے میں تمام امور میں یکسانیت پیدا کی جائے اور کسی سے امتیازی معاملہ نہ ہو۔ جبکہ ایک اسلامی ریاست میں اسلام کو بطور مذہب اسی طرح برتری حاصل ہوتی ہے جس طرح مغربی ممالک میں جمہوریت اور مغربی ثقافت کو بالادستی حاصل ہے، اور کوئی مغربی ملک اپنے سیاسی فلسفے اور ثقافت سے اختلاف رکھنے والوں کو برابر کے حقوق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی مغربی ملک میں رہنے والے مسلمان اپنے خاندانی نظام کے مسائل مثلاً نکاح، طلاق اور وراثت وغیرہ میں اپنے مذہب اور ثقافت کے احکام و روایات کے مطابق عمل کرنا چاہیں تو انہیں وہاں اس کے لیے قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے اور وہ مغرب کے خاندانی نظام کے قوانین سے اختلاف رکھنے کے باوجود انہی پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ یہ برتری اور بالادستی جو مغربی ممالک میں جمہوریت کے فلسفے اور مغربی ثقافت کو حاصل ہے، ایک اسلامی ریاست میں اسلام کے لیے اسی بالادستی کا اہتمام مسلمانوں کا بھی ایک فطری اور جائز حق ہے۔ مگر مغرب اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اور جو برتری و بالادستی اس نے اپنے ممالک میں اپنے سیاسی نظام اور ثقافتی روایات کے لیے عملاً قائم کر رکھی ہے، وہ مسلم ممالک میں اسلام کے لیے اس حق کو قبول بلکہ برداشت تک نہیں کر رہا۔
  3. غیر طائفی بنیادوں پر قائم قوانین کو قانون سازی کا مصدر تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے عقیدے اور مذہب کی بنیاد پر کوئی قانون سازی نہیں کر سکتے اور انہیں اپنے عقائد و فلسفے اور اسلامی شریعت کے حوالے سے اپنے ہی ملک میں کوئی قانون بنانے کا حق حاصل نہیں ہے۔
  4. جبکہ دہشت گردی کی ہر شکل سے مراد یہ ہے کہ مغرب جس عمل کو دہشت گردی اور جس گروہ کو دہشت گرد قرار دے، بلا چون و چرا تسلیم کر لیا جائے اور تمام توپوں کا رخ اس طرف موڑ دیا جائے۔ حالانکہ اب تک تمام تر کوششوں کے باوجود ’’دہشت گردی‘‘ کی کوئی ایسی تعریف عالمی سطح پر طے نہیں کی جا سکی جس کی بنیاد پر دہشت گردی اور آزادی کی جنگ میں فرق کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ سے اس کا کئی بار مطالبہ ہو چکا ہے کہ دہشت گردی کی کوئی مسلمہ تعریف طے کی جائے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ بلکہ بڑی طاقتوں کی طرف سے عمدًا ایسا کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی واضح مفہوم اور متعین تعریف طے کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو طول دیا جائے اور اس کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ اتحادی ممالک اس کی آڑ میں جس کو چاہیں دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال کر سکیں۔

اعتدال پسند مسلمان کی تعریف میں شامل ان چار نکات کی یہ وضاحت ہم نے اپنی طرف سے نہیں کی بلکہ رینڈ کارپوریشن کی مذکورہ رپورٹ میں کسی مسلمان سے تفتیش کے لیے جو سوالنامہ شامل کیا گیا ہے وہ بھی یہی نقشہ پیش کرتا ہے۔ اس سوالنامے کے صرف چند سوالات پر نظر ڈال لیجئے:

  • کیا تم عالمی پیمانے پر مسلمہ انسانی حقوق کی تائید کرتے ہو؟
  • کیا تم دین کی تبدیلی کو فرد کا حق مانتے ہو؟
  • کیا تمہارا ایمان ہے کہ مسلم حکومت کو اہل وطن پر اسلامی شریعت کی دفعات نافذ کرنی چاہئیں؟
  • کیا تم سمجھتے ہو کہ مسلم اکثریتی ملک میں مذہبی اقلیت کے کسی فرد کو اعلیٰ ترین سیاسی منصب حاصل کرنے کا حق ہے؟
  • کیا غیر طائفی بنیادوں پر مبنی قانونی نظام کو قبول کرنا تمہارے لیے ممکن ہے؟ وغیرہ وغیرہ

اعتدال پسند مسلمان کی تعریف میں شامل ان شرائط اور اس سوالنامہ کے مذکورہ سوالات کا مقصد اس کے سوا کیا ہے کہ ’’اعتدال پسند اسلام‘‘ کا اصل ایجنڈا یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان قرآن و سنت کے ان احکام و قوانین سے دستبرداری اختیار کر لیں جن کا تعلق معاشرت، قانون، سیاست اور ریاست کے ساتھ ہے۔ اور اس طرح دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ دراصل اسلام کے معاشرتی، حکومتی اور ریاستی کردار کے خلاف جنگ ہے جسے اعتدال پسندی کے فروغ کے خوشنما عنوان کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ مذکورہ رپورٹ میں اعتدال پسند مسلمان کے طور پر جن لوگوں کی مثال دی گئی ہے ان میں بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین بھی شامل ہے جسے اس کا اپنا ملک تو کجا بھارت کی کوئی ریاست بھی تحفظ اور پناہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگر امریکی جنرل ارج کیسی اعتدال پسند مسلمانوں کو اسی طرح کی بالادستی دلانا چاہتے ہیں تو ان کی خدمت میں ان کے پسندیدہ اعتدال پسند مسلمانوں کی طرف سے یہ شعر ہی پیش کیا جا سکتا ہے:

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو؟
   
2016ء سے
Flag Counter