مختلف شعبوں میں علماء اور وکلاء کی مشترکہ جدوجہد کی ضرورت

   
تاریخ: 
۱۳ جون ۲۰۱۹ء

پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے نائب امیر مولانا قاری عبید اللہ عامر کے ہمراہ ۱۰ جون سے ۱۶ جون تک لکی مروت، ملانہ، ڈیرہ اسماعیل خان، موسٰی زئی شریف، بَن حافظ جی میانوالی، چودھواں، اسلام آباد، دھیر کوٹ، باغ، ہاڑی گیل، بیس بگلہ، ملوٹ، مانگا، مری، چکوال اور دیگر مقامات میں مختلف دینی اجتماعات میں حاضری کا موقع ملا۔ اس دوران ۱۳ جون کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن باغ آزاد کشمیر کی ایک نشست میں بھی حاضری ہوئی، اس موقع پر کی جانے والی گزارشات کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن باغ کے صدر محترم جناب سردار اعظم حیدر ایڈووکیٹ اور دارالعلوم تعلیم القرآن باغ کے مہتمم مولانا امین الحق کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے باغ میں حاضری کے موقع پر معزز وکلاء کے ساتھ اس ملاقات کا اہتمام کیا، اللہ تعالٰی انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین۔ اس ملاقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں دو تین باتوں کی طرف وکلاء کے اس باوقار فورم کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

پہلی بات تو یاددہانی کے لیے ہے کہ آپ حضرات کشمیر کی آزادی اور کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے لیے مسلسل مصروف عمل ہیں جس میں مجاہدین کے جہاد آزادی سے لے کر بین الاقوامی ماحول کی سفارتی محنت تک مختلف دائروں میں جدوجہد جاری ہے۔ یہ سعی و کاوش سات عشروں سے تجاوز کر چکی ہے اور ابھی تک نتیجہ خیز ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ کشمیر اور فلسطین کے دو حساس مسئلوں نے پورے عالم اسلام کو مضطرب اور بے چین کر رکھا ہے مگر جن قوتوں کے ہاتھ میں ان مسائل کا حل ہے وہ اس کے احساس و ادراک سے محروم ہیں، یا ان دونوں مسئلوں کو اپنے مفادات کے لیے اسی طرح موجود و قائم رکھنا چاہتی ہیں۔ جہاد آزادی میں مصروف مجاہدین اور مختلف شعبوں میں محنت کرنے والے طبقات کی حمایت و تعاون کے ساتھ ساتھ ہمیں موجودہ صورتحال کے اسباب و عوامل کی نشاندہی اور ان کے حل میں رکاوٹوں کو بھی اجاگر کرتے رہنا چاہیے اور عالمی رائے عامہ کو ان مسائل کے حل کے لیے مؤثر کردار کے لیے تیار کرنے پر محنت کرنی چاہیے۔ آج کی اس نشست میں چونکہ معزز وکلاء کے ساتھ محترم علماء کرام بھی موجود ہیں اس لیے میں بطور خاص یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ دونوں کو مل جل کر مشترکہ طور پر اس جدوجہد کو مؤثر بنانے کے راستے نکالنے چاہئیں۔

دوسری گزارش وکلاء اور علماء کے اس مشترکہ اجتماع میں یہ کرنا چاہوں گا کہ آزاد ریاست جموں و کشمیر میں عدالتی سطح پر اسلامی شریعت اور عصری قوانین کے امتزاج اور جج صاحبان اور قاضی حضرات میں اشتراک عمل کا جو تجربہ کیا گیا ہے وہ نفاذ اسلام کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اسے مزید مؤثر اور کامیاب بنانے کی محنت کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا کو اس سے متعارف کرانے کا کام بھی ہونا چاہیے۔ نفاذ شریعت کی جدوجہد کے ایک شعوری کارکن کے طور پر میرا یہ احساس ہے کہ موجودہ حالات میں آزاد کشمیر کے اس عدالتی تجربہ کو مختلف ممالک بالخصوص پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے راہنما بنایا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کو اس سے متعارف کرایا جائے اور اسے مزید مستحکم اور مؤثر بنانے کی محنت کی جائے جو میرے خیال میں علماء کرام اور وکلاء کو مل کر کرنی چاہیے۔ میں ڈسٹرکٹ بار باغ سے اس طرف خصوصی توجہ کی گزارش کرتا ہوں۔

جبکہ میری تیسری گزارش یہ ہے کہ اس وقت مختلف بین الاقوامی معاہدات نے جس طرح پوری انسانی سوسائٹی اور دنیا بھر کے ممالک و اقوام کو حصار میں لے رکھا ہے ان سے آگاہی حاصل کرنا بہت زیادہ ضروری ہے۔ مثلاً یورپی یونین پاکستان سے مسلسل کہہ رہی ہے کہ اسے یورپ کے ساتھ تجارتی مراعات کے دائرے میں شامل ہونے کے لیے ستائیس بین الاقوامی معاہدات پر مکمل عملدرآمد کی ضمانت دینا ہوگی اور اس ضمن میں توہین رسالت پر سزائے موت، قصاص کے قوانین، ختم نبوت کے تحفظ کے قوانین اور سزائے موت کو مکمل طور پر ختم کر دینے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ اس لیے علماء کرام اور معزز وکلاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ستائیس معاہدات کا جائزہ لیں، اس سے عوام اور متعلقہ حلقوں کو واقف کرائیں اور اس سلسلہ میں قوم کی راہنمائی کریں۔

اس موقع پر ایک معزز وکیل نے سوال کیا کہ کیا ان بین الاقوامی معاہدات سے نکل کر ہم بطور ریاست اپنا وجود قائم رکھ سکتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میں معاہدات سے نکلنے کی بات نہیں کر رہا بلکہ یہ عرض کر رہا ہوں کہ ہمیں کم از کم ان سے واقف تو ہونا چاہیے اور قوم کی راہنمائی کرنے والے طبقات بالخصوص علماء کرام، وکلاء، سیاسی راہنماؤں، اساتذہ، قوم کے نمائندوں اور میڈیا کے پالیسی سازوں کو پورے ادراک اور آگاہی کے ساتھ ان معاہدات کے ایسے حصوں کی نشاندہی کرنی چاہیے جن پر اسلامی تعلیمات، قومی مفادات اور ملکی وقار کے حوالہ سے ہمیں تحفظات درپیش ہیں۔ پھر ان تحفظات پر متعلقہ بین الاقوامی اداروں سے گفتگو کرنے اور انہیں اپنے مسائل و مشکلات سے آگاہ کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

میرے خیال میں بین الاقوامی معاہدات کے بارے میں ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کچھ عرصہ قبل جو بات کی تھی اور اب ترکی کے وزیراعظم جناب طیب اردگان وہ بات کر رہے ہیں، اسے منظم طور پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ جبکہ علماء کرام اور وکلاء کو اس کا ماحول اور اس سلسلہ میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن باغ کی اس نشست میں بعض محترم وکلاء نے انتہائی اہم سوالات کیے جن کے جواب میں کچھ گزارشات میں نے پیش کیں۔ ان میں سے چند ایک کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

ایک وکیل محترم نے کہا کہ اسلام کے سیاسی نظام کے بارے میں کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ کوئی کنفیوژن نہیں ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب خلافت کا نظام قائم ہوا تو حضرت صدیق اکبرؓ نے نہ تو اقتدار پر طاقت کے بل پر قبضہ کیا تھا اور نہ ہی خاندانی استحقاق اور وراثت کے طور پر حکومت حاصل کی تھی۔ بلکہ انہیں حکومت کا حق امت کی اجتماعی صوابدید کی بنیاد پر ملا تھا، جس سے یہ بات طے ہوگئی کہ اسلام میں حکمرانی کا حق عوام کی اجتماعی صوابدید سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت صدیق اکبرؓ نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ وہ مطلق العنان حکمران نہیں ہوں گے بلکہ قرآن و سنت کے پابند ہوں گے۔ اس طرح اسلام کے سیاسی نظام کی دو بنیادیں واضح ہوئیں۔ ایک یہ کہ حکومت کی تشکیل عوام کی اجتماعی صوابدید پر ہوگی، اور دوسری یہ کہ حکومت و ریاست قرآن و سنت کے احکام کی پابند ہوں گی۔ میرے خیال میں اس کے بعد اسلام کے سیاسی نظام کے بارے میں کسی کنفیوژن کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

ایک وکیل محترم نے پوچھا کہ مسئلہ کشمیر کا آخر کیا حل ہو سکتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ مسئلہ کشمیر کا ایک ہی حل ہے کہ اقوام عالم اور بین الاقوامی برادری نے کشمیری عوام کا یہ حق تسلیم کر رکھا ہے کہ مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے اور متعلقہ عالمی طاقتوں اور اداروں کو کشمیری عوام کے ساتھ کیا گیا یہ وعدہ بہرصورت پورا کرنا چاہیے۔

ایک وکیل محترم نے سوال کیا کہ امریکہ جب افغانستان سے نکلنے کی بات کر رہا ہے تو افغان طالبان اس کے لیے تعاون کیوں نہیں کر رہے؟ میں نے عرض کیا کہ امریکہ وہاں سے نکلنے سے پہلے افغان طالبان سے اس حکومت کو تسلیم کرانا چاہتا ہے جو اس نے کابل میں فوجی مداخلت کے نتیجے میں طاقت کے زور سے قائم کر رکھی ہے۔ افغان طالبان یہ بات نہیں مان رہے اور انہیں یہ بات تسلیم نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ اگر امریکہ اپنی مسلط کردہ حکومت کو تسلیم کرا کے افغانستان سے جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالواسطہ طور پر افغانستان میں موجود رہنا چاہتا ہے جو افغانستان کی قومی خودمختاری کے منافی ہے۔ اس لیے افغان طالبان کا موقف اس حوالہ سے بالکل اصولی اور درست ہے کہ امریکی اتحاد کی فوجیں افغانستان سے غیر مشروط طور پر نکلیں اور افغانستان کے عوام کا یہ حق تسلیم کریں کہ ان کے تمام طبقات باہم مل بیٹھ کر کسی دباؤ اور مداخلت کے بغیر اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔

محترم وکیل صاحب نے سوال کیا کہ جب کابل کی موجودہ حکومت افغانوں کی ہی ہے تو اسے تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے؟ میں نے گزارش کی کہ سری نگر کی موجودہ حکومت کشمیریوں کی ہی ہے اور بظاہر عوام کے ووٹوں کے ذریعے آئی ہے، اگر بھارت کی حکومت آپ سے کہے کہ آپ سری نگر کی موجودہ حکومت کو تسلیم کر لیں تو وہ کشمیر سے فوجیں واپس لے جائے گا تو کیا آپ اس پیشکش کو قبول کر لیں گے؟ میرے خیال میں دونوں کا مسئلوں کا یہی ایک حل ہے کہ بیرونی افواج وہاں سے نکلیں اور ان خطوں کے عوام کو مکمل آزادانہ ماحول میں اپنے فیصلے خود کرنے دیں۔ مسلط قوتوں کے نمائندوں کو حکمران تسلیم کر لینے کے بعد ان کے تسلط کا ظاہری خاتمہ کوئی معنی نہیں رکھتا، یہ نوآبادیاتی نظام کی ایک تبدیل شدہ شکل ہے جس کا عالم اسلام کے بیشتر ممالک میں ہمیں مسلسل سامنا ہے، اور یہ صورتحال حریت پسندوں سے آزادی کی ایک نئی جدوجہد کا تقاضہ کر رہی ہے۔

(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۱۸ و ۱۹ جون ۲۰۱۹ء)
2016ء سے
Flag Counter