سرحد اسمبلی کا شریعت ایکٹ

   
تاریخ : 
جولائی ۲۰۰۳ء

سرحد اسمبلی نے گزشتہ دنوں ’’شریعت ایکٹ‘‘ کی منظوری دی ہے اور اس کے ساتھ ہی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس کے خلاف پروپیگنڈے کی ایک نئی مہم کا آغاز ہوگیا ہے۔ شریعت ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سرحد میں دستور کے مطابق صوبائی اختیارات کی حدود میں تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا اور قرآن و سنت کے احکام کی روشنی میں انتظامی و عدالتی امور چلائے جائیں گے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ آج سے تیس سال قبل ملک میں نافذ ہونے والے ۱۹۷۳ء کے دستور میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا اور قرآن و سنت کے خلاف آئندہ کوئی قانون ملک میں نافذ نہیں کیا جا سکے گا۔ دستور کے تحت اس کام کے لیے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ قائم کی گئی تھی جس میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ ملک کے ممتاز قانون دان اور جج صاحبان ہر دور میں شامل رہے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک کے تمام قوانین کا جائزہ لے کر ان میں قرآن و سنت کی روشنی میں اصلاحات و ترامیم کے لیے ایک جامع رپورٹ اپنی سفارشات کی صورت میں کئی برس قبل حکومت کو پیش کر دی تھی۔ دستور کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس امر کی پابند ہیں کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کرکے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں انہیں قانون سازی کی بنیاد بنائیں لیکن ابھی تک کسی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنی اس دستوری ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز و سفارشات کو قانون ساز اداروں میں لائے، حالانکہ ملک کے دینی حلقے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق ہر سطح پر قانون سازی کا مسلسل مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں۔

اب تیس برس کے بعد صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے اس طرف پیشرفت کی ہے اور مذکورہ بالا شریعت ایکٹ کی صورت میں صوبائی اختیارات کے دائرہ میں قرآن و سنت کو احکام و قوانین کی بنیاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے تو ملک کے مقتدر حلقے اس کا خیر مقدم کرنے اور اس سلسلہ میں اپنی اب تک کی کوتاہی پر شرمساری کا اظہار کرنے کی بجائے الٹا صوبہ سرحد کی حکومت کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں اور ملکی اور عالمی میڈیا میں اس کے خلاف ایک طوفان بپا کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ زور و شور سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ صوبہ سرحد حکومت طالبان کی طرز کا اسلام صوبے میں نافذ کرنا چاہتی ہے اور پاکستان میں ’’طالبانائزیشن‘‘ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ چنانچہ روزنامہ جنگ لاہور ۲۰ جون ۲۰۰۳ء کی رپورٹ کے مطابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے دورۂ برطانیہ کے دوران بعض مغربی اخبارات کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ سرحد کے عوام متحدہ مجلس عمل کی پالیسی کو قبول نہیں کریں گے اور صوبہ سرحد میں طالبانائزیشن کی مہم کامیاب نہیں ہوگی۔ صدر پرویز مشرف اس سے قبل متعدد بار سرحد اسمبلی کے اس شریعت ایکٹ کو طالبانائزیشن قرار دے چکے ہیں اور ان کے علاوہ بھی مقتدر حلقوں کی مختلف شخصیات اسی قسم کے خیالات کا مسلسل اظہار کر رہی ہیں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ سرحد حکومت اور طالبان میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیونکہ:

  • طالبان نے طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کیا تھا جبکہ صوبہ سرحد کی حکومت عوام کی منتخب کردہ ہے۔
  • طالبان نے پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا اور اس کی جگہ مکمل اسلامی نظام نافذ کر دیا تھا جبکہ صوبہ سرحد کی حکومت نے اپنے اقدامات کو صرف صوبائی اختیارات کے دائرہ میں محدود رکھا ہے۔
  • طالبان کی حکومت نے کوئی باضابطہ دستور نافذ نہیں کیا تھا بلکہ امیر المومنین ملا محمد عمر کے شخصی احکامات کے ذریعہ نفاذ اسلام کے اقدامات کیے جا رہے تھے جبکہ صوبہ سرحد کی حکومت ملک میں تیس سال پہلے نافذ ہونے والے دستور کی بالادستی قبول کرتے ہوئے اس کے تحت نفاذ شریعت کے اقدامات کر رہی ہے۔

یہ بات اپنی جگہ الگ طور پر بحث طلب ہے کہ کسی بھی مسلم ملک میں نفاذ اسلام کے لیے طالبان کا طرز عمل زیادہ مؤثر اور مفید ہوسکتا ہے یا اس طریق کار سے بھی اسلام کا نفاذ ممکن ہے جو صوبہ سرحد کی حکومت نے اختیار کیا ہے، لیکن اس بحث سے قطع نظر سرحد اسمبلی کی طرف سے شریعت ایکٹ کی منظوری کو طالبانائزیشن قرار دینا اور اس کے خلاف اس طرح کی نفرت انگیز مہم چلانا جہاں امر واقعہ اور حقائق کے منافی ہے وہاں دستور پاکستان کا مذاق اڑانے کے مترادف بھی ہے۔

ہم صدر پرویز مشرف اور ان کے کیمپ کے دیگر حضرات سے گزارش کریں گے کہ وہ اس معاملہ کا از سر نو جائزہ لیں اور نفاذ شریعت کے لیے سرحد حکومت کے دستوری اقدامات پر اعتراض کرنے کی بجائے اسلامائزیشن کے حوالہ سے خود اپنی دستوری ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ قیام پاکستان کے وقت اور پھر دستور کے نفاذ کے موقع پر قوم سے واضح طور پر وعدہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں مکمل اسلامی نظام نافذ کیا جائے گا اور اس وعدہ سے انحراف پاکستان کے بنیادی مقاصد سے روگردانی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter