جامعہ شاہ ولی اللہ ۔ خواب سے تعبیر تک!

   
تاریخ : 
۲۹ جون ۲۰۱۲ء

روزنامہ اسلام میں جامعۃ الرشید کراچی کے سالانہ اجتماع کی تفصیلات نظر سے گزریں تو اس محفل سے بالکل غیر حاضر رہنے کو جی نہ چاہا۔ مولانا مفتی محمد نے مجھے بھی اس اجتماع میں حاضری کی دعوت دی تھی اور میں نے وعدہ کر لیا تھا لیکن حاضری کی ترتیب طے کرتے وقت جب ڈائری پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ اسی دن اسی وقت مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ اور مدرسہ انوار العلوم کی مجلس منتظمہ کا اجلاس طے ہو چکا ہے جو مجھ سے پوچھ کر رکھا گیا ہے اور اس میں مدرسہ انوار العلوم کے مہتمم کے طور پر حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کے جانشین کے انتخاب کا مسئلہ بھی ایجنڈے میں شامل ہے، اس لیے مولانا مفتی محمد کو فون کر کے معذرت کی اور جامعۃ الرشید کے سالانہ اجلاس میں شرکت سے محرومی رہی۔

مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ شہر کا قدیمی مدرسہ ہے جو ۱۹۲۶ء میں قائم ہوا تھا، اس کے بانی شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے مایہ ناز شاگرد حضرت مولانا عبد العزیز محدث سہالویؒ تھے جو اپنے وقت کے ممتاز محدث اور فقیہ تھے اور حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے معتمد رفقاء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ اس مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے ممتاز علماء کرام میں والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ، عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ اور حضرت مولانا قاضی عصمت اللہؒ جیسے نامور اہل علم شامل ہیں۔ حضرت مولانا عبد العزیز سہالویؒ کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ اس مدرسہ کے مہتمم بنے اور ۱۹۸۲ء میں ان کی وفات پر مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کو مدرسہ کا مہتمم چنا گیا جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا ہے۔

مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ جس کے ساتھ مدرسہ انوار العلوم ملحق ہے گزشتہ چالیس سال سے اس مسجد کی خطابت میرے ذمہ ہے اس لیے مدرسہ کے معاملات کے ساتھ بھی تعلق رہتا ہے اور باہمی مشاورت سے ہم اس کا نظام چلاتے ہیں۔ چنانچہ مذکورہ اجلاس میں مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کے معتمد ترین شاگرد مولانا داؤد احمد میواتی کو ان کی جگہ مدرسہ کا مہتمم مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو قاضی صاحبؒ کے شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ سالہا سال تک ان کے رفیقِ تدریس بھی رہے ہیں، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل ہیں اور حضرت والد محترمؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ کے شاگرد ہیں۔ اللہ تعالٰی نے انہیں بہت صلاحیتوں سے نوازا ہے، تدریس کی اعلٰی استعداد اور تجربہ رکھتے ہیں، قارئین سے درخواست ہے کہ ان کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالٰی انہیں یہ ذمہ داری بخوبی سرانجام دینے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

جہاں تک جامعۃ الرشید کے سالانہ اجلاس کا تعلق ہے اس میں شرکت سے محرومی کی کسک دل میں بہرحال موجود ہے، اس لیے کہ یہ میرے ان خوابوں کی عملی تعبیر ہے جو میں ملک میں دینی تعلیم کے نظام و نصاب کے حوالے سے گزشتہ نصف صدی سے مسلسل دیکھتا آرہا ہوں اور بعض بڑے اکابر بھی ہر دور میں اس طرف توجہ دلاتے رہے ہیں۔ ہمارے اکابر اور بزرگوں کا یہ وصف خاص ہے کہ وہ جو بات بھی کرتے ہیں خلوص کے ساتھ اور دین و ملت کی بہتری کے لیے کرتے ہیں اور جس بات میں نقصان سمجھتے ہیں اس کے اظہار میں کبھی رعایت نہیں کرتے۔ اس حوالہ سے ایک دلچسپ ذاتی واردات اس موقع کی مناسبت سے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے طالب علمی کے دور میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر مشورہ کیا کہ ہم دونوں میٹرک کا امتحان دیتے ہیں جس کے لیے ہم نے تیاری شروع کر دی۔ حضرت والد محترمؒ کو کسی ذریعے سے اس کا علم ہوا تو انہوں نے مجھے بلا کر سختی سے منع کر دیا اس لیے میں نے تو امتحان نہ دیا البتہ میرے اس ساتھی نے امتحان دیا اور بورڈ میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ کافی عرصہ بعد جب ہم نے شہر کے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے نام سے ایک ایسے تعلیمی ادارہ کے قیام کی طرف پیشرفت کی جس میں دینی تعلیم کے ساتھ اسکول و کالج کی عصری تعلیم بھی شامل ہو تو مجھے اپنا واقعہ یاد تھا اور یہ خدشہ تھا کہ منصوبے کی پوری تفصیلات حضرت والد محترمؒ کو بتائی گئیں تو شاید وہ مخالفت کریں اور ان کی طرف سے مخالفت کے بعد اس کام کو آگے بڑھانا ہمارے لیے مشکل ہو جائے گا۔

یہ ۱۹۸۶ء کی بات ہے، اتفاق سے جمعیۃ علماء برطانیہ کی دعوت پر اس سال اس کی سالانہ ’’توحید و سنت کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لیے حضرت والد محترمؒ برطانیہ تشریف لے گئے، ان کے ایک شاگرد مولانا عبد الرؤف ربانی آف رحیم یار خان اس سفر میں ان کے ساتھ تھے۔ میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں کے کچھ دوستوں سے کہا کہ حضرت والد محترمؒ برطانیہ کے دورے پر تشریف لا رہے ہیں، آپ حضرات اس پروگرام کو اس طرح ترتیب دیں کہ آج کی عصری تعلیم کی ضرورت ان کے ذہن میں آجائے وہ کم و بیش تین ہفتے برطانیہ میں رہے اور واپسی پر ایک مجلس میں اپنے مخصوص انداز میں مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ خبطیا! تم ٹھیک کہتے ہو کہ انگریزی زبان اور عصری تعلیم بھی علماء کرام کے لیے ضروری ہے۔ یہ بات ہمارے بزرگوں کی خصوصیت ہے کہ جب کوئی بات سمجھ میں آجاتی ہے تو اس کے اظہار میں کوئی باک نہیں ہوتا، مجھے ان کے اس ارشاد پر بے حد خوشی ہوئی مگر میں نے عرض کیا کہ یہ بات صرف میرے سامنے کہنا کافی نہیں ہے بلکہ یہی بات آپ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے لیے کام کرنے والے دوستوں کے درمیان بھی فرما دیں۔ چنانچہ ہم نے اس کے لیے شاہ ولی اللہ یونیورسٹی میں علماء کرام اور دیگر احباب کا اجتماع منعقد کیا جس میں حضرت والد محترمؒ نے انگریزی زبان اور اس کی تعلیم کی اہمیت پر تفصیلی گفتگو فرمائی جس سے ہمارے لیے اس کام کو آگے بڑھانے میں آسانی ہوگئی۔ اس کے بعد وہ نہ صرف ہمارے اس تعلیمی منصوبے کی حمایت کرتے رہے بلکہ شاہ ولی اللہ ٹرسٹ کے باقاعدہ ٹرسٹی اور سرپرست اعلٰی کے طور پر عملی سرپرستی بھی فرماتے رہے۔ یہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی اب جامعۃ الرشید کراچی کی شاخ کے طور پر اسی کے زیر انتظام ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ کے نام سے دینی و تعلیمی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

ایک اور بات اس سلسلہ میں قابل ذکر ہے کہ جب شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کو ہم نے جامعۃ الرشید کے حوالے کیا اور اس کے سارے کے سارے تعلیمی و انتظامی معاملات اس کے سپرد کر دیے تو ایک دن خواب میں حضرت والد محترمؒ سے ملاقات ہوئی بلکہ خواب میں انہوں نے مجھے طلب فرمایا اور اپنے مخصوص کمرے میں بلا کر مجھ سے شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کو کراچی کے جامعۃ الرشید کے سپرد کرنے کی پوری تفصیلات دریافت کیں اور میں نے اول سے آخر تک ساری تفصیل ان کے سامنے رکھ دی جس پر انہوں نے اطمینان کے ساتھ سر کو اثبات میں ہلا کر اس کی تائید فرما دی جس سے یہ اطمینان حاصل ہوا کہ ہم نے ایسا کر کے غلطی نہیں کی۔

میں عصری تعلیم کو دینی تعلیم کے ساتھ ضروری سمجھنے اور اس کے لیے کوشش کرنے میں ایک کارکن کے طور پر جامعۃ الرشید کے ساتھ ہوں لیکن اتنی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کا مقصد دینی مدارس کو عصری تعلیم کے اداروں میں تبدیل کرنا نہیں بلکہ دین کی دعوت و تبلیغ، نفاذ اسلام اور مغرب کی تہذیبی و فکری یلغار کے مقابلہ کے لیے جن عصری علوم و فنون کی ہمیں ضرورت ہے انہیں دینی تعلیمی نصاب و نظام کے ساتھ متوازن انداز میں ایڈجسٹ کرنا ہے۔ جامعۃ الرشید کا موقف و مقصد بھی یہی ہے، اللہ تعالٰی اسے مزید ترقیات و ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں اور قبولیت رضا سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter