خوست کے محاذ پر روسی افواج کی مزاحمت ۔ دورۂ افغانستان کی روداد

   
تاریخ اشاعت: 
۱۵ اپریل ۱۹۸۸ء

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ایک وفد کے ہمراہ راقم الحروف کو مارچ ۱۹۸۸ء کے تیسرے ہفتہ کے دوران افغانستان کے محاذ جنگ پر جانے کا موقع ملا۔ وفد میں جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سرحد کے سیکرٹری جنرل مولانا حمید اللہ جان، صوبائی سالار قاری حضرت گل شاکر، گوجرانوالہ ڈویژن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام محمد، ضلع گوجرانوالہ کے امیر مولانا عبد الرؤف فاروقی، ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کے مدیر سید احمد حسین زید، جامعہ حنفیہ قاسمیہ نارووال کے خطیب مولانا محمد یحییٰ محسن، مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنما چوہدری غلام نبی اور ضلع گجرات سے میرے ایک عزیز عبد الرشید شامل تھے۔

یہ دورہ حرکۃ المجاہدین کے امیر مولانا فضل الرحمان خلیل کی دعوت پر کیا گیا اور وہ بھی دورہ میں ہمارے ساتھ شریک رہے۔ اس دورہ کا مقصد محاذ جنگ پر روسی جارحیت کے خلاف برسرپیکار مجاہدین کے ساتھ یکجہتی کے عملی اظہار کے ساتھ ساتھ جہادِ افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لینا اور جنیوا مذاکرات کے نتیجہ میں طے پانے والے مبینہ سمجھوتہ کے پس منظر میں مجاہدین کے تاثرات اور آئندہ عزائم معلوم کرنا تھا۔

اس سے قبل گزشتہ سال بھی راقم الحروف کو جمعیۃ علماء اسلام صوبہ پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا بشیر احمد شاد کے ہمراہ افغانستان کے ایک اور محاذ جنگ ارگون تک جانے کا موقع ملا تھا اور حرکۃ الجہاد الاسلامی کے امیر مولانا قاری سیف اللہ اختر کی دعوت پر کیے جانے والے اس دورہ میں کچھ وقت ارگون چھاؤنی کے سامنے ایک اجڑی ہوئی بستی کی جامع مسجد میں بسر کرنے کا اتفاق ہوا تھا۔ لیکن وقت کی کمی اور بعض دیگر رکاوٹوں کے باعث اس وقت مشاہدات و تاثرات کے مطلوبہ مقاصد کی تکمیل نہیں ہو سکی تھی۔ البتہ اس دفعہ ہمیں مجاہدین کے آخری مورچوں تک جانے کی سعادت حاصل ہوئی اور خوست شہر سے متصل پہاڑ کی بلند چوٹی پر مجاہدین کے مورچہ میں ہم نے دو راتیں گزاریں اور سرکاری فوجوں کے ساتھ مجاہدین کی زمینی اور فضائی لڑائی کا اپنی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ کیا۔

خوست کا شہر وہی عالمی شہرت کا حامل محاذِ جنگ ہے جہاں روسی افواج نے مجاہدین کا محاصرہ توڑنے کے لیے بھرپور قوت استعمال کی اور کئی روز کی اس جنگ نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کیے رکھی۔ لیکن محاصرہ توڑنے کے باوجود روسی افواج دو تین روز سے زیادہ اس کیفیت کو قائم نہ رکھ سکیں اور آج پھر خوست کی چھاؤنی اور شہر مجاہدین کے مکمل محاصرہ میں ہیں۔ خوست کے اردگرد تمام پہاڑیوں اور راستوں پر مجاہدین کا قبضہ ہے اور انہوں نے بلند و بالا پہاڑیوں پر اپنے مورچے قائم کیے ہوئے ہیں جہاں سے خوست شہر اور چھاؤنی مکمل طور پر ان کے حملوں کی زد میں ہے۔ ہم جس مورچہ میں تھے وہاں سے خوست کے ہوائی اڈہ کا رن وے اور چھاؤنی کی عمارتیں صاف طور پر نظر آرہی تھیں۔ اس رن وے پر رات کی تاریکی میں طیارے چھاؤنی کے لیے راشن اور دیگر ضروریات لے کر اترتے ہیں اور پھر اندھیرے میں ہی پرواز کر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ شہر اور چھاؤنی کے ساتھ کابل حکومت کا اور کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے۔

خوست پہنچنے سے قبل راستہ میں سرکاری فوجوں یا اہل کاروں کا کوئی نشان نہیں ملا اور یہ تمام علاقہ عملاً مجاہدین کے کنٹرول میں تھا جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنی کاروائیاں اور نقل و حرکت جاری رکھے ہوئے تھے۔ ہم نے یہ سفر گاڑی پر اور پھر تین چار گھنٹے کا سفر پیدل بھی کیا۔ راستہ میں جس بات نے ہمیں سب سے زیادہ مضطرب اور بے چین رکھا وہ ان ویران بستیوں کا منظر تھا جنہیں روسی افواج نے مسلسل وحشیانہ بمباری کے ذریعے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا تھا۔ ہمیں راستہ میں بہت سی چھوٹی چھوٹی بستیاں دکھائی دیں لیکن ان میں سے ایک بھی آباد نہیں تھی۔ مکانات گرے ہوئے تھے اور کوئی بھی آبادی ان میں نہیں تھی۔ اکا دکا مکان جو بمباری کی زد سے بچ گئے وہ مجاہدین کے عارضی ٹھکانوں کے طور پر کام آرہے ہیں۔ ہم نے ایک رات اسی قسم کے مکان میں گزاری جو خدا جانے کس نے اپنی سکونت کے لیے بنایا تھا لیکن کابل حکومت کی مسلسل بمباری کی تاب نہ لاتے ہوئے علاقہ کے دوسرے باشندوں کی طرح وہ بھی ہجرت کر کے پاکستان کے کسی کیمپ میں منتقل ہوگیا تھا اور اب مجاہدین نے اس مکان کو اپنی سرگرمیوں کا ایک مرکز بنایا ہوا تھا۔

نجیب انتظامیہ اور روسی افواج کے پاس افغان مجاہدین پر بالادستی کا ایک ہی محاذ ہے اور وہ ہے فضائی جنگ اور وحشیانہ بمباری جس کا جواب دینے کے لیے مجاہدین کے پاس فضائیہ نہیں ہے ورنہ اب سے کافی عرصہ پہلے اس جنگ کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ میدانی لڑائی میں مجاہدین مکمل طور پر حاوی ہیں اور انہیں نہ صرف جنگی بلکہ نفسیاتی طور پر بھی بالادستی حاصل ہے جس کا مشاہدہ ہم نے اپنی آنکھوں سے کیا۔ جس مورچہ میں ہم ٹھہرے ہوئے تھے وہاں سے مجاہدین نے ہماری موجودگی میں خوست کی چھاؤنی پر مارٹر توپ سے کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ تک گولہ باری کی، اس کی پیروی میں دوسری اطراف کے مورچوں سے بھی چھاؤنی پر متعدد گولے پھینکے گئے۔ ہمارا خیال تھا کہ اس کے جواب میں ہم پر شدید گولہ باری ہوگی لیکن مجاہدین نے ہمیں کہا کہ آپ آرام کے ساتھ نماز پڑھ کر سو جائیں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، ہم ساری رات آرام سے سوتے رہے اور خوست چھاؤنی کی طرف سے گولہ باری کا صبح کی نماز تک کوئی جواب نہ آیا۔ مجاہدین نے ہمیں بتایا کہ نجیب انتظامیہ کی افواج اور روسی فوجوں کو حملہ میں پہل کی کبھی جرأت نہیں ہوئی، جب بھی پہل کی ہم نے کی۔ حتیٰ کہ متعدد بار ایسا بھی ہوا کہ مجاہدین حملہ کر کے ان کا پکا پکایا کھانا اٹھا کر لے آئے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

مجاہدین کے خلاف فضائی کارروائیوں میں بھی اسٹنگر مزائیلوں کے استعمال کے بعد وہ پہلا سا زور اب نہیں رہا تاہم اس کے باوجود ان پر بمباری ہوتی ہے اور نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ جس روز ہم رات راغبیلی کے ایک مرکز میں تھے، دوسرے روز صبح مجاہدین کی تربیتی مشقوں کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک فضا میں اٹھارہ طیارے نمودار ہوئے۔ ان کے حملہ سے بچنے کے لیے مجاہدین کے ساتھ ہم بھی الٹے سیدھے زمین پر لیٹ گئے، ان طیاروں نے ہم سے چند میل کے فاصلے پر بمباری کی جس سے ایک مجاہد شہید اور چھ زخمی ہوگئے۔ شہید کے بارے میں بعد میں ہمیں بتایا گیا کہ یہ وہ نوجوان تھا جس نے رات کو کھانا کھلانے میں ہماری خدمت کی تھی۔ مجاہدین طیاروں کو بھگانے کے لیے طیارہ شکن توپوں اور اسٹنگر مزائیلوں کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے طیارے خاصے فاصلے پر رہتے ہوئے بمباری کرتے ہیں جس سے نقصان کا تناسب بہت کم ہوگیا ہے۔

ژاور پاکستان کی سرحد کے قریب مجاہدین کا ایک مضبوط مرکز ہے جس کے انچارج کیپٹن اکبر شاہ ہیں۔ یہ پہلے افغان فوج میں کیپٹن تھے اور جہاد کے آغاز کے ساتھ ہی مجاہدین سے آملے اور آٹھ سال سے مسلسل مصروف جہاد ہیں۔ ان کے ساتھ جہاد افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں ہماری تفصیلی گفتگو ہوئی، ہم نے ان سے پوچھا کہ جنیوا مذاکرات میں اگر کسی سمجھوتہ پر دستخط ہوگئے اور کابل میں غیر جانبدار حکومت کے قیام کے بغیر روسی افواج کی واپسی اور مجاہدین کی امداد بند کرنے کا فیصلہ ہوگیا تو اس پر مجاہدین کا ردعمل کیا ہوگا؟ اس کے جواب میں کیپٹن اکبر شاہ نے کہا کہ محاذِ جنگ پر لڑنے والے مجاہدین کو جنیوا مذاکرات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ جنگ میں ان کا ہدف افغانستان میں ایک مکمل شرعی حکومت کا قیام ہے اور اس ہدف کو حاصل کرنے تک جنگ بند کرنے کا ان کے نزدیک کوئی جواز نہیں ہے۔ جنیوا میں سمجھوتہ کچھ بھی ہو مجاہدین اپنی جنگ جاری رکھیں گے اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کابل میں ایک مکمل اسلامی حکومت کا قیام نہیں ہو جاتا۔ باقی رہا ہماری امداد بند کرنے کا سوال تو میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے جہاد کا انحصار اس امداد پر نہیں ہے، نہ ہم نے کسی طاقت کے کہنے پر جہاد شروع کیا ہے اور نہ ہی کسی کی امداد کی شرط کے ساتھ اس کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے جب نو سال قبل جہاد کا آغاز کیا تھا اس وقت امریکہ سمیت کوئی بھی قوت ہماری طرف متوجہ نہیں تھی۔ ہم نے اپنی پرانی بندوقوں کے ساتھ روسی افواج کا مقابلہ کیا اور پھر روسی افواج اور ان کے حمایتیوں سے اسلحہ چھین کر جہاد کو جاری رکھا۔ امریکہ اور دوسری حمایتی قوتیں ہماری طرف اس وقت متوجہ ہوئیں جب ہم روسی افواج کے مقابلہ میں اپنی مزاحمت کا وجود تسلیم کرا چکے تھے۔ اس لیے اگر ہم اس دور میں جہاد کا آغاز کر کے اپنی بوسیدہ اور پرانی بندوقوں کے ساتھ روسی فوجوں کا راستہ روک سکتے ہیں تو آج بھی بیرونی طاقتوں کی امداد کے بغیر لڑ سکتے ہیں اور ہم کسی کی امداد کی پرواہ کیے بغیر مکمل فتح تک جہاد کو جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔

ہمارا دوسرا سوال یہ تھا کہ افغان مجاہدین کے پاس اسلحہ کے جو موجودہ ذخائر ہیں ان کے ساتھ اس جنگ کو مزید کتنے عرصہ تک جاری رکھا جا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں کیپٹن اکبر شاہ نے کہا کہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ مزید کوئی امداد ملے بغیر موجودہ اسلحہ کے ساتھ پانچ سال تک اس جنگ کو اسی کیفیت میں جاری رکھا جا سکتا ہے جس کیفیت میں یہ جنگ ہو رہی ہے۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اسلحہ کی ایک بڑی مقدار وہ ہوتی ہے جو ہم مقابلہ میں کابل انتظامیہ اور روس کی فوجوں سے چھینتے ہیں اور ہمارے پاس موجود اسلحہ کے ذخائر میں ایک معتدبہ مقدار اسی قسم کے اسلحہ کی ہے۔ اس لیے ہمیں اسلحہ کی فراہمی کے بارے میں کوئی زیادہ پریشانی نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے لڑ رہے ہیں، ہمارا انحصار اور بھروسہ اس کی ذات پر ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ وہ قادر مطلق ہمارے لیے اسباب خود فراہم کرے گا اور مجاہدین کو بالآخر اللہ تعالیٰ کی مدد سے مکمل فتح حاصل ہو کر رہے گی۔

ہمارا پروگرام خوست کے محاذ کے شہرہ آفاق کمانڈر مولانا جلال الدین حقانی کے ساتھ ملاقات کا بھی تھا لیکن وہ باڑی نام کے ایک او رمحاذ پر گئے ہوئے تھے جہاں چند روز قبل مجاہدین نے حملہ کر کے تین مورچے فتح کیے تھے۔ اس معرکہ میں مبینہ طور پر سرکاری فوج کے ساٹھ سے زیادہ فوجی مارے گئے اور کم و بیش اتنی ہی تعداد میں گرفتار ہوئے اور اسلحہ کی ایک اچھی خاصی مقدار مجاہدین کے ہاتھ لگی۔ مولانا حقانی اس محاذ پر مصروف تھے اس لیے اس مردِ مجاہد کی زیارت کا شرف ہمیں حاصل نہ ہو سکا اور ہم دو روز راغبیلی کے مرکز جہاد میں گزار کر ۲۴ مارچ کو واپس بنوں پہنچ گئے۔

اس دورہ میں ہمارے تاثرات یہ ہیں کہ مجاہدین کے حوصلے بہت بلند ہیں اور وہ جنیوا مذاکرات کے نتائج سے بے نیاز ہو کر کابل پر اسلامی حکومت کا پرچم لہرانے کے عزم کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں حزب اسلامی افغانستان کے امیر مولوی محمد یونس خالص کا یہ مقولہ مجاہدین کے عزم اور موقف کی مکمل ترجمانی کرتا ہے کہ

’’ایک مکمل اسلامی حکومت کے قیام کے بغیر ہتھیار ڈالنا ہمارے لیے اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوگا۔‘‘

یہ مقولہ مختلف کتبوں اور کیلنڈروں کی صورت میں مجاہدین کے مراکز میں آویزاں ہے اور انہیں ہر وقت اپنی جدوجہد کے اصل مقصد کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ افغان مجاہدین کی یہ جنگ عالم اسلام میں جہاد کے شرعی فریضہ کے احیاء کا باعث بن رہی ہے اور یہ جہاد اگر کامیابی سے ہمکنار ہوگیا تو نہ صرف یہ کہ بیت المقدس، فلسطین، کشمیر، بخارا، اری ٹیریا اور دیگر مقبوضہ مسلم علاقوں کی آزادی کی راہ ہموار ہوگی بلکہ عالم اسلام میں منافقانہ سیاست کے خاتمہ اور اسلام کے مکمل غلبہ اور نفاذ کی منزل بھی قریب آجائے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter