مسلم امت کا معاشرتی مزاج

   
تاریخ: 
۲۵ اکتوبر ۲۰۲۲ء

جمعیت اہلسنت والجماعت ہمارے شہر کے علماء کرام کی ایک جماعت ہے جس کے تحت ہم وقتاً فوقتاً دینی کاموں کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں اور اجتماعی طور پر کام کرتے ہیں۔ تعلیمی، اصلاحی، مسلکی، دعوتی اور اس کے ساتھ رفاہی کام بھی مل جل کر کرتے رہتے ہیں۔ کافی عرصے سے یہ جماعت کام کر رہی ہے، حالیہ سیلاب کا مرحلہ آیا تو ہم نے مشاورت کی کہ اس محاذ پر بھی کردار ادا کرنا چاہیے اور متحرک ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سب ساتھیوں کو جزائے خیر دے، مولانا حافظ گلزار احمد آزاد، مفتی نعمان احمد، مولانا سفیان چیمہ، مولانا جواد قاسمی، مولانا قاسم قاسمی، اور شہر کے دیگر علماء کی ایک ٹیم ہے جنہوں نے اس حوالے سے محنت کی، شہر کے لوگوں نے تعاون کیا اور اس ٹیم نے اب تک بہت سے متاثرہ علاقوں میں حسبِ استطاعت امدادی خدمات سرانجام دی ہیں۔

اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ اب تک جو ہم نے کیا ہے یہ تو فرسٹ ایڈ کے درجے میں ہے، اس کی حیثیت ابتدائی طبی امداد کی ہے۔ سیلاب کے متاثرین لاکھوں کی تعداد میں بے گھر اور بے سہارا ہو گئے ہیں۔ یہ مہینہ دو مہینے کی بات تھی تو گزارہ ہو گیا ہے لیکن اب مہینوں کی بات نہیں ہے بلکہ جو بے گھر ہو گئے ہیں اور ان کی ہر چیز پانی میں بہہ گئی ہے وہ غریب کیا کریں گے، ان کے لیے ہمیں کچھ نہ کچھ اپنا کام جاری رکھنا چاہیے اور ان افراد کو سہارا دینا چاہیے، یہ دینی خدمت ہے اور میں اس حوالے سے دو تین گزارشات کرنا چاہوں گا اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کے حوالے سے اس کے دو تین پہلو ذکر کروں گا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا معاشرتی تعارف یہی ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بطور پیغمبر پہلا تعارف یہ ہے کہ غارِ حرا میں آپؐ پر وحی آئی تھی، یہاں سے آغاز ہوا تھا، وہ وحی سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات تھیں جو ہمارا پہلا سبق ہے جس کا تعلق تعلیم اور مدرسہ سے ہے۔ اس کے بعد حضور اکرمؐ کا دوسرا تعارف کیا ہے؟ چونکہ غارِ حرا کا سارا معاملہ اچانک اور خلاف معمول ہوا تھا اس لیے نبی کریمؐ پر گھبراہٹ طاری تھی جو کہ فطری بات ہے۔ ایسے موقع پر گھبراہٹ ہو جاتی ہے۔ حضورؐ اس عالم میں گھر گئے اور اہلیہ محترمہ کو قصہ سنایا کہ آج میرے ساتھ یہ ہوا ہے اور فرمایا کہ ’’خشیت علی نفسی‘‘ مجھے اپنے بارے میں ڈر لگنے لگا ہے۔ اچانک کوئی واقعہ پیش آجائے تو ایسے خدشات لاحق ہو جاتے ہیں کہ پتا نہیں کیا ہو گا۔ فرمایا، تھوڑی دیر آرام کرتا ہوں۔ تو اماں جی حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ نے جناب نبی کریمؐ کو یہ کہہ کر تسلی دی ’’کلا واللہ لا یخزیک اللہ ابدا‘‘ میرے سردار! آپ مت گھبرائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا معجزہ یہ گنا کرتا ہوں کہ بیوی خاوند کی صفات بیان کر رہی ہے اور تسلی دے رہی ہے کہ آپ مطمئن رہیں، اللہ کی قسم وہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ذکر کی ’’انک لتصل الرحم و تحمل الکل و تکسب المعدوم وتقری الضیف و تعین علی نوائب الحق‘‘ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، رشتے جوڑ کر رکھتے ہیں، بوجھ میں دبے لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں، ضرورتمندوں کو کما کر کھلاتے ہیں، مسافروں اور مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں اور ناگہانی آفات و حادثات میں لوگوں کے مددگار بنتے ہیں۔ اس لیے اللہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا تعارف ہے۔ آپؐ کا پہلا تعارف وحی ہے اور اس کے کچھ دیر بعد اسی دن کا دوسرا تعارف یہ ہے کہ جو حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ عنہا نے آپ کے اوصاف بیان کیے۔ وہ پانچ آیات ہیں اور یہ پانچ صفات ہیں۔ یہ اسلام کا پہلا تعارف ہے اور نبی کریمؐ کی یہ صفات دین کا خلاصہ ہے۔

اسی طرح بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق یہ جملے جو حضرت خدیجۃ الکبرٰی نے حضور اکرمؐ کو تسلی دیتے ہوئےآپؐ کے خدشہ کو دور کرنے کے لیے عرض کیے تھے، بعینہ یہی جملے ایک کافر سردار نے حضرت صدیق اکبرؓ سے کہے۔ جب مکہ مکرمہ میں مظالم کی انتہا ہو گئی اور بہت سے لوگ حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے، حضرت صدیق اکبرؓ بھی متاثرین میں سے تھے، کافر بہت تنگ کرتے تھے، طعنے دیتے تھے، انہوں نے گھر کے صحن میں مسجد بنانا چاہی تو کافروں نے نہیں بنانے دی، بہت کچھ ہوا۔ بالآخر آدمی کہاں تک برداشت کرے، چنانچہ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ حضرت صدیق اکبرؓ نے جناب نبی اکرمؐ سے اجازت چاہی کہ حضرت اگر اجازت ہو میں بھی کہیں جا کر سر چھپا لوں؟ حضورؐ نے اجازت دے دی۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ انہوں نے سامان وغیرہ تیار کیا اور ہجرت کے قصد سے گھر سے نکل گئے۔ ایک دن کا سفر کر لیا تھا کہ راستے میں ایک کافر سردار ابن الدغنہ ملا، اس نے حضرت صدیق اکبرؓ سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اس نے پوچھا کیوں؟ تو بتایا کہ مکہ کے لوگ عبادت نہیں کرنے دیتے، اللہ کا نام نہیں لینے دیتے، میں بے بس ہو گیا ہوں اور شہر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اس نے پوچھا کہاں جا رہے ہو تو آپ نے فرمایا کہ جہاں کہیں جگہ مل گئی چلا جاؤں گا۔ اس پر ابن الدغنہ نے کہا نہیں، تیرے جیسے آدمی شہر چھوڑ کر نہیں جاتے اور تیرے جیسے آدمیوں کو شہر چھوڑنے پر مجبور بھی نہیں کیا جاتا۔ ’’انک لتصل الرحم وتحمل الکل الکسب المعدوم و تقری الضیف و تعین علی نوائب الحق‘‘ وہی جملے جو حضرت خدیجہؓ نے حضور نبی کریمؐ سے کہے تھے، وہی جملے ابن الدغنہ نے حضرت صدیق اکبرؓ سے کہے اور کہا میں آپ کو نہیں جانے دوں گا، آپ میری ضمانت پر واپس چلیں، مکہ والوں سے میں بات کروں گا۔ وہ حضرت صدیق اکبرؓ کو لے کر مکہ واپس آ گیا اور ان سے کہا کہ آپ گھر جائیں میں مکہ کے سرداروں سے بات کرتا ہوں۔

چنانچہ ابن الدغنہ نے چوہدریوں اور وڈیروں سے مل کر کہا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ ابوبکرؓ جیسے آدمی کو شہر چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہو تو تمہارے پاس رہ کیا جائے گا؟ ابوبکرؓ جیسے لوگ شہر چھوڑ جائیں تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ وہ تو خدمت گزار آدمی ہے، لوگوں کی خدمت کرتا ہے، مجبوروں کے کام آتا ہے، ان کے لیے محنت کرتا ہے، ابوبکر آج کے بعد میری گارنٹی پر ہو گا۔ اس پر قریش کے سرداروں نے کہا کہ ہم تمہاری بات تسلیم کرتے ہیں اور تمہاری گارنٹی رد نہیں کرتے لیکن ایک شرط پر، یہ شرط ابوبکر سے منوا لو کہ اس نے جو کچھ کرنا ہے گھر کے اندر کرے، گھر سے باہر نہ کرے۔ ابن الدغنہ نے حضرت صدیق اکبرؓ سے بات کی۔ چونکہ آپ اس کی گارنٹی پر واپس آ چکے تھے اس لیے کہا ٹھیک ہے۔ چند دن گزرے، حضرت صدیق اکبرؓ گھر کی چار دیواری کے اندر کیسے بند رہ سکتے تھے؟ سوچا کہ اگر میں نے لوگوں کو دعوت نہیں دینی اور دین کا کام کھلے طور پر نہیں کرتا تو پھر میں کیا کروں گا؟ چنانچہ ابن الدغنہ کے گھر گئے اور اسے کہا کہ میں تمہاری پناہ واپس کرتا ہوں، میں چار دیواری کے اندر بند نہیں رہ سکتا، امن و سلامتی کے ساتھ کام کروں گا لیکن کھلے طور پر کروں گا۔ اور پھر حرم میں جا کر اعلان کیا کہ میں نے ابن الدغنہ کی گارنٹی واپس کر دی ہے، اب ابن الدغنہ میری کسی بات کا ذمہ دار نہیں ہے۔

یہ واقعہ اس حوالے سے ذکر کیا ہے کہ جو تعارف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت خدیجہؓ نے کرایا تھا وہی تعارف حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ابن الدغنہ نے کرایا۔ میں اس کی تعبیر یوں کرتا ہوں کہ جو مزاج نبوت کا تھا وہی مزاج خلافت کا تھا۔ نبوت کی اساس بھی یہی ہے او رخلافت کی اساس بھی یہی ہے۔ ہماری تو بنیاد یہی ہے جسے ہم بھول گئے ہیں۔ ’’انک لتصل الرحم و تحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف و تعین علی نوائب الحق‘‘ یہ ہم میں سے ہر ایک کا سبق ہے جو ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرحلہ یہ بھی پیش آیا جب سینکڑوں کی تعداد میں بلکہ بعد میں ہزاروں لوگ ایسے تھے جو ہجرت کر کے یثرب چلے آئے تھے۔ حضور اکرمؐ وہاں ٹھکانہ کر کے بیٹھ گئے، مختلف اطراف سے ٹولیاں آ رہی تھیں، لوگ گھر بار چھوڑ کر آ رہے تھے، بے گھر اور بے وسیلہ ہو کر آ رہے تھے، بلکہ حضورؐ نے مسلمانوں سے خود کہا تھا کہ مدینہ میں آجاؤ۔ انصار مدینہ نے جس شوق اور جذبے سے ان کی مدد کی اور ان کو سنبھالا دیا وہ کمال ہے۔ قرآن کریم نے انصارِ مدینہ کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی ہے ’’یؤثرون علی انفسم ولو کان بھم خصاصۃ‘‘۔ انصار نے مہاجرین کو خوش آمدید کہا کہ آئیے جناب! یہ آپ کے گھر ہیں ان کو سنبھالیے۔ مہاجرین صحابہ کو سنبھالنے کے لیے نبی کریمؐ نے کیا ہی خوبصورت نظام دیا۔

مدینہ اس وقت کوئی بڑا شہر نہیں تھا۔ کہتے ہیں کہ جو آج مسجد نبوی کی چار دیواری ہے، حضورؐ کے زمانے کا سارا مدینہ اس کے اندر ہے۔ سینکڑوں لوگ ہجرت کر کے آ گئے تو نبی اکرمؐ نے یہ خوبصورت طریقہ اختیار کیاکہ ایک مہاجر فرد یا خاندان کو ایک انصاری خاندان کے حوالے کر دیا اور مواخات فرما دی کہ یہ تمہارا بھائی ہے اسے سنبھالو۔ ایک گھر کے لیے ایک دو آدمیوں کو سنبھالنا آسان ہوتا ہے۔ اجتماعی نظم کا موقع نہیں تھا کہ الگ محلہ بناتے، الگ کالونی بساتے، الگ کیمپ لگواتے۔ حضورؐ نے یہ کام نہیں کیا بلکہ ایک مہاجر کو ایک انصاری کے حوالے کر دیا کہ یہ تمہارا بھائی ہے، اس کو سنبھالنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھر کے صحن میں بیٹھ کر یہ تقسیم فرمائی کہ یہ تمہارا بھائی ہے اور یہ تمہارا بھائی ہے۔ جب آپؐ نے مواخات فرما دی تو انصار بھائیوں نے کمال کر دیا۔ ایک واقعہ عرض کر دیتا ہوں، ایک طرف سے ایثار اور دوسری طرف سے بے نیازی کی حد دیکھیں۔

بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ مجھے حضورؐ نے ایک انصاری صحابی حضرت سعدؓ کا بھائی بنایا کہ ان کو لے جاؤ یہ تمہارے ذمے ہیں۔ اب ان کا ایثار کا جذبہ دیکھیے اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کی بے نیازی دیکھیے۔ یہ دونوں جذبے مل کر کام کرتے ہیں کہ ایک طرف سے ایثار ہو اور دوسری طرف سے بے نیازی ہو، یہ ہماری معاشرتی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ حضرت سعدؓ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کو گھر لے گئے اور ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو میرا بھائی کہا ہے اور میرے حوالے کیا ہے۔ اس لیے یہ میرا گھر آج کے بعد آدھا آپ کا ہے اور آدھا میرا ہے۔ یہاں تک فرمایا کہ یہ میری دو بیویاں ہیں جس کو آپ کہتے ہیں میں طلاق دیتا ہوں آپ اس سے نکاح کر لیں۔ ادھر سے ایثار کی یہ انتہا ہے اور ادھر سے بے نیازی دیکھیں کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ بھائی، مجھے ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا گھر، اثاثے، غلہ اور بیویاں سب چیزیں آپ کو مبارک ہوں۔ مجھے صرف رات کو سونے کے لیے جگہ چاہیے، اور کہا کہ میں بیوپاری آدمی ہوں، دن کو کام کرنے کے لیے بازار میں جگہ چاہیے۔ اس کو آج کل تہہ بازاری کہتے ہیں کہ کہیں جگہ مل جائے تو میں کھڑا ہو کر سودا وغیرہ بیچ کر اپنا گزارا کر لوں گا۔ ان انصاری صحابی نے کہا ٹھیک ہے، یہ آپ کا گھر ہے، رات کو یہاں آرام کریں۔ اور صبح بنو قینقاع کے بازار میں گئے اور کسی جاننے والے سے بات کی۔ اس زمانے میں مدینہ منورہ میں سب سے مالدار یہودیوں کا قبیلہ بنو قینقاع تھا جو کہ سنار تھے، صرافہ کا کام کرتے تھے۔ وہاں صرافہ بازار میں ایک جگہ کھڑے ہونے کی جگہ مل گئی۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کاروباری آدمی تھے، انہوں نے وہاں چیزیں لانا اور بیچنا شروع کر دیں، میں تفصیلات میں نہیں جاتا، صرف یہ بتاتا ہوں کہ اس بے نیازی کی برکت کیا ہوئی؟

حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کافی عرصہ حیات رہے، جب ان کا انتقال ہوا تو چار بیویاں تھیں۔ بیویوں کو اولاد کی صورت میں وراثت میں آٹھواں حصہ ملتا ہے۔ آٹھواں حصہ چار پر تقسیم ہو گا تو ایک بیوی کا بتیسواں حصہ بنے گا۔ پندرہ بیس سال پہلے بخاری شریف کی یہ روایت پڑھ رہا تھا تو میں نے طلباء سے کہا کہ صرافہ بازار جاؤ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کی جائیداد کا حساب لگاؤ کہ مارکیٹ میں یہ رقم کتنی مالیت کی بنتی ہے۔ ایک بیوی کے حصے کا اندازہ اس دور میں اسی ہزار کے لگ بھگ بتایا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ بے نیازی پر جو برکتیں دیتے ہیں کسی چیز پر نہیں دیتے۔

بہرحال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مواخات قائم کی تو سارے مہاجرین سنبھالے گئے۔ مسلم سوسائٹی کا یہ مزاج ہے، اس پر ایک اور واقعہ عرض کر دیتا ہوں۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر عید الاضحٰی کی نماز پڑھائی اور خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے لوگوں پر یہ پابندی لگا دی کہ کسی نے تین دن سے زیادہ گوشت ذخیرہ نہیں کرنا۔ گوشت کھاؤ یا کھلاؤ، تین دن کے بعد کسی کے گھر میں گوشت نہ ہو۔ ذخیرہ کرنے کے لیے آج کے دور میں تو فریزر ہیں، اس زمانے میں وہ نمک وغیرہ لگا کر خشک کر لیتے تھے اور سال بھر استعمال کرتے تھے۔ نبی کریمؐ نے اعلان فرما دیا کہ تین دن کے اندر اندر کھاؤ یا کھلاؤ، چوتھے دن کسی کے گھر میں گوشت کی بوٹی نہیں ہونی چاہیے۔ چنانچہ لوگوں نے اس ارشاد پر عمل کیا۔ جب اگلا سال آیا تو حضورؐ عید کی نماز پڑھا کر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا یا رسول اللہ، آپ نے پچھلے سال گوشت ذخیرہ کرنے کی پابندی لگائی تھی وہ پابندی اب بھی ہے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں وہ پابندی صرف پچھلے سال کے لیے تھی، ’’کلوا واطعموا وادخروا‘‘ اب کھاؤ، کھلاؤ اور ذخیرہ کرو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

پچھلے سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن کی پابندی لگائی تھی اس کی وجہ آپؐ نے خود بیان فرمائی کہ اس وقت یہاں کچھ قبائل ہجرت کر کے آئے تھے جو بے سہارا تھے تو میں نے سوچا کہ کم از کم یہ تو ہو کہ گوشت ذخیرہ کرنے کی بجائے ان کو کھلا دیں، ان کی خاطر پابندی لگائی تھی تاکہ ان کی ضروریات پوری ہوں۔ اب وہ صورتحال نہیں ہے اس لیے پابندی باقی نہیں ہے۔

ان گزارشات کے ساتھ دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے کہ ایسی اسلامی شریعت کے نفاذ کی سعادت ہمیں مل جائے تو اسلامی ریاست پابندیاں بھی لگا سکتی ہے کہ یہ کرنا ہے اور وہ نہیں کرنا۔ میں نے یہ دو تین حوالے اس لیے دیے ہیں کہ اس حوالے سے سنتِ نبوی کیا ہے اور مسلم سوسائٹی کا مزاج کیا ہے۔ سنتِ نبویؐ یہ ہے کہ اپنے بھائیوں کی صرف مدد کرنا کافی نہیں ہے بلکہ انہیں سنبھالنا اور ایڈجسٹ کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں بھی بے سہارا، ضرورتمند اور بے وسیلہ لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جو لوگ بے وسیلہ ہوں یا کسی حادثے میں بے سہارا ہو جائیں تو ان کی مدد کرنا اور انہیں سنبھالنا اسلامی معاشرے کا مزاج اور سنتِ نبویؐ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم صحیح طریقے سے اپنی یہ ذمہ داری پوری کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter