تحفظ ناموس رسالتؐ کے سلسلہ میں اہل علم کی ذمہ داری

   
تاریخ : 
اپریل ۲۰۰۶ء

صفر کے آغاز میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے سہ ماہی امتحان کی تعطیلات کے موقع پر تین روز کے لیے کراچی جانے کا اتفاق ہوا، جامعۃ الرشید، جامعہ انوار القرآن، جامعہ بنوریہ، دفتر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، جامعہ عثمانیہ معین آباد لانڈھی، مجلس علمی جمشید روڈ، مسجد سبیل گورومندر چوک اور دیگر اداروں میں حاضری، مختلف دینی اجتماعات میں شرکت اور پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام جامعہ انوار القرآن میں منعقدہ ’’تحفظ ناموس رسالتؐ کانفرنس ‘‘ میں کچھ معروضات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث حضرت مولانا زر ولی خان صاحب، شیخ الحدیث حضرت مولانا اسفند یار خان صاحب، حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی، حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم، حضرت مولانا مفتی محمد نعیم، حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری، حضرت مولانا سید فضل الرحمن شاہ، بریگیڈیئر ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن اور دیگر سرکردہ علماء کرام سے ملاقات و گفتگو کا شرف حاصل ہوا۔ اس دوران ایک نشریاتی ادارے کی فرمائش پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں ’’حجۃ الوداع‘‘ کے حوالہ سے مختصر گفتگو ریکارڈ کرائی جس کا خلاصہ کچھ دیگر متعلقہ گزارشات کے ساتھ درج ذیل ہے۔

جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ہر پہلو تاریخ کے حوالہ سے اہم اور قیامت تک کے لیے مشعل راہ ہے اسی لیے اس کے تحفظ اور اسے تاریخ کے ریکارڈ میں پوری تفصیل کے ساتھ لانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لیکن اس میں سب سے زیادہ اہمیت ’’حجۃ الوداع‘‘ کو حاصل ہے اس لیے کہ اس روز جناب نبی اکرمؐ کے اس مشن کی عملی تکمیل ہوئی تھی جس کا اعلان آپؐ نے نبوت ملنے اور پہلی وحی نازل ہونے کے بعد صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر اہل مکہ کے سامنے کیا تھا۔ اور وہ مشن تھا شرک، بت پرستی اور جاہلیت کی دیگر اقدار کا خاتمہ اور پوری نسل انسانی کو اللہ تعالیٰ کی توحید کے اقرار، اس کی بندگی اور اس کے احکام کی پیروی پر جمع کرکے دنیا میں کلمۃ اللہ کی سربلندی اور اسلام کا غلبہ قائم کرنا۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تئیس سال سے بھی کم عرصہ کی مدت میں کامیابی حاصل کی اور جزیرہ عرب میں بت پرستی اور جاہلی اقدار کا خاتمہ کرکے اسلام کے غلبہ کے دور کا آغاز فرمایا۔ اس موقع پر جناب رسول اکرمؐ نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ ’’کل أمر الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی‘‘ جاہلیت کی ہر بات آج میرے قدموں کے نیچے ہے۔ میں اس ارشاد نبویؐ کی اس طرح تعبیر کیا کرتا ہوں کہ آنحضرتؐ نے اعلان کیا کہ میں جاہلیت کے تمام نظاموں اور اقدار و روایات کو پاؤں تلے روند کر انسانی سوسائٹی کے قافلہ کو علم، دین اور وحی الٰہی کی روشنی کی طرف لے کر بڑھ رہا ہوں۔ یہ تاریخ کا ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا جب آسمانی تعلیمات کی تکمیل کا اعلان ہوا، وحی الٰہی مکمل ہوئی، جاہلیت کے دور کا خاتمہ ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ جناب نبی اکرمؐ نے علاقائیت،قومیت، رنگ، نسل اور زبان کی تفریقوں سے بالا تر ہو کر پوری نسل انسانی کو بلا امتیاز خطاب کرتے ہوئے عالمگیریت اور گلوبلائزیشن کے دور کا آغاز کیا۔

اس موقع پر جناب نبی اکرمؐ نے جو تاریخی اعلانات فرمائے وہ احادیث کے ذخیرے میں حجۃ الوداع کے خطبہ کے عنوان سے متفرق طور پر موجود ہیں، صحابہ کرامؓ نے اپنے اپنے ذوق اور یادداشت کے مطابق اس کے مختلف حصوں کو نقل کیا ہے اور محدثین و مؤرخین نے پورے استناد و اہتمام کے ساتھ ان ارشادات نبویؐ کو حدیث و تاریخ کے ذخیرے میں محفوظ کر لیا ہے۔ اس پر بہت سے محدثین نے کام کیا ہے اور اسے مجتمع صورت میں پیش کرنے کے لیے خاصی محنت کی ہے چنانچہ اس وقت بعض ایسے مجموعے دستیاب ہیں جن میں خطبہ حجۃ الوداع کے سلسلہ میں اکثر و بیشتر روایات کی چھان بین کرکے اس کے مستند متن کو مرتب شکل میں جمع کیا گیا ہے۔ اس تاریخی اعلان کو بلاشبہ انسانی حقوق کی پہلی جامع دستاویز کا درجہ حاصل ہے اور یہ انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات و قوانین کے حوالہ سے سب سے مکمل اور جامع دستاویز ہے کہ اس میں اقوام و طبقات اور افراد و اشخاص کے باہمی حقوق و معاملات کی حدود بیان کی گئی ہیں اور انسان پر اس کے پیدا کرنے اور اس کی پرورش کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کے حقوق کی وضاحت کی گئی ہے۔ اور اسلام کا یہی امتیاز ہے کہ وہ صرف حقوق اللہ یا صرف حقوق العباد کی بات نہیں کرتا بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں ایسا توازن قائم کرتا ہے جو نسل انسانی کی دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے ناگزیر ہے اور جس توازن سے ہٹ کر نسل انسانی نے ہمیشہ ٹھوکر کھائی ہے۔

نبی کریمؐ نے اس تاریخی موقع پر جاہلیت کی بہت سی اقدار کا نام لے کر ان کے خاتمہ کا اعلان کیا:

  • ان میں ایک بڑی جاہلی لعنت سود کی تھی، آپؐ نے اس کی قطعی حرمت کا اعلان کیا اور اس کی پہل اپنے گھر سے کرتے ہوئے کہا کہ میرے چچا عباسؓ سود کا کاروبار کرتے آئے ہیں، آج کے بعد جس کے ذمہ ان کا قرض ہے وہ صرف اصل رقم واپس کرے گا، اس کے ساتھ سود کی رقم کی واپسی نہیں ہوگی۔
  • آنحضرتؐ نے جاہلی دور کے باہمی قتل و قتال اور اس کے بدلہ در بدلہ کی روایت کو ختم کیا اور اپنے خاندان کے ایک مقتول کا قصاص معاