افغانستان، پولینڈ اور اسرائیل

   
تاریخ : 
یکم جنوری ۱۹۸۲ء

افغانستان میں روسی جارحیت کی شدت میں ابھی کمی نہیں ہوئی تھی کہ مشرقی یورپ کے ملک پولینڈ میں ’’کمیونسٹ مارشل لاء‘‘ کا نفاذ اور اسرائیل کی طرف سے جولان کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرنے کی کاروائی نے عالمی سیاست کو ایک نیا رخ دے دیا ہے اور پوری دنیا اس نئی کشمکش کے نتائج پر سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے۔

افغانستان میں عالمی کمیونزم اپنے فروغ اور پولینڈ میں بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے لیکن افغانستان میں غیور افغان عوام اور پولینڈ میں آزاد مزدور تنظیم سالیڈیریٹی سوویت یونین کے ارادوں کی تکمیل میں حائل ہیں۔ کمیونسٹ تحریک نے سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام اور استعماریت کے خلاف مظلوم اقوام و طبقات کے حقوق کے تحفظ کے نعرے کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور مظلوم افراد و طبقات نے اسی جذبہ کے تحت کمیونزم کو اپنا نصب العین قرار دیا تھا۔ لیکن زیادہ دیر تک یہ تحریک اپنے استعمار دشمن کردار کو برقرار نہ رکھ سکی اور مفادات کی جنگ نے خود اسے استعماری قوتوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ کمیونزم اصل میں ردعمل تھا استعماریت، سرمایہ داری اور جاگیرداری کی چیرہ دستیوں کا، لیکن اب خود کمیونزم کی چیرہ دستیوں اور جبر و استبداد کے خلاف ردعمل کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ جسے جبر و قوت کے ذریعے دبانے کے لیے سوویت یونین نے پہلے ہنگری اور چیکوسلواکیہ میں فوجی طاقت استعمال کی اور اب پولینڈ کی صورتحال بھی کم و بیش وہی رخ اختیار کرتی جا رہی ہے کہ یا تو روس کو قوت کے ذریعے پولینڈ میں مزدوروں کی آزادروی کو دبانا ہوگا اور یا پھر کمیونزم کے لیے بوریا بستر سمیٹنے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہ جائے گا۔

پولینڈ کی صورتحال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قیاس کے خلاف نہیں ہوگا کہ کمیونزم کو ’’ریورس گیئر‘‘ لگ چکا ہے اور اب وہ پیش قدمی کی بجائے دفاع کے مورچوں پر ہے۔ ان حالات میں کسی عنصر کا اس غلط فہمی کا شکار ہو جانا کہ روس افغانستان میں اپنے قدم مضبوط کرنے کے بعد کمیونزم کی سرحدوں کو وسیع کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ روس کو بالآخر افغانستان سے واپس جانا ہے اور عالمی حالات مستقبل کا جو نقشہ دکھاتے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ جارحیت اور فوجی مداخلت کے ذریعے روس کسی ملک اور قوم کو کتنا ہی نشانہ بنا لے لیکن کمیونزم کے نظریاتی تحفظ کی جنگ بالآخر اسے اپنی سرحدوں کے اندر ہی لڑنا ہوگی۔

ادھر پولینڈ کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے میں اسرائیل نے جس عجلت اور چابکدستی سے کام لیا ہے اس پر اس کی موقع شناسی کی داد دینا پڑتی ہے۔ اس نے عالمی رائے عامہ کو پولینڈ کی طرف ہمہ تن متوجہ پا کر جولان کے اس علاقہ کو اسرائیل میں ضم کرنے کی کاروائی مکمل کر لی جس پر اس نے ۱۹۶۷ء میں قبضہ کیا تھا۔ اسرائیل کی اس کاروائی کو اگرچہ عالمی رائے عامہ اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے رد کر دیا ہے اور بظاہر امریکہ نے بھی خفگی کا اظہار کیا ہے لیکن اسرائیلی کاروائی سے دو باتیں عیاں ہیں:

  1. ایک یہ کہ وہ ملتِ اسلامیہ کو نقصان پہنچانے اور اپنے ناجائز قبضہ کے استحکام کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے کھونے کے لیے تیار نہیں۔
  2. اور دوسری یہ کہ ظاہری خفتگی کے باوجود اسرائیل کی قوت و طاقت کا اصل سرچشمہ امریکہ بہادر ہے جس کی پشت پناہی کے بغیر اسرائیل کوئی قدم اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا۔

جولان کا علاقہ شام کی ملکیت ہے اور زود یا بدیر شام ہی کے پاس واپس جائے گا۔ لیکن اسرائیل کی اس حرکت نے عالمِ اسلام کو سبق دیا ہے کہ اپنے حقوق اور مفادات کے تحفظ کی جنگ میں انہیں ہر وقت چوکنا رہنا ہوگا اور باہمی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter