اور اب شام کی باری ہے!

   
تاریخ : 
مئی ۲۰۰۳ء

بغداد پر قبضہ کے ساتھ ہی امریکی حکمرانوں نے شام کی حکومت کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور اس کے خلاف وہی الزامات دہرائے جا رہے ہیں جو اس سے قبل عراق کی حکومت کے خلاف ایک عرصہ سے دہرائے جا رہے تھے۔

عراق پر الزام تھا کہ اس نے مہلک کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ چھپا رکھا ہے، اقوام متحدہ کے معائنہ انسپکٹروں نے عراق کے بار بار معائنہ اور دورہ کے بعد اس کی واضح تردید کی کہ انہیں عراق کے پاس ممنوعہ ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں ملا مگر امریکی حکومت کا اصرار تھا کہ یہ ہتھیار بہرحال عراق کے پاس موجود ہیں اس لیے اس پر حملہ ناگزیر ہے۔ امریکہ نے اس ہٹ دھرمی کے ساتھ عراق پر حملہ کر دیا اور اس پر قبضہ بھی کر لیا مگر یہ ہتھیار کہیں دستیاب نہیں ہوئے، اس لیے امریکہ نے اپنی ہٹ دھرمی پر پردہ ڈالنے کے لیے اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ عراق کے یہ ممنوعہ ہتھیار شام میں سمگل کر دیے گئے ہیں اور وہاں چھپائے گئے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی امریکی حکمران شام پر یہ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ عراق کی قیادت کے ذمہ دار افراد نے شام میں ٖپناہ لے لی ہے اور وہ وہاں چھپے ہوئے ہیں اس لیے ان کی تلاش اور تعاقب کے لیے شام کے اندر امریکی فوجیں چھاپہ مار کاروائی کر سکتی ہیں۔ اگرچہ شامی حکومت ان باتوں کی بار بار تردید کر رہی ہے لیکن خبروں کے رخ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ عراق میں فوجی تسلط پر قناعت نہیں کرے گا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اردگرد اپنا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کرے گا جس کا پہلا نشانہ شام بن سکتا ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات مبارکہ سے بھی اس طرف ذہن جاتا ہے کہ عراق کے بعد نہ صرف شام بلکہ مصر اور دوسرے عرب ممالک کی باری بھی آسکتی ہے، چنانچہ مسلم شریف کی کتاب الفتن میں حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت جابر بن عبداللہؓ کی روایات میں یہ صراحت موجود ہے کہ فرات کے کنارے سونے کا پہاڑ نمودار ہوگا جس کے حصول کے لیے دنیا بھر کی اقوام یہاں آکر خونریز جنگیں لڑیں گی اور اس کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی کہ مغربی اقوام کی طرف سے عراق، شام اور مصر کی اقتصادی ناکہ بندی ہوگی اور ان تینوں ملکوں کی رقوم اور غلہ وغیرہ روک دیے جائیں گے۔

اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے اپنی سرحدوں میں توسیع کے لیے ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے نام سے جو نقشہ بنا رکھا ہے اس کے پیش نظر بھی اب توقع یہی ہے کہ عراق کے بعد صہیونی سازشوں کا رخ شام کی طرف ہوگا، اس لیے ان حالات میں جہاں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کے وسیع تر اہتمام کی ضرورت ہے وہاں رائے عامہ کے محاذ پر بھی پہلے سے زیادہ سرگرمی کے ساتھ کام کو منظم کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ عسکری اور معاشی محاذوں پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کی راہ میں تو سر دست کوئی رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی البتہ اگر عالم اسلام کے سیاسی و دینی حلقے سنجیدگی کے ساتھ رائے عامہ کے محاذ پر سرگرم ہوجائیں اور عالمی رائے عامہ کو اس ننگی جارحیت اور کھلی ہٹ دھرمی کے خلاف منظم کرنے کی طرف پیشرفت کر سکیں تو سیاسی طور پر کسی حد تک توازن قائم کیا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter