حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ

   
تاریخ: 
جنوری ۲۰۱۷ء

بعدالحمدوالصلوٰۃ! آج کی نشست میں تذکرہ ہے حضرت مولانامفتی عبد الواحد نور اللہ مرقدہ کا، ان کے تعارف اور تذکرہ سے پہلے کچھ پسِ منظر عرض کرنا چاہتا ہوں۔

مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ شہر کی قدیمی مساجدمیں سے ہے، اب سے تقریباً ڈیڑھ سوسال پہلے یہاں ایک بزرگ ہواکرتےتھے مولانا سراج الدین احمد جو کہ بڑے عالم اور فقیہ تھے انہیں فقیہِ پنجاب کہا جاتا تھا۔ مسجد کے عقب میں بازار تھانے والا کی گلی مولوی سراج دین اور مسجد مولوی سراج دین ان ہی کےنام پر ہیں اور وہ مسجد شہرکی جامع مسجد ہوا کرتی تھی۔ اس وقت شہر دروازوں کے اندر ہوتا تھا۔ سیالکوٹی دروازہ ،لاہوری دروازہ، ایمن آبادی دروازہ، گرجاکھی دروازہ، شیخوپورہ دروازہ، وغیرہ۔ وہاں مولاناسراج الدین احمد خطیب ہوا کرتے تھے، اس درجے کےعالم تھے کہ انہوں نے ہدایہ کا فارسی میں ’’سراج الہدایہ‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا تھا جو شائع نہیں ہوا مگر پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں موجود بتایا جاتا ہے۔ ان کے زمانے میں یہ مسجد تنگ پڑ گئی تو لوگوں نے مشورہ کیا کہ باہر کشادہ مسجد بناتے ہیں۔ جس جگہ اب مرکزی مسجد شیرانوالہ باغ ہے، یہاں اس وقت کھلامیدان ہوتا تھا۔ یہ مسجد اس کھلے میدان میں اس وقت کے شہر کی حدود سے باہر بنائی گئی تھی تاکہ لوگ جمعہ و عیدکی نماز بآسانی ادا کر سکیں۔ ۱۳۰۱ ہجری میں یہ مسجدبنی تھی۔ دو بھائی شیخ صاحب دین اور شیخ نبی بخش جو کہ چمڑے کےتاجر تھے، انہوں نے یہ مسجد بنوائی۔ مسجدکےسنگِ بنیاد کے پتھر پر، جو مسجد کے بڑے ہال کے درمیان والے دروازے پر نصب ہے، مولانا سراج الدین کا نام، ان دونوں بھائیوں کے نام اور تاریخ درج ہیں۔ جبکہ راولپنڈی کی راجہ بازار کے قریب واقع مرکزی جامع مسجد بھی انہی دونوں بھائیوں نے بنوائی تھی، دونوں مسجدیں ایک ہی نمونے اور ایک ہی سائز پر بنوائی گئیں۔ راولپنڈی والی مسجد میں صاحبزادہ فیض علی فیضی صاحب خطیب تھے جو کہ دھونکل کے رہنے والے تھے اور بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ میرا کئی دفعہ ان کے پاس جانا ہوا، دھونکل کے قریب ان کے والد صاحب پیر محمد بڈھا نقشبندیؒ کا دربار بھی ہے۔ جبکہ گوجرانوالہ کی جامع مسجد جب بنی تو مولوی سراج الدین احمد اس کے خطیب تھے۔

مولانا سراج الدین احمد کے بعد ان کے بیٹے مولانا نذیر حسین مرحوم اس مسجدکے خطیب بنے۔ ۱۹۱۹ء کے لگ بھگ کی بات ہے جب امرتسر میں جلیانوالہ باغ کا واقعہ ہوا جس میں انگریزوں نے باغ کاگھیراؤ کر کے جلسہ گاہ میں فائرنگ کی اور بے شمار لوگوں کو شہید کر دیا تھا۔ یہ مشہور سانحہ ہے، اس پر جیسے ہندوستان کے بہت سے دیگر علاقوں میں بغاوت ہوئی اسی طرح گوجرانوالہ شہر میں بھی بغاوت ہوئی اور لوگ سڑکوں پر آگئے۔ یہاں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے ماشل لاء لگایا گیا جسے لوگوں نے توڑ دیا اور پھر برطانوی شاہی ایئر فورس کو بمباری کرنا پڑی۔ کالج روڈ اور گوندلانوالہ روڈ پر بمباری کے بعد شہر کو کنٹرول کیاگیا۔ اس صورتحال میں انگریز کے خلاف لوگوں کے دلوں میں شدید نفرت پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں علماء نے فیصلہ کیا کہ پورے ملک میں انگریزوں کے دیے ہوئے اعزازات، تمغے، شیلڈز واپس کریں گے۔ چنانچہ ترکِ موالات کے نام سے بائیکاٹ کی تحریک چلی، پانچ سوعلماء نےکراچی میں فتوٰی دیا کہ انگریز کی فوج میں بھرتی ہوناحرام ہے اور ان کے دیے ہوئے اعزازات واپس کیے جائیں۔ مولانا مفتی عبد الواحدؒ سے میں نے یہ سنا ہے کہ مولانا نذیرحسین مرحوم کو شہرمیں برطانوی حکومت کی طرف سے آنریری مجسٹریٹ کےاختیارات دیے گئے تھے، انگریز کے زمانے میں نمایاں شخصیات کو اس طرح کے اختیارات دے دیے جاتے تھے۔ مولانانذیرحسین صاحب بھی وجیہ اور باوقار آدمی تھے اور شہر کے با اثر لوگوں میں سے تھے لیکن جب اکثر لوگوں نےاعزازات واپس کر دیے اور مولانا نذیرحسین صاحب سے بھی ایسا کرنے کا مطالبہ ہوا تو انہوں نےاعزازات واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر مسجد کے نمازیوں اور مولانا صاحب کا تنازعہ ہوگیا۔شہرکے معززین اور مسجدکی انتظامیہ کا تقاضا یہ تھا کہ مولوی صاحب یہ اختیار واپس کریں لیکن مولوی صاحب اڑ گئے اور اعزاز واپس نہیں کیا بلکہ مسجد چھوڑ دی۔ یہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد۔ یہ ۱۹۲۲ء اور ۱۹۲۳ء کے لگ بھگ کی بات ہے۔

مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ چونکہ صرف شہر کی نہیں بلکہ پورے علاقے کی بڑی مرکزی مسجد تھی، اہم فیصلے یہاں ہوا کرتے تھے، مولانا نذیر حسین صاحب بڑے عالم تھے، چنانچہ اب مسجد کی انتظامیہ کو ان کی سطح کے خطیب کی تلاش تھی۔ اس دوران محدثِ پنجاب حضرت مولاناعبدالعزیز صاحبؒ جو کہ راولپنڈی اور اٹک کے درمیان سہال کے رہنے والے تھے، فاضلِ دیوبند تھے، شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ کے شاگرد تھے، حضرت علامہ انور شاہ کاشمیریؒ کے ساتھیوں میں سے تھے اور اس درجہ کےعالم تھےکہ اگراس علاقے سےکوئی دارالعلوم دیوبند پڑھنے جاتا تو علامہ کاشمیریؒ اس سے فرماتے کہ آپ کے علاقے میں مولانا عبد العزیز صاحب موجودہ ہیں پھر آپ میرے پاس کیا کرنے آئے ہو ؟ اس سے آپ اندازہ کرلیں کہ ان کا مرتبہ کیا تھا۔بہت بڑے محدث تھے، ان کی بخاری شریف پر معروف علمی کتاب ہے ’’النبراس الساری علٰی اطراف البخاری‘‘ اور ’’نصب الرایہ علیٰ احادیث الہدایہ‘‘ پر ان کاحاشیہ بھی ہے۔ بڑی علمی شخصیت تھی، آپؒ سکول ملازمت کےسلسلے میں گوجرانوالہ آئے تھے، عطاء محمد اسلامیہ ہائی سکول میں ٹیچر تھے اور چوک نیائیں میں مسجد عائشہ کے سامنے ایک اونچی مسجد ہے جو کہ اب اہلحدیث حضرات کے پاس ہے، وہ اس مسجد کے امام و خطیب تھے۔ بطور عالم ان کی خاصی شہرت تھی، تو مولاناعبدالعزیزصاحب سے لوگوں نے کہا کہ جب تک کوئی خطیب نہیں ملتا آپ یہاں جمعہ پڑھا دیا کریں، انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ دو تین جمعے پڑھائے تو لوگوں نے سوچا کہ کسی اور کو تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس طرح مولانا عبد العزیزؒ مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں خطیب مقرر ہوئے۔

مرکزی مسجد کےساتھ جو مدرسہ انوار العلوم ہے یہ مولانا عبد العزیزؒ نے ۱۹۲۶ء میں قائم کیا تھا۔ یہ شہر کا سب سے قدیمی مدرسہ ہے جس کے افتتاح کے لیےحضرت علامہ انورشاہ کاشمیریؒ تشریف لائے تھے، وہ دیوبند سے کشمیر جاتے ہوئے تقریباً ہر سال یہاں آتے تھے اور مولانا عبد العزیز صاحب کے پاس ایک آدھ دن کا قیام فرماتے تھے۔ اس مدرسے کو بڑے اعزازات حاصل ہیں۔ ہمارا اس مدرسے سے بڑا قدیمی تعلق ہے، ہمارے والدِ محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ، دونوں اس مدرسےکےطلباء میں سے ہیں۔ دونوں بھائی ۱۹۳۷ء تا ۱۹۴۰ء یہاں پڑھتے رہے پھر یہیں سے وہ دیوبند گئے اور واپس آکر والدِ محترمؒ اسی مدرسہ میں مدرس ہوئے تھے۔ جب گکھڑ والوں نے امام مانگا تو یہیں سے والد صاحبؒ ؒکو گکھڑ بھیجا گیا تھا، ۱۹۴۳ء میں گکھڑ گئے جہاں وہ ۲۰۰۹ء تک دینی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ والدِ محترمؒ مولانا مفتی عبد الواحدؒ اور مولانا عبد القدیر کیمل پوریؒ کے شاگرد ہیں اور اس دورکی بڑی یادیں سناتے تھے۔ مولانا عبد العزیزؒ بڑے عالم فاضل آدمی تھے، مطالعہ و تحقیق ان کا مشغلہ تھا۔ ’’العدل‘‘ کےنام سے ایک رسالہ بھی شروع کیا تھا، ان کا زیادہ تر مباحثہ اہل حدیث حضرات کے ساتھ ہوتا تھا۔ امرتسر میں مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ چوٹی کے اہل حدیث عالم تھے، ان کا مجلہ ’’اہل حدیث‘‘ شائع ہوتا تھا۔ امرتسر اور گوجرانوالہ کے درمیان تقریباً پچپن میل کا فاصلہ ہے۔ دونوں حضرات کا اپنے اپنے رسالوں میں مناظرہ رہتا تھا اور ویسے بھی آپس میں مناظرے چلتے تھے۔ دونوں بزرگوں کے درمیان ایک حدیث کے متن اور سند پر تحریری مناظرہ ہوا جس پر علامہ سید سلیمان ندویؒ حکم بنے، انہوں نے فیصلہ دیا تھا کہ مولاناعبد العزیز صاحب کاموقف درست ہے۔

یہ میں نے مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ کا مختصر پس منظر ذکر کیا ہے جو حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ سے میں نے مختلف اوقات میں سن رکھا ہے۔ اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔

حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ حضرت مولانا عبد العزیزؒ کے بھتیجے تھے اور حضرت علامہ سید انور شاہ کاشمیریؒ کے شاگر دتھے۔ علامہ کاشمیریؒ کا جب دیوبند والوں سے بعض امور پر اختلاف ہوا تو وہ دیوبند چھوڑ کر ڈابھیل گجرات (انڈیا) چلے گئے تھے جہاں دارالعلوم اسلامیہ کا قیام عمل میں لایا گیا اور حضرت علامہ صاحبؒ نے وہاں پڑھانا شروع کیا۔ مولانا مفتی عبد الواحدؒ نے ڈابھیل میں علامہ صاحبؒ سے دورۂ حدیث کیا اور پھر گوجرانوالہ اپنے چچا محترم کی معاونت کےلیے ان کے پاس آگئے۔ ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ مولانا عبد العزیزؒ فالج کے حملے کی وجہ سے بیمار ہوئے تو ان کی جگہ مولانا مفتی عبد الواحد نے سنبھالی جو نہ صرف ایک عالم فاضل آدمی تھے بلکہ غضب کےسیاستدان بھی تھے۔ ۱۹۴۴ء میں مولانا عبد العزیزؒ بالکل معذور ہوگئے اور آخری عمر میں اپنے گاؤں سہال منتقل ہوگئے تھے۔ وہیں ان کا انتقال ہوا اور وہیں تدفین بھی۔

مولانا عبد العزیزؒ کی وفات کے بعد ان کی جگہ ان کے بھتیجے مولانا مفتی عبدالواحد صاحبؒ مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ کے خطیب مقرر ہوئے اور اس کے ساتھ ملحق مدرسہ انوار العلوم کے مہتمم بھی۔ حضرت مفتی عبد الواحدؒ اپنے وقت کے بڑےعالم اور استاد العلماء تھے۔ وہ حضرت والد صاحبؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ کے استاد بھی تھے۔ میں نے حضرت والد صاحبؒ کو جن بزرگوں کا سب سے زیادہ احترام کرتے دیکھا ہے ان میں ایک حضرت مفتی عبد الواحدؒ بھی ہیں۔ ہم ان کےجوتے سیدھےکرتے تھے اور ان کی خدمت کرتے تھے۔ ہمیں جب بھی کوئی الجھن والا مسئلہ پیش آتا تو سب سے پہلے مفتی صاحبؒ سےمشورہ کرتے،۔ میں بچپن میں کئی مرتبہ حضرت والد صاحبؒ کے ساتھ ان کے پاس آیاہوں، حضرت مولاناعبدالعزیزؒ کی لائبریری بہت اچھی تھی، اس میں بڑی نایاب اور علمی کتب تھیں جس سے ان کے مطالعہ کے عمدہ ذوق کا پتہ چلتا تھا، حضرت مفتی عبد الواحدؒ بھی صاحبِ مطالعہ بزرگ تھے۔

میں اس بات کا شاہد ہوں کہ حضرت مولانا عبد الواحدؒ بڑے ذہین اور نکتہ رس مفتی تھے۔ میں نے اتنا مستغنی مفتی کوئی نہیں دیکھا کہ لوگ مسئلہ لاتے تھے، ایک نظر اسے دیکھتے اور قلم اٹھا کر دو جملوں میں اس کا جواب لکھ دیتے۔ عام طور پر تو مفتی صاحبان کتابوں کی کتابیں دیکھتے ہیں تب کہیں جا کر فتوٰی دیتے ہیں۔ میں نے حضرت مفتی صاحبؒ کو کبھی کتاب دیکھتے ہوئے نہیں دیکھا، مشکل سے مشکل مسئلے کا تین چار جملوں میں جواب لکھ دیتے تھے اور کمال کا جواب لکھتے تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ آنے والے کو دلائل کی ضرورت نہیں، مسئلے کی ضرورت ہےاس لیے صرف مسئلہ بتاناچاہیے، ہاں کوئی عالم آئے تو اس کو دلائل بتاؤ۔ عام آدمی کو کیا پتہ کہ صحیح حدیث کیا ہوتی ہے، ضعیف کیا ہوتی ہے، عام مخصوص منہ البعض کیا ہوتا ہے اور عام مطلق کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ صرف مسئلے کا جواب تین چار سطروں میں لکھتے تھے۔ اور میں جس زمانے میں ان کے ساتھ ہوتا تھا تو مسئلہ لکھ کر بندے کو میرے دفتر میں بھیجتے تھے کہ جا کر زاہد سے مہر لگوا کر لاؤ۔

مجھے تقریباً بارہ سال مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی خدمت و نیابت میں کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ تقسیم ملک سے پہلے جمعیت علماء ہند کے بڑے رہنماؤں میں سے تھے اور پنجاب کے بڑے قائدین میں سےتھے۔ مفتی صاحبؒ جمعیۃ میں بھی تھے، کانگریس میں بھی اور احرار کے ساتھ بھی تھے۔ جمعیۃ اور کانگریس کے ضلعی صدر رہے۔ جب جمعیۃ علماء اسلام قائم ہوئی تو قیام پاکستان کے بعد مفتی صاحبؒ اس کے مرکزی ناظم تھے۔ یعنی حضرت مفتی صاحبؒ سیاسی و تحریکی دنیا کے سرگرم بزرگ تھے، پاکستان بننے سے پہلے بھی اور پاکستان بننے کے بعد بھی۔ ۱۹۵۳ء اور ۱۹۷۴ء کی ختم نبوت تحریکات میں انہوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ البتہ ۱۹۸۴ء کی تحریک سے پہلے مفتی صاحبؒ ۱۹۸۲ء میں وفات پا چکے تھے۔

مفتی صاحبؒ پورے علاقے کے علماء کا مرجع تھے۔ کوئی مسئلہ، کوئی الجھن پیش آتی تو سبھی مکاتب فکر کے علماء مفتی صاحبؒ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ میں نے وہ زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اہلحدیث، بریلوی، دیوبندی اور شیعہ علماء شہر کے بڑے مسائل پر رہنمائی کے لیے مفتی صاحبؒ کے پاس آیا کرتے تھے۔ میں نے تین بڑے علماء کی ذاتی دوستی دیکھی ہے اور میں ان کا پیغام رساں رہاہوں۔ مولانا اسماعیل سلفیؒ، صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہؒ اور مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی مثالی دوستی تھی، انہیں بلانے یا پیغام پہنچانے کے لیے مفتی صاحبؒ مجھے ہی بھیجا کرتے تھے۔ سب مکاتب فکر کے لوگ یہاں آیا کرتے تھے۔ ایک زمانے میں مرکزی مسجد تحریکات کامرکز بھی تھی اور دینی راہنمائی کا مرکز بھی۔

میں نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ مسجد قاسم علی خان پشاور اب جو کردار ادا کر رہی ہے، گوجرانوالہ کی یہ جامع مسجد سو سال تک کرتی رہی ہے۔ بڑے بڑے معرکے ہوتے تھے۔ رمضان و عیدین کے مواقع پر گواہ آرہے ہیں، شہادتیں آرہی ہیں، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، شیعہ سبھی شریک ہیں، فیصلہ مفتی صاحبؒ نے کرناہوتا تھا۔ رات ایک دو بجے تک بیٹھتے اور فیصلہ کرتے تھے اور ان کا فیصلہ نافذ ہوتا تھا۔ ایک زمانے میں تمام علاقے میں ان کو یہ حیثیت حاصل تھی۔ البتہ سرکاری طور پر مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے قیام کے بعد خود حضرت مفتی صاحبؒ نے یہ سلسلہ ترک کر دیا تھا اور فرماتے تھے کہ اب یہ ذمہ داری کمیٹی کی ہے، ہم اسی کے فیصلے پر عمل کریں گے۔

مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ جب سے بنی ہے شہر کی تحریکات کا مرکز رہی ہے۔ اور الحمدللہ اب تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اب بھی شہر کا کوئی اہم دینی مسئلہ سامنے آتا ہے تو ہم بلاتے ہیں اور سب مکاتب فکر کے لوگ آتے ہیں۔ ہمارے ہاں بریلوی حضرات میں مسلکی حوالے سے ایک سخت مزاج بزرگ مولانا ابوداؤد محمد صادق گزرے ہیں، جامع مسجدکی میٹنگوں میں وہ بھی آتے تھے، ان کے ساتھ مل کر ہم نے جلوسوں کی قیادت کی ہے۔ یہ مولانا مفتی عبدالواحدؒ کی برکات ہیں کہ کوئی دینی تحریک ہو، شہرکاکوئی مسئلہ ہو، کوئی قومی مسئلہ ہو، ہمارے بلانے پرسب آتے ہیں۔ اور جب مرکزی مسجدکی مشترکہ میٹنگ ہوتی ہے تو انتظامیہ کےکان کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اب کچھ ہونے والاہے۔ مسجد کے محراب سے آگے سامان وغیرہ کے لیے ایک کمرہ ہوتا تھا جو کہ توسیع کے بعد اب مسجد کے ہال میں شامل ہوگیا ہے۔ میرے ابتدائی دور میں سی آئی ڈی کے ایک دوست کہنےلگے کہ جب محراب والے پچھلے کمرے کا دروازہ میٹنگ کے لیےکھلتا ہے تو ہم مشورے شروع کر دیتے ہیں کہ شہر میں کچھ ہونے والا ہے۔

پھر ایک وقت آیا کہ مولانا مفتی عبد الواحدؒ کا شمار تبلیغی جماعت کے اکابر میں ہوتا تھا۔ وہ تبلیغی جماعت کے شورٰی کے حضرات میں سے تھے اور جمعیت علماء اسلام کی مرکزی شورٰی میں بھی تھے۔ یعنی ان کے پاس اس وقت سیاسی تحریکات کی سم بھی تھی اور تبلیغی سم بھی، اور دونوں ایکٹو تھیں۔ جمعیت میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ، ان سب اکابر کے مشوروں کا مرکز مولانا مفتی صاحبؒ ہوتے تھے جس کی وجہ ان کی خداداد ذہانت اور معاملہ فہمی تھی۔

میرا ذوق شروع سے جماعتی و تحریکی رہا ہے۔ الحمد للہ میں طالب علمی کے زمانے سے ہی ان کے کارکنوں میں شامل تھا۔ ایک دفعہ مرکزی جامع مسجد میں حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی تقریر تھی، مولانا بڑے شعلہ بیان اور شعلہ نوا مقررین میں سےتھے، ہم بھی سننےکے لیے آئے۔ مفتی صاحبؒ نے ہم دو چار ساتھیوں سے فرمایا کہ پولیس نے مولانا کی گرفتاری کے لیے گھیرا ڈالا ہوا ہے، ہم نے انہیں گرفتاری سے بچانا ہے، اور ایسے طریقے سے نکالنا ہے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے۔ یہ کام انہوں نے ہمارے ذمے لگا دیا۔ بازار میں ایک بزرگ بابا یسین مرحوم چائے کی دوکان کرتے تھے۔ بڑی اچھی نعت پڑھا کرتے تھے، ان کا قد اور شکل و شباہت حضرت ہزارویؒ سے ملتی تھی۔ ہم نے بابا یسین کو اعتماد میں لے کر مولانا ہزارویؒ کو گرفتاری سے بچانے کا طریقہ کار طے کیا۔ پلاننگ کے مطابق جب حضرت ہزارویؒ کی تقریرختم ہوئی تو بابا یسین سر پر پگڑی باندھے اور چادر اوڑھے تین چار طالب علموں کے ساتھ مولانا ہزاروی زندہ باد، شیر سرحد زندہ باد، مجاہد اسلام زندہ باد کے نعروں کے ساتھ مسجد کے مرکزی دروازے سے باہر نکلے۔ اس پر ساری پولیس کی توجہ ادھر ہوگئی۔ ہم نے سمجھا رکھا تھا کہ دروازے سے کچھ دور تک باباجی کو لے کر جانا ہے۔ دوسری طرف ہم نے مولانا ہزارویؒ کو سائیکل پر بٹھا کر مفتی صاحبؒ کے گھر پہنچا دیا۔ ادھر باباجی یسین جب گلی کےنکڑ تک پہنچے تو پولیس نے انہیں گھیر لیا۔ وہ بولے کیا بات ہے؟ پولیس نے کہا کہ گرفتار کرنا ہے۔ کہنے لگے میں بابا یسین ہوں چائے والا۔ تھانہ چونکہ ساتھ ہی ہے تو انہوں نے پہچان لیاکہ یہ توبابایٰسین ہے۔ اس طرح ہم مولانا ہزاروی کو نکالنے میں کامیاب رہے۔ تحریکی دور میں اس طرح کے کام ہم کر لیا کرتے تھے۔

تحریکات میں تو مفتی صاحبؒ امام تھے اور بڑے بے نیاز انداز کے بزرگ تھے۔ شہری معاملات کے سلسلے میں ڈی سی کی میٹنگ میں جایا کرتے تھے، اب میں ان کی جگہ جایا کرتا ہوں۔ ایک دفعہ حضرت مفتی صاحبؒ نے ڈی سی سے کہا کہ یوں نہ کریں ورنہ فساد ہو جائے گا۔ اس نے کہا مولوی صاحب! دیکھ لیں گے۔ مولانا وہاں سے چلے آئے اور اپنے علماء کوسمجھایا کہ کوئی جھگڑا نہیں کرنا بلکہ یہ محنت کرو کہ دس محرم کے دن کوئی بھی جلوس دیکھنے نہ جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بس جلوس ہی تھا لیکن اسے دیکھنے والے نہیں تھے۔ سب سٹپٹا گئے کہ یہ کیاہوا آدمی کدھر گئے ہیں، وہ جلوس جو چھ گھنٹے میں ختم ہوتا تھا اس دن ڈیڑھ گھنٹے میں نمٹ گیا۔ اب ڈی سی نے سوچاکہ میں نے مولوی صاحب سے کہا تھا دیکھ لیں گے، یہ تو مولوی صاحب نے دیکھ لیا ہے۔ مفتی صاحبؒ کے بارے میں ضلعی انتظامیہ بھی سمجھتی تھی کہ یہ بندہ جب کسی کام پر آجاتا ہے تو پھر اس کام کو روکنامشکل ہوجاتا ہے، ان کو شہر میں یہ حیثیت حاصل تھی ۔

مجھے الحمد للہ حضرت مفتی صاحبؒ کے ساتھ ایک لمبا عرصہ گزارنے کا موقع ملا ہے۔ ہوا یوں کہ مفتی صاحبؒ وقتاً فوقتاً تبلیغی جماعت کےساتھ چالیس دن، چار ماہ لگانے کے لیے نکل جاتے تھے اور یہاں جمعہ پڑھانے کا مسئلہ بن جاتا تھا۔ چونکہ مرکزی مسجد تھی اس لیے لوگوں کی شکایت تھی کہ جمعہ کے لیے کوئی معقول بندوبست کیا جائے۔ اس زمانے میں اندرون شہر تقریریں کرنے والوں میں ایک میں بھی تھا، ایک دفعہ مفتی صاحب موجود نہیں تھے تو جامع مسجد والوں نے مجھے جمعہ پڑھانے کے لیے بلایا۔ میں نے جمعہ پڑھایا۔ مفتی صاحبؒ کی اپنی اولاد نہیں تھی، نہ بیٹا نہ بیٹی۔ بھتیجے تھے لیکن آپس میں خاندانی صلح نہیں تھی ۔ لوگوں نے مطالبہ کیا کہ آپ اپنی عدم موجودگی میں زاہد صاحب کو نائب مقررکر دیں، مفتی صاحبؒ نے یہ بات منظور کرلی، اس طرح میرا کام بن گیا۔

درمیان میں ایک لطیفے کی بات عرض کرتا ہوں کہ کچھ سال پہلے ایک مولوی صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے استادجی! امامت کے لیے جگہ چاہیے جو شہرمیں ہو، بڑی مسجد ہو، رہائش بھی ساتھ ہو۔ میں نے کہا کہ یہ تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ شہر میں کوئی خطیب صاحب فوت ہوجائیں اور انہوں نے کوئی بیٹا، بھتیجا، بھانجا اپنے بعد کے لیے تیار نہ کیاہو، تبھی کوئی امکان ہے ورنہ نہیں۔ میرا داؤ اس لیے لگ گیا تھا کہ مفتی صاحبؒ کی اپنی اولاد تھی نہیں جبکہ بھائیوں اور بھتیجوں سے صلح نہیں تھی ۔

