معاشرتی عدل وانصاف میں پولیس کا کردار

   
تاریخ: 
۱۳ فروری ۲۰۱۰ء

گوجرانوالہ کے ڈی آئی جی پولیس جناب ذوالفقار احمد چیمہ وقتاً فوقتاً اپنے محکمہ کے افسران کے لیے سول لائن گوجرانوالہ میں ریفریشر کورسز کا اہتمام کرتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی مجھے بھی یہ اعزاز بخشتے ہیں کہ پولیس افسران کے سامنے کچھ معروضات پیش کروں۔ اسی سلسلہ کے ایک کورس میں ۱۳ فروری ۲۰۱۰ء کو ’’معاشرتی عدل وانصاف میں پولیس کا کردار‘‘ کے موضوع پر کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ ۔ ہمارے ڈی آئی جی صاحب باذوق آدمی ہیں، سال میں ایک آدھ بار ہماری آپ حضرات سے ملاقات کی کوئی صورت نکال لیتے ہیں، ہم گھنٹہ بھر کے لیے جمع ہوتے ہیں، بات چیت ہوتی ہے اور کم از کم اتنا ضرور ہو جاتا ہے کہ ہمارا کچھ خوف کم ہو جاتا ہے، اور شاید آپ حضرات کا خوف بھی کچھ کم ہو جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ سال بھر ہم آپ حضرات سے ڈرتے رہتے ہیں جبکہ یہ گھنٹہ پون گھنٹہ ہمیں میسر آجاتا ہے کہ ہم آپ حضرات کو ڈرا سکیں۔ بہرحال اس طرح کی کوئی صورت بن جاتی ہے جس کے لیے میں ڈی آئی جی صاحب کا شکر گزار ہوں۔

معاشرتی امن اور عدل و انصاف سوسائٹی کی اجتماعی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ تمدن اور معاشرت کی بنیاد ہی اس پر ہے کہ امن ہو، عدل ہو اور انصاف ہو۔ اس کے بغیر تمدن کا قائم رہنا اور اپنے مقاصد حاصل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا معروف قول ہے کہ حکومتیں کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتی ہیں مگر ظلم کے ساتھ ان کا زیادہ دیر تک قائم رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ ریاست، سوسائٹی اور حکومت تینوں کے لیے عدل ناگزیر ہے اور عدل و انصاف کے بغیر ان کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔

عدل، امن اور انصاف جس طرح سوسائٹی کی اجتماعی ضرورت ہے اسی طرح اس کے قیام کی ذمہ داری بھی مشترک ہے اور سوسائٹی کا ہر فرد اور ہر طبقہ اس کا کسی نہ کسی درجے میں ذمہ دار ہے۔ کوئی ایک طبقہ اگر چاہے بھی تو سوسائٹی کو اکیلا امن اور انصاف فراہم نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے تمام افراد اور تمام طبقات اپنی اپنی ذمہ داری پوری کریں گے تو معاشرے کو امن ملے گا اور عدل و انصاف میسر آئے گا۔ البتہ یہ تقسیم کار ہے کہ اس ذمہ داری کا ایک حصہ ایک طبقے کے سپرد ہے اور دوسرے حصے کی ذمہ داری دوسرے طبقے پر عائد ہوتی ہے۔ اسی تقسیم کار میں پولیس کا بھی ایک حصہ ہے اور اس کا بھی ایک کردار ہے۔ لیکن چونکہ ہمیں اس حوالہ سے پولیس فرنٹ پر دکھائی دیتی ہے اس لیے بسا اوقات ذہن میں یہ تاثر قائم ہونے لگتا ہے کہ یہ سارا کام پولیس کا ہی ہے، اور اگر ساری ذمہ داری اس کی ہے تو پھر ساری ناکامیاں بھی اسی کے کھاتے میں شمار ہونے لگتی ہیں۔ ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ جس طرح آپ حضرات پولیس افسران کی حیثیت سے اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے ان امور کے ذمہ دار ہیں، منبرِ رسولؐ پر بیٹھ کر اپنے دائرے میں اسی درجے میں میں بھی ذمہ دار ہوں، اور سب کے اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر معاشرتی انصاف کا مدار ہے۔ پولیس چونکہ حکومت کا ایک حصہ ہے، اس کے پاس طاقت ہے، اختیارات ہیں اور ڈنڈا ہے، اس لیے بہرحال اس کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہے۔

میں آپ حضرات کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوسائٹی کو امن و انصاف کے ایک ایسے تصور سے متعارف کرایا تھا جو آج تک آئیڈیل اور مثالی سمجھا جاتا ہے اور دنیا کی قومیں اس سے استفادہ کر رہی ہیں۔ اس حوالہ سے میں اس نکتہ کی طرف متوجہ کرنا چاہوں گا کہ آخر وہ کیا طریق کار تھا جس کے ذریعے جناب نبی کریمؐ نے چند برسوں میں عرب معاشرے کو ایک صحت مند انقلاب سے دوچار کر دیا تھا، اور نہ صرف یہ کہ سونے چاندی سے لدی ہوئی عورتیں کھلے راستوں میں بلا خوف و خطر چلنے لگی تھیں بلکہ سوسائٹی میں زکوٰۃ اور صدقات کے مستحق افراد کو تلاش کرنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ اس سلسلہ میں جناب رسول اکرمؐ کے اسوۂ حسنہ سے چند باتیں پیش کروں گا کہ ہمارے لیے رہنمائی کا سرچشمہ وہی ہیں اور آپؐ ہی کی پیروی ہمارے لیے دنیا و آخرت میں سرخروئی اور کامیابی کا ذریعہ ہے۔

حاتم طائی دنیا کی معروف شخصیت ہے جسے سخاوت کا سمبل تصور کیا جاتا ہے، اس کے بیٹے عدی بن حاتمؓ صحابیٔ رسولؐ ہیں۔ وہ اپنا واقعہ بتاتے ہیں کہ جب وہ آنحضرتؐ کی خدمت میں آئے، ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، وہ چند روز تک اپنی طرف سے چیک کرتے رہے کہ یہ صاحب جو کہتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کا نبی ہوں، ان میں نبیوں والی کوئی بات بھی ہے یا یہ دنیا دار بادشاہوں اور سرداروں کی طرح کے ایک حکمران ہیں۔ اس لیے کہ جو اللہ تعالیٰ کا فرستادہ ہوتا ہے، اس کا مزاج دنیا دار بادشاہوں سے مختلف ہوتا ہے، اس کے ہر کام کی بنیاد خدا کا خوف ہوتا ہے اور اس کے ہر عمل سے خوفِ خدا جھلکتا ہے۔

اسلام میں خوفِ خدا ہی سارے کاموں کی اساس ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیشی اور جوابدہی کا عقیدہ انسان کو بہت سی برائیوں اور غلط کاریوں سے روکتا ہے۔ جوابدہی تو کسی نہ کسی کے سامنے ہماری ہوتی ہی رہتی ہے، آفیسرز کے سامنے جوابدہی، محکمے کے سامنے جوابدہی، سوسائٹی کے سامنے جوابدہی اور آج کل میڈیا کے سامنے جوابدہی۔ یہ سب جوابدہی کے مختلف دائرے ہیں جن کے سامنے ہم پیش ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی جوابدہی کے منفی نتائج سے بچنے کے لیے ہم کوئی نہ کوئی حیلہ ضرور نکال لیتے ہیں اور اکثر اوقات بچ بھی جاتے ہیں۔ صرف ایک جوابدہی ایسی ہے جس سے بچنے کے لیے کوئی حیلہ کارگر نہیں ہو سکتا اور کوئی تدبیر بن نہیں پاتی۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیشی اور جوابدہی کا عقیدہ ہے جس سے ہم اپنی کوئی بات نہیں چھپا سکتے اور اپنا کوئی عمل اس سے مخفی نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے اسلام یہ کہتا ہے کہ خدا کا خوف اور اس کے سامنے جوابدہی کا ڈر ہر وقت پیش نظر رکھو اور کوئی بھی کام کرتے ہوئے یہ سوچ لو کہ اس کا ہم نے اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دینا ہے۔ بس یہی فلسفہ ہے کسی شخص کو جرم سے روکنے کا اور بد عملی سے باز رکھنے کا۔ اور یہ فلسفہ کسی دنیاوی نظام میں نہیں ملے گا، یہ صرف انبیاء کرامؑ کی تعلیمات سے ملے گا، وحی الٰہی سے ملے گا، قرآن و سنت سے ملے گا اور اسلام کے عادلانہ نظام میں ملے گا۔

میں بات کر رہا تھا حاتم طائی کے بیٹے عدیؓ کی جو کہتے ہیں کہ میں اسلام قبول کرنے سے پہلے چند روز نبی اکرمؐ کی مجلس میں حاضر ہو کر یہ چیک کرتا رہا کہ یہ صاحب دنیادار حکمرانوں میں سے ہیں یا واقعتاً خدا کے ساتھ بھی ان کا کوئی تعلق ہے؟ عدیؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں نے دیکھا کہ جناب رسول اللہؐ مجلس میں تشریف فرما تھے کہ ایک عورت آئی جو بظاہر دیوانی سی لگتی تھی، اس نے آنحضرتؐ سے کہا میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں، آپؐ مجلس سے اٹھ گئے اور ایک طرف ہو کر اس کی باتیں سننے لگے۔ اس عورت نے خاصی دیر آنحضرتؐ کو مصروف رکھا مگر جس انداز سے اور جس توجہ اور مہربانی کے ساتھ آپؐ اس کی باتیں سن رہے تھے اس نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ یہ دنیادار حکمران نہیں ہیں اور فی الواقع خدا کے رسول اور فرستادہ ہیں۔ اس کے بعد میں نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔

یہ بظاہر ایک سادہ اور عام سی بات ہے لیکن اس سے عدی بن حاتمؓ نے جو نتیجہ اخذ کیا اس پر غور فرمائیے کہ کسی حکمران کا خوفِ خدا اور مخلوق کے ساتھ ہمدردی سے بہرہ ور ہونا اس کے اچھا ہونے کی علامت ہے اور یہی اسلام کا مزاج اور امتیاز ہے۔ اس لیے میں پہلی گزارش یہ کرنا چاہوں گا کہ خوفِ خدا ہی ہمارے سب کاموں کی بنیاد ہے او ریہی ہمارا اصل کنٹرولر ہے جو ہمیں کسی بھی قسم کی بے راہ روی اور غلطی سے بچا سکتا ہے۔

اس کے بعد میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیسیوں ارشادات میں سے چند ایک کا تذکرہ کروں گا جو اپنی اپنی ذمہ داری اور فرض کو صحیح طریقے سے ادا کرنے میں ہماری راہنمائی کرتے ہیں۔

ایک واقعہ ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ بنو مخزوم کی ایک عورت فاطمہؓ نے چوری کی تو جناب نبی اکرمؐ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اس پر اس کی برادری کے لوگوں نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو سفارشی بنایا کہ کسی طرح ہاتھ کاٹنے کی سزا معاف ہو جائے لیکن جناب رسول اللہؐ نے سفارش مسترد کرتے ہوئے فاطمہ مخزومی کا ہاتھ کٹوا دیا۔ اس موقع پر نبی کریمؐ نے مسجد نبویؐ میں جو خطبہ ارشاد فرمایا، بخاری شریف کے حوالہ سے اس کا ایک جملہ ذکر کروں گا جس میں آپؐ نے فرمایا کہ ’’تم سے پہلی امتیں اس لیے ہلاک اور برباد ہوئیں کہ ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا تھا لیکن کوئی عام یا غریب شخص چوری کرتا تو اس کو سزا دی جاتی تھی‘‘۔ گویا قانون کی یکسانیت اور سب پر قانون کا یکساں اطلاق معاشرے میں امن و انصاف کی ضمانت ہے۔ اور اگر قانون کی عملداری میں چھوٹے بڑے کا فرق ہوگا تو سوسائٹی تباہی کا شکار ہوگی۔

ایک حدیث میں جناب رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے دائرے میں سوال ہوگا۔ حدیث میں ’’مسئول‘‘ کا لفظ ہے کہ وہ جوابدہ ہے۔ اس میں آپؐ نے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ اپنے اپنے دائرے کو دیکھ لو، اپنی اپنی ذمہ داری کو دیکھ لو، اپنے دائرہ کار اور دائرہ اختیار میں مسئولیت کا تصور ذہن میں رکھ کر کام کرو۔ میرا خیال ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اگر اس تصور کو ذہن میں بٹھا لے تو ہمارے بہت سے مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔

حضرت عمر ایک رات معمول کے گشت پر تھے کہ ایک گھر کے اندر سے گانے بجانے کی آواز آئی۔ حضرت عمرؓ مکان کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر کود گئے اور گانے بجانے والوں کو ڈانٹا تو صاحبِ خانہ نے کہا کہ حضرت میں نے تو ایک غلطی کی ہے کہ گانے بجانے کی محفل سجائی ہے لیکن آپ نے قرآن کریم کے تین حکم توڑے ہیں۔ قرآن کریم کا حکم ہے کہ (۱) کسی کے گھر میں داخل ہو تو پہلے اجازت لو جبکہ آپ بغیر اجازت اندر کود پڑے ہیں۔ (۲) قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ گھروں کے اندر کی جاسوسی نہ کیا کرو جبکہ آپ نے اس حکم کی پروا نہیں کی۔ (۳) اسی طرح قرآن کریم کا حکم ہے کہ گھروں میں دروازے سے داخل ہوں جبکہ آپ دیوار پھلانگ کر اندر آگئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے یہ بات سن کر وہیں اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور انہی قدموں واپس چلے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈیوٹی کے دوران اور اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کہیں غلطی کا احساس ہو جائے تو اس پر اڑنا نہیں چاہیے۔

ایک اور بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم کرنا چاہتے ہیں اورا ن کے کرنے میں فائدہ محسوس کرتے ہیں لیکن اجتماعی نظم اور سسٹم کی وجہ سے ایسا نہیں کر پاتے۔ میں یہاں سسٹم اور نظام سے بغاوت کی بات نہیں کروں گا لیکن اتنی بات ضرور کہوں گا کہ سسٹم اور نظم کے دائرے میں رہتے ہوئے اور اس کی پابندی کرتے ہوئے اس کام کو جس درجے میں کیا جا سکتا ہو اس کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ اصلاحِ احوال کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اجتماعی نظام کو تبدیل کیا جائے اور سسٹم کو بدلا جائے، اس کے لیے جائز دائرے میں کوشش کرنا بھی ضروری ہے، لیکن اصلاحِ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنے دائرے میں خود کو بدلنے کی کوشش کرے اور اپنی اصلاح کرے۔ ظاہر بات ہے کہ جب ہر شخص خود کو بدلنے کی کوشش کرے گا اور اپنے فرائض کو صحیح طریقے سے سرانجام دینے کی فکر کرے گا تو نظام کی اصلاح خودبخود ہو جائے گی۔ میں سب سے پہلے اپنے آپ کو اور پھر آپ حضرات کو دعوت دوں گا کہ ہم سب اپنا اپنا احتساب کریں، اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور اپنے فرائض کو پہچانتے ہوئے ان کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ پاکستان، لاہور ۔ ۲۰ فروری ۲۰۱۰ء)
2016ء سے
Flag Counter