دارالعلوم مدنیہ ڈسکہ

   
تاریخ اشاعت: 
۸ مئی ۱۹۸۷ء

گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے وسط میں واقع ڈسکہ ملک کے اہم صنعتی مراکز میں شمار ہوتا ہے جہاں زرعی مشینری کے آلات اور لوہے کی الماریوں کی صنعت نے خاصی ترقی کی ہے، اس کے علاوہ یہ شہر ہسپتالوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ اور اس کی شہرت کا ایک اور بھی باعث ہے اور وہ ہے بین الاقوامی شہرت کے قادیانی لیڈر آنجہانی ظفر اللہ خان ڈسکہ کے رہنے والے تھے اور آج بھی ان کا بیشتر خاندان ڈسکہ میں رہائش پذیر ہے۔ چوہدری ظفر اللہ خان کو قیام پاکستان سے قبل سرکاری حلقوں میں خاصی اہمیت حاصل تھی اور پاکستان بننے کے بعد جب انہیں ملک کا پہلا وزیرخارجہ بنایا گیا تو ان کے اثر و رسوخ اور رعب و دبدبہ میں خاصا اضافہ ہوگیا، ان کے بھائی شکر اللہ خان بھی اعلیٰ سرکاری افسر تھے۔ اس وجہ سے ڈسکہ شہر اور علاقہ دینی کاموں کے لیے مشکل اور سنگلاخ زمین سمجھا جاتا تھا اور ظفر اللہ خان کے خاندان کا اثر و رسوخ اور رعب و دبدبہ اس علاقہ میں مسلمانوں کے لیے بڑی رکاوٹ بنا ہوا تھا۔

مگر ۱۹۵۸ء میں ضلع مظفر آباد آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے نوجوان عالم دین مولانا محمد فیروز خان دارالعلوم دیوبند سے سندِ فراغت حاصل کر کے آئے تو انہوں نے اسی سنگلاخ اور مشکل زمین کو دینی محنت اور تگ و تاز کے لیے منتخب کیا۔ انہوں نے اپنے مقامی رفقاء کے ہمراہ ایک چھوٹی سی مسجد سے کام کا آغاز کیا اور چوہدری ظفر اللہ خان کے گھر کے بالکل سامنے واقع قطعہ زمین پر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں ایک دینی ادارہ ’’دارالعلوم مدنیہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ مولانا محمد فیروز خان ثاقب حضرت مدنی کے آخری دور کے تلامذہ میں سے ہیں، جری، جسور اور بہادر عالم دین ہیں، دبنے اور جھکنے سے ناواقف ہیں اور ان کی اسی افتادِ طبع نے انہیں چوہدری ظفر اللہ خان کے محلہ میں بلکہ ان کے مکانات کے سامنے لا کھڑا کیا۔ ظفر اللہ خان کے خاندان کی طرف سے مخالفت اور مزاحمت کا ہر حربہ آزمایا گیا مگر مولانا محمد فیروز خان ثاقب اور ان کے جانباز رفقاء کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی، معاملہ آمنے سامنے مقابلہ تک بھی پہنچا مگر بازی حق کے ہاتھ میں رہی۔

دارالعلوم مدنیہ کے آغاز میں اسی مقام پر قادیانیوں کے ساتھ ایک معرکۃ الآراء مناظرہ ہوا جس میں مسلمانوں کی طرف سے مناظر حضرت مولانا لال حسین اختر رحمہ اللہ تھے۔ اس مناظرہ میں مسلمانوں کی شاندار فتح نے کفر کے حوصلے پست کر دیے اور مسلمانوں کی پیش قدمی کے راستے کھول دیے۔ مجھے ذاتی طور پر وہ منظر ابھی تک یاد ہے، میرا طاب علمی کا دور تھا، خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی قدس اللہ سرہ العزیز جلسہ عام سے خطاب کے لیے ڈسکہ تشریف لائے، میں بھی دیگر طلبہ کے ہمراہ جلسہ سننے کے لیے گوجرانوالہ سے ڈسکہ گیا۔ چوہدری ظفر اللہ خان کے گھر کے سامنے دارالعلوم مدنیہ کے گراؤنڈ میں اسٹیج لگا ہوا تھا اور مولانا فیروز خان کندھے سے بندوق لٹکائے اسٹیج پر گرج رہے تھے کہ جس نے جلسہ میں شرارت کی کوشش کی وہ اپنے انجام کا خود ذمہ دار ہوگا۔ پھر اس کے بعد خطیب پاکستان اپنے مخصوص انداز میں قادیانیوں کا پوسٹ مارٹم کر رہے تھے اور مولانا محمد فیروز خان بندوق اٹھائے آخر جلسہ تک ساتھ کھڑے رہے۔

آج دارالعلوم مدنیہ پندرہ کمروں پر مشتمل عمارت میں ترقی کی منازل طے کر رہا ہے، ان میں ایک دارالحدیث ہے اور ایک حفظ و ناظرہ کے بچوں کی درسگاہ ہے جس میں تین سو کے قریب بچوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، اس کے علاوہ مہتمم اور مدرسین کے رہائشی کوارٹر بھی ہیں۔ دارالعلوم مدنیہ وفاق المدارس کے ساتھ ملحق ہے اور وفاق کے نظام کے تحت اس میں دورۂ حدیث تک کی تعلیم کا اہتمام ہے۔ دور دراز سے مسافر طلبہ کثیر تعداد میں دارالعلوم میں مقیم رہتے ہیں، ماہر اساتذہ درسِ نظامی اور حفظ و ناظرہ کے شعبوں میں تعلیم دیتے ہیں، خود مولانا محمد فیروز خان بھی درسِ نظامی کے بالخصوص معقولات و ادب کے ممتاز مدرسین میں شمار ہوتے ہیں۔

دارالعلوم مدنیہ کی ایک شخ ڈسکہ کوٹ محلہ ٹھٹھیاراں میں کام کر رہی ہے جبکہ دوسری شاخ موضع دھیرکے میں وسیع رقبہ پر تعمیر ہو رہی ہے اور حفظ و ناظرہ کا کام شروع ہو چکا ہے۔دارالعلوم کے زیراہتمام ایک مدرسۃ البنات کام کر رہا ہے جس میں دو معلمات بچیوں کو دینی علوم کے زیور سے آراستہ کرنے میں مصروف ہیں۔

دارالعلوم مدنیہ سے تعلیم حاصل کرنے والے بیسیوں علماء ملک کے مختلف حصوں میں دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جبکہ تین طلبہ ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

دارالعلوم مدنیہ اپنے اکابر و اسلاف کے مشن پر چلتے ہوئے علاقہ میں توحید و سنت کے پرچار، رسوم و بدعات کے خاتمہ اور باطل فتنوں کے تعاقب کے لیے تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہتا ہے۔ دارالعلوم مدنیہ میں بڑے بڑے تبلیغی اجتماعات سے اب تک حضرت الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی، حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ، حضرت مولانا دوست محمد قریشیؒ، حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ، حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ، حضرت مولانا محمد حیاتؒ، حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ، حضرت مولانا مفتی بشیر احمد پسروریؒ، حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر، حضرت مولانا قاضی محمد اسلم، حضرت مولانا محمد چراغ اور دیگر حضرات خطاب کر چکے ہیں۔

دارالعلوم مدنیہ بلاشبہ ضلع سیالکوٹ میں مسلکی اور جماعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے اور حضرت مولانا محمد فیروز خان ثاقب ہر دور میں دینی تحریکات میں پیش پیش رہے ہیں۔ مولانا موصوف ان دنوں جمعیۃ العلماء اسلام گوجرانوالہ ڈویژن کے امیر، مجلس عمل تحفظ ختم نبوت ضلع سیالکوٹ اور متحدہ شریعت محاذ ضلع سیالکوٹ کے صدر ہیں۔ اور ان کی قیادت میں ضلع سیالکوٹ کے علماء حق اپنے اکابر کے مشن اور جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter