موجودہ دور میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلقات کار کی نوعیت

   
تاریخ: 
۲۴ جنوری ۲۰۱۸ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج ہماری گفتگو کا عنوان ہے کہ ایک مسلمان ریاست میں غیر مسلموں کے کیا حقوق و مسائل ہیں اور کسی غیر مسلم ریاست میں رہنے والے مسلمانوں کے معاملات کی نوعیت کیا ہے؟ ہمارے ہاں جب پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور برما سمیت یہ خطہ، جو برصغیر کہلاتا ہے، متحد تھا اور مسلمانوں کی حکمرانی تھی تو اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں فقہی بحث و مباحثہ اس قسم کے عنوانات سے ہوتا تھا کہ یہاں رہنے والے ذمی ہیں یا معاہد ہیں، اور یہاں کی زمینیں عشری ہیں یا خراجی ہیں۔ اس علاقہ میں اسلام مجاہدین کی جنگوں کے ذریعے بھی آیا ہے، صوفیاء کرام کی دعوت و اصلاح کی محنت سے بھی آیا ہے اور تاجروں کی آمد و رفت بھی فروغِ اسلام کا ذریعہ بنی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جہاد کے ذریعے مغلوب ہونے والے لوگوں اور علاقوں کی حیثیت از خود مسلمان ہو جانے والے لوگوں اور علاقوں سے مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے اس حوالہ سے یہاں ہمارے فقہی مباحث کا ایک وسیع دائرہ ماضی کے علمی ذخیرہ میں ملتا ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دس سالہ مدنی دور میں ہمیں اس سلسلہ میں مختلف صورتیں دکھائی دیتی ہیں:

  1. ریاست مدینہ جنگ اور غلبہ کے ذریعے قائم نہیں ہوئی تھی بلکہ قبائل کے ساتھ مسلسل گفتگو اور مذاکرات کے ذریعہ وجود میں آئی تھی جس میں یہودی اور دیگر غیر مسلم قبائل بھی شامل تھے اور ’’میثاقِ مدینہ‘‘ ایک باہمی معاہدہ کی صورت میں اس ریاست کے دستور کی حیثیت رکھتا تھا۔
  2. خیبر اور بہت سے دیگر علاقے جنگ اور جہاد کے ذریعے اس ریاست میں شامل ہوئے تھے۔
  3. یمن کے بیشتر قبائل خود مسلمان ہوئے تھے جس کے نتیجے میں یمن ریاست مدینہ کا حصہ بن گیا تھا۔
  4. نجران کے عیسائی ایک معاہدہ کے تحت ریاست مدینہ کا حصہ بنے تھے۔

چنانچہ دورِ نبویؐ کی انہی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مسلمان ریاست کا حصہ بننے والے خطوں اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں فقہاء کرام نے الگ الگ فقہی ابواب و احکام مرتب فرمائے اور متحدہ ہندوستان پر مسلمانوں کے اقتدار کے دور میں بھی بحث و مباحثہ کا یہ تنوع موجود رہا جس کی ایک مثال یہاں کی زمین کے عشری یا خراجی ہونے کی بحث میں ملتی ہے۔ لیکن جب برصغیر پر انگریزوں کا اقتدار قائم ہو جانے کے بعد دہلی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا انتظامی و مالیاتی کنٹرول قائم ہونے پر حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ اور حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا اور اہل علم کے عمومی حلقوں میں اس فتویٰ کو قبول کر لیا گیا جس کے نتیجے میں فرنگی اقتدار کے خلاف مسلح جنگوں کا وسیع سلسلہ شروع ہوگیا تو میری طالب علمانہ رائے میں یہ سارے فقہی مباحث ماضی کا حصہ بن گئے تھے اور اس پورے خطہ کی شرعی حیثیت یکسر تبدیل ہو گئی تھی۔ اس سے قبل اس علاقہ میں مسلمان غالب اور غیر مسلم مغلوب تھے جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری قائم ہونے کے بعد یہ پہلے کے غالب و مغلوب دونوں مغلوب ہوگئے تھے اور دونوں نے مل کر اس نئے غلبہ کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اب ان کے درمیان غالب اور مغلوب کا تعلق نہیں رہا تھا بلکہ مستقبل کے معاملات میں یہ باہمی شریک کار بن گئے تھے اور اس طرح ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا جسے شرعی اور فقہی حوالہ سے نئی صورتحال کے طور پر دیکھنا ضروری ہے۔ یہ میری طالب علمانہ رائے ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ جنگ آزادی اور اس کے بعد کے معاملات کے حوالہ سے اس خطہ کے مسلم اور غیر مسلم دونوں باہمی معاہد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے باہمی معاملات کو ان معاہدات کے دائرہ میں دیکھنا ہوگا جو حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے فتویٰ کے بعد جنگ آزادی میں یہاں کی مسلم اور غیر مسلم اقوام کے درمیان باہمی اشتراک عمل کی صورت میں وجود میں آئے تھے او یہ عملی اور خاموش معاہدات ہی آئندہ کے سارے معاملات کی بنیاد بنتے ہیں۔

اس پس منظر میں پاکستان بننے کے بعد اس ریاست کے تمام غیر مسلم طبقوں کی حیثیت معاہدین کی بنتی ہے اور ان پر ذمی کا اطلاق درست معلوم نہیں ہوتا اس لیے کہ جنگ آزادی اور تحریک پاکستان میں یہ سب باہم شریک کار تھے جبکہ پاکستان کے قیام کے بعد ’’دستور پاکستان‘‘ کی صورت میں ہمارے درمیان ایک سماجی معاہدہ تشکیل پا چکا ہے۔ اس لیے جو غیر مسلم حلقے پاکستان کے شہری کے طور پر دستور پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی پابندی کا عہد کرتے ہیں وہ ہمارے معاہدین ہیں اور ان کے ساتھ دستور میں ہمارے جو معاملات طے پائے ہیں ان کی پابندی کرنا اور دستور کے مطابق وطنِ عزیز کے غیر مسلم باشندوں کو ان کے حقوق ادا کرنا بلکہ ان کی پاسداری کرنا ہماری قومی اور شرعی ذمہ داری قرار پاتی ہے۔ البتہ قادیانیوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے اس لیے کہ وہ اس دستوری معاہدہ کو تسلیم نہیں کر رہے اور اس سے مسلسل انکاری ہیں۔ چنانچہ جب تک وہ ملک کی دیگر غیر مسلم آبادیوں کی طرح دستور پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے اور اس پر عملدرآمد کی ضمانت نہیں دیتے انہیں دوسری غیر مسلم آبادیوں کی طرح برابر کے حقوق نہیں دیے جا سکتے۔

یہ تو ایک مسلم ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں کی بات ہے جس کے بارے میں پاکستان کے تناظر میں ہم نے چند گزارشات پیش کی ہیں۔ اب ہم مسئلہ کے دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں کہ غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو وہاں کس طرح رہنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ہم اپنی معروضات کو درج ذیل دائروں میں پیش کریں گے۔

  1. امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت دیگر غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے جو وہاں ایک معاہدے کے تحت گئے ہیں جس کے ذریعے انہیں وہاں کا ویزا اور رہنے کی اجازت ملی ہے، انہیں اس معاہدہ کی پابندی کرنی چاہیے۔
  2. غیر مسلم ممالک میں رہتے ہوئے اپنے عقیدہ و ایمان، شرعی فرائض و واجبات کی ادائیگی اور اپنی اگلی نسل کے ایمان و اعمال کی حفاظت کا اہتمام کرنا مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اگر کسی غیر مسلم ماحول میں وہ اپنے دینی فرائض و احکام پر عمل نہیں کر سکتے یا اپنی نئی نسل کے ایمان و عقیدہ اور دین سے وابستگی برقرار رہنے سے مطمئن نہیں ہیں تو ان کا اس ماحول میں رہنے کا شرعی جواز باقی نہیں رہے گا۔
  3. مسلمانوں کو وہاں کے اجتماعی نظام میں شرکت کے مواقع کو استعمال کرنا چاہیے بلکہ ایسے مواقع تلاش کر کے ان سے استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ اسی صورت میں وہاں کے نظام و ماحول میں مسلمانوں کے حقوق و مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کے لیے باوقار زندگی کی صورتیں مہیا کر سکتے ہیں۔
  4. ان غیر مسلم ممالک کے قانون و دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے اگر اپنے شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کے لیے کوئی قانونی سہولت میسر ہو تو اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے۔ جیسا کہ امریکہ، جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک کے دستور و قانون میں مسلمانوں کے لیے نکاح و طلاق اور دیگر خاندانی معاملات میں باہمی تنازعات کا شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے لیے شرعی عدالتوں کے قیام کی گنجائش موجود ہے اور وہاں کے مسلمان اس سے کسی حد تک استفادہ بھی کر رہے ہیں۔
  5. اور آخری بات یہ عرض ہے کہ کسی غیر مسلم معاشرہ میں رہنے والے مسلمان وہاں اسلام کے سفیر کی حیثیت رکھتے ہیں، انہیں وہاں کے ماحول کے مطابق اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کوئی مؤثر طریق کار ضرور اختیار کرنا چاہیے۔
2016ء سے
Flag Counter