یہ ۱۹۶۹ء کی بات ہے، میں اس وقت موقوف علیہ میں تھا، مولانا مفتی عبد الواحدؒ مدرسہ نصرۃ العلوم میں تشریف لائے اور حضرت والد صاحبؒ سے کہا کہ مولوی صاحب! اللہ پاک نے آپ کو بہت بیٹے دیے ہیں، میرا بیٹا نہیں ہے، آپ ایک مجھے دے دیں۔ ہم الحمد للہ نو بھائی تھے، ایک فوت ہو گیا ہے، آٹھ اب بھی ہیں۔ والد محترمؒ نے فرمایا جو مرضی ہے لےجائیں سبھی آپ کے ہیں۔ مفتی صاحبؒ نے مجھ سےفرمایا زاہد! شام کو بستر لےکر مرکزی مسجد آجانا۔ میں شام کو بستر اٹھا کر وہاں چلا گیا، اس طرح مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں میری تقرری ہوئی۔ تب سے الحمدللہ وہیں ہوں، سینتالیس سال ہوگئے ہیں، اس دوران بڑے اتار چڑھاؤ بھی آئے ہیں ۔ گزشتہ سال رہائش کی تبدیلی کی وجہ سے اب وہاں صرف جمعہ پڑھاتا ہوں اور ہفتے کے دوران بھی ایک دو بار حاضری کا موقع مل جاتا ہے۔ میں نے بارہ سال مفتی صاحبؒ کے ساتھ خدمت و نیابت کےطور پر گزارے ہیں۔ تحریکی، جماعتی اور مسلکی زندگی میں ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ آپؒ سمجھاتے بھی تھے ، رہنمائی بھی کرتے تھے، ڈانٹتے بھی تھے ، سرپرستی بھی کرتے تھے، حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے اور کسی مشکل میں ہوتا تو پشت پر دیوار بن کر کھڑے بھی ہوتے تھے۔ آج کل اگر پشت پناہی ہے تو سمجھانا نہیں ہے، سمجھانا ہے تو پشت پناہی نہیں ہے ۔ میں نے ایک مربی کے طور پر جتنا مکمل ان کو پایا ہے کسی اور کو نہیں پایا۔

تحریک مسجد نور کا قصہ آپ کو سناتا ہوں۔مدرسہ نصرۃالعلوم گھنٹہ گھر گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے اکتوبر ۱۹۷۵ء کے دوران ایک بہت بڑا دو روزہ قومی اجتماع کیا جس میں ملک بھر سے پانچ ہزار کے قریب علماء آئے تھے۔ اجتماع میں مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیت علماء اسلام کی طرف سے پبلک شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اس پر پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے انتقاماً مسجد نور اور مدرسہ نصرۃ العلوم کو محکمہ اوقاف کے قبضے میں لینےکااعلان کردیا۔ مفتی عبدالواحدؒ نے شہر کے ایک متحرک طالب علم لیڈر نوید انور نوید، مولانا سید عبد المالک شاہؒ، صوفی رستم علی قادری، ڈاکٹر غلام محمد اور مجھے بلا کر فرمایا کہ بات سنو، ہم نے گورنمنٹ کو مسجد کا قبضہ نہیں دینا اور یہ لڑائی تم نے لڑنی ہے۔ ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے لڑیں گے اور ہم نے الحمدللہ مولاناکی سرپرستی اور پشت پناہی میں وہ لڑائی لڑی۔ چار پانچ ماہ تک یہ تحریک چلی اس دوران ہم نے شہر کی سڑکوں پر اودھم مچائے رکھا اور حکومت کو قبضہ نہیں لینے دیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو بالآخر اپنا وہ نوٹیفکیشن واپس لینا پڑا، اس تحریک کی ایک الگ داستان ہے۔

میں اپنی اس دور کی ’’وارداتوں‘‘ میں سے چند کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ میری رہائش ۱۹۸۰ء تک گکھڑ میں رہی ہے ۔ میں اس زمانے میں جمعہ پڑھانے کے لیے گکھڑ سے آیا کرتا تھا، تقریباً دس سال میں نے گکھڑ سے گوجرانوالہ آکر صبح کی نماز کے بعد درس دیا ہے ۔ہم اذان سے پہلے اٹھتے تھے، والدہ مرحومہ ناشتہ کرایاکرتی تھیں، اذان کے بعد بس پر بیٹھ کر گوندلانوالہ چوک تک آتا وہاں سے دوڑ لگاکر مسجد تک پہنچتا، نماز میں شریک ہوتا اور اس کے بعد درس دیتا تھا اور پھر مدرسہ انوار العلوم کے اسباق ہوتے تھے۔ مسجد نور کی تحریک کے دوران تقریباً تین ماہ تک یہ کیفیت رہی کہ پولیس والے مسجد کو گھیرا ڈال لیتے تھے کہ مولوی صاحب کو پکڑ نا ہے۔ میں پولیس کے گھیرے میں سے گزر کر مسجد میں داخل ہوتا تھا اور جمعہ پڑھا کر باہر نکل جاتا تھا۔ تین ماہ تک یہ آنکھ مچولی چلتی رہی۔ میاں عبد الرشید صاحب یہاں کے اے سی تھے، بعد میں اوقاف پنجاب کے سیکرٹری رہے ہیں۔ چند سال کے بعد ایک وفد کےساتھ ان کے پاس جانا ہوا تو کہنے لگے آپ کی بات بعد میں سنوں گا، پہلے یہ بتائیں کہ تین مہینے ہم نے انتہائی کوشش کی لیکن آپ کو نہ پکڑ سکے، آپ نکلتے کیسےتھے؟ ہم تو عصر تک چاروں طرف مسجد کا محاصرہ رکھتے تھے۔ میں نے کہا اپنے داؤ نہیں بتایا کرتے پھر بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
تحریکوں میں کام جاری رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ذمہ دار حضرات گرفتاری سے بچیں۔ تین مہینے یہ کیفیت رہی لیکن تقدیر تو تقدیر ہوتی ہے کہ جب گرفتاری ہوئی تو کیسے ہوئی۔ چونکہ ہم نے طے کر رکھا تھا کہ میں نے، ڈاکٹر غلام محمد مرحوم اور صوفی رستم علی قادری نے گرفتاری نہیں دینی، لیکن جب گرفتاری مقدر تھی تو یہ ہوا کہ ایک رات میں گکھڑ میں تھا، صبح سحری کے وقت اسلام آباد کے لیے نکلنا تھا مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ بعض معاملات پر مشورے کے لیے ۔ میں مغرب کے بعد گھر پہنچا اور چھوٹے بھائی قاری محمد اشرف خان ماجد مرحوم و مغفور سے کہا کہ میں آج رات گھر میں ہوں، صبح سحری کے وقت نکلنا ہے، میرے متعلق کسی کو بتانا نہیں۔ پولیس میری گرفتاری کے لیے سرگرم تھی۔ میں بھائی کو یہ سمجھا رہا تھا کہ اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ عام عادت ہوتی ہے کہ گھنٹی بجے تو آدمی دروازے پر جاتا ہے۔ بے خیالی میں دروازہ کھول کر باہر نکلا تو آگے ڈی ایس پی حشمت صاحب کھڑے تھے۔ بولے ارے مولوی صاحب! آپ کدھر ہوتے ہیں ہمارا تو آپ نے کچومر نکال دیا ہے۔ میں نے کہا میں ذرا اندر سے چادر لے آؤں۔ کہنے لگے نہیں چادر ہم منگوالیں گے، آپ تشریف لائیں ہمارے ساتھ چلیں۔ اس طرح میں پکڑا گیا۔

شیرانوالہ باغ کے چھوٹے دروازے سے اندر آئیں تو سامنے مسجدکا گیٹ ہے اور گلی میں لاہوری دروازے کی طرف مفتی عبدالواحد صاحبؒ کا چھوٹا سا سلور کی تار بنانےکا کارخانہ تھا جس کے اوپر رہائش تھی۔ مولاناعلی احمدجامیؒ کھیالی کے ہمارے دوست تھے، وہ اور میں شیرانوالہ باغ کے بڑے گیٹ سے اندر آئے مسجدمیں جانے کے لیے تو پولیس کی ایک گاڑی باغ میں داخل ہوئی۔ میں نے کہا جامی صاحب! یہ گاڑی میرے لیے آئی ہے، کہنے لگے چھوڑو یار آپ کو ہر وقت اپنی ہی فکر رہتی ہے۔ گاڑی باغ میں موجود بارہ دری کی عمارت کے پیچھے آکر کھڑی ہوگئی، ہمیں نظر نہیں آرہی تھی۔ جب ہم کچھ آگے بڑھے تو گاڑی سامنے کھڑی تھی، اللہ کی قدرت کہ جو بندہ مجھے پہنچانتا تھا وہ گاڑی میں ہی رہا باہر نہیں آیا جبکہ انسپکٹر مجھےجانتا نہیں تھا۔ وہ ہماری طرف آیا، ہم باغ کے چھوٹے گیٹ تک پہنچ چکے تھے، آکرکہنے لگا مولوی صاحب کدھر ہیں؟ میں نے کہا بڑے مولوی صاحب؟ اس کے نزدیک تو میں ہی بڑا مولوی صاحب تھا اور وہ مجھے ہی پکڑنے آیا تھا۔ کہنے لگا ہاں بڑے مولوی صاحب ۔ مفتی صاحبؒ تب حیات تھے، میں نے کہا وہ سامنے ان کا کارخانہ ہے ادھر جاکر دیکھ لو، وہاں بیٹھے ہوں گے۔ وہ ادھرہوا تو میں چھوٹی گلی میں ہوکر نکل گیا۔ جب تک انہیں معاملے کا پتہ چلا میں کہیں اور پہنچ چکا تھا۔

یہ مولاناعبدالواحدصاحبؒ کے حوالے سے چند باتیں میں نے ذکر کی ہیں۔ بڑے عالم، بڑے بزرگ، بڑے مشفق اور ہمارے استادِ محترم تھے۔ اللہ پاک نے ان سے بہت خدمت لی ہے۔ جامع مسجد شیرانوالہ باغ اور مدرسہ انوار العلوم بلکہ ہم بھی ان کی یادگار ہیں۔ اور یہ ان کا ہی فیض ہے کہ الحمد للہ نصف صدی کے قریب مجھے بھی جامع مسجد کی خدمت کی سعادت حاصل ہوئی ہے ۔ اللہ پاک ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہمیں ان کی حسنات اور نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter