وفاقی وزارت تعلیم کا ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘

   
تاریخ : 
فروری ۲۰۰۶ء

روزنامہ پاکستان لاہور ۸ جنوری ۲۰۰۶ء کی ایک خبر کے مطابق وفاقی وزارت تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ وفاقی حکومت نے فرقہ وارانہ فسادات کے مکمل خاتمہ کے پیش نظر شمالی علاقہ جات میں نماز کے طریقہ ادائیگی کے بغیر نصاب رائج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ نماز کی ادائیگی کا طریقہ صرف پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی کتاب میں ہے جبکہ شمالی علاقہ جات کے تمام فرقے صوبہ سرحد میں متعارف کردہ کتاب پر متفق ہیں جس میں نماز کی ادائیگی کا کوئی طریقہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ حال ہی میں گلگت میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے ۶۰ سے زیادہ قیمتی جانوں کا ضیاع، سرکاری و نجی ملکیتوں کو نقصان، تعلیمی اداروں کا ۹ ماہ تک بند رہنا، علاقے میں کرفیو کا نفاذ، معمول کی زندگی کا متاثر ہونا اور عوام میں خوف و ہراس کی کیفیت کی بڑی وجہ شمالی علاقہ جات میں رائج درسی کتاب میں نماز کے طریقہ ادائیگی کا شامل ہونا تھا، چونکہ نماز کے طریقہ ادائیگی پر تمام مسالک متفق نہیں ہیں اس لیے وفاقی وزارت تعلیم نے وطن عزیز اور عوام کے عظیم تر مفاد میں فیصلہ کیا ہے کہ اس کتاب سے نماز کا طریقہ ادائیگی حذف کر دیا جائے۔

ہمارے خیال میں وفاقی وزارت تعلیم کی یہ وضاحت قابل قبول نہیں ہے اور ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘ کے زمرہ میں آتی ہے:

  1. اولاً اس لیے کہ خبر میں بتایا گیا ہے کہ طریقہ نماز کے درسی کتاب میں شامل ہونے کی وجہ سے فسادات گلگت اور شمالی علاقہ جات میں ہوئے ہیں جبکہ پورے ملک میں درسی کتاب سے نماز کا طریقہ خارج کر دیا گیا ہے خصوصاً پنجاب میں جہاں نماز کا طریقہ نصابی کتاب میں شامل ہونے کے باوجود اب تک اس حوالہ سے کوئی تنازعہ یا کشیدگی سامنے نہیں آئی، اگر شمالی علاقہ جات میں وہاں کی مخصوص صورتحال کی وجہ سے کوئی الجھاؤ ہے تو اسے پورے ملک پر مسلط کرنے کا کیا جواز ہے؟
  2. ثانیاً اس لیے کہ اگر فیصلے فرقہ وارانہ اتفاق اور اختلاف کے حوالہ سے ہی ہونے ہیں اور ایک اسلامی ریاست ہونے کی وجہ سے حکومت کی تعلیمی ذمہ داریاں اسی دائرے میں طے پانی ہیں تو پھر صرف اختلاف ہی کا پہلو کیوں پیش نظر ہے، اتفاق کے پہلوؤں کو نظر انداز کر دینے کا کیا جواز ہے؟ اسلامی نظام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں جن امور پر ملک کے تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے انہیں روئے عمل لانے میں کیا رکاوٹ ہے؟ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تعلیمی نظام کے حوالہ سے ملک کے تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کے تمام وفاق متحد ہیں اور نصاب تعلیم میں ردوبدل کے لیے ان کے متفقہ مطالبات ریکارڈ پر موجود ہیں، ان مطالبات کی منظوری کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟
  3. اور ثالثاً اس لیے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن کی اس بات کو نظرانداز کرنا معروضی صورتحال میں مشکل ہے جو انہوں نے گزشتہ دنوں مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں علماء کرام اور طلبہ کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی کہ جن دنوں گلگت اور شمالی علاقہ جات میں فرقہ وارانہ فسادات عروج پر تھے ہم نے کہہ دیا تھا کہ یہ فسادات ایجنسیوں کی پیداوار ہیں اور انہیں جواز بنا کر حکومت کوئی اقدام کرنا چاہ رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے یہ بات اس وقت کہی تھی اور حالات کا تسلسل اور نتائج گواہی دے رہے ہیں کہ ان کی یہ بات غلط نہیں تھی اور اسی کو بنیاد بنا کر وفاقی وزارت تعلیم ملک کے نصاب تعلیم سے دینی مواد کو کم کرنے کے بہانے تراش رہی ہے۔
   
2016ء سے
Flag Counter