مسلم ممالک اور سودی نظام

   
تاریخ : 
۱۵ اپریل ۱۹۸۸ء

صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے کراچی میں مؤتمر عالم اسلامی کی نویں بین الاقوامی جنرل اسمبلی کا افتتاح کرتے ہوئے عالم اسلام کے مسائل اور مشکلات کا ذکر کیا ہے اور اپنے خطاب کے دوران اس تلخ حقیقت کا بھی اظہار کیا ہے کہ

’’یہ حقیقت ہے کہ جہاں اسلامی ممالک بھی قرضوں پر سود لیتے ہیں وہاں چین پاکستان کو دیے جانے والے قرضوں پر کوئی سود نہیں لیتا۔‘‘ (روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۳۱ مارچ ۱۹۸۸ء)

صدر پاکستان کا یہ کہنا اس حقیقت کا کوئی نیا انکشاف نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ اسلام کا نام لینے اور اسلام کے حوالہ سے تمام تر سیاسی فوائد حاصل کرنے والے بہت سے مسلم حکمرانوں نے اپنے ممالک میں اسلامی نظام کو عملاً نافذ کرنے کی بجائے کفر و ظلم کے نظاموں کو مسلط کر رکھا ہے اور سود سمیت بیشتر شرعی محرمات کو ان ممالک میں قانونی حیثیت حاصل ہے۔ حتیٰ کہ خود اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرنے والے صدر جنرل محمد ضیاء الحق بھی تمام تر دعاویٰ کے باوجود اپنے ملک کو سودی نظام اور دیگر کافرانہ قوانین سے ابھی تک نجات نہیں دلا سکے۔

مسلم ممالک کا المیہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر ممالک نے گزشتہ نصف صدی کے دوران استعماری طاقتوں کے پنجہ سے ظاہری آزادی تو حاصل کر لی ہے لیکن ان پر حکمرانی وہی طبقہ کر رہا ہے جسے ان سامراجی قوتوں نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے تیار کیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان ممالک پر ظاہری آزادی کے باوجود نہ صرف یہ کہ وہی پرانے استعماری نظام و قوانین مسلط ہیں بلکہ ان کی سیاسی و معاشی پالیسیوں کی کلید بھی ابھی تک استعماری آقاؤں کے ہاتھ میں ہے۔

ہم صدر جنرل محمد ضیاء الحق سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ محض مسلم ممالک میں سود اور دیگر کافرانہ قوانین کی موجودگی کی نشاندہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ استعماری آقاؤں کی ذہنی اور سیاسی غلامی سے نجات حاصل کی جائے اور سامراجی نظاموں کا خاتمہ کر کے پورے خلوص اور ایثار کے ساتھ مسلم ممالک میں اسلام کے عادلانہ نظام کا مکمل نفاذ عمل میں لایا جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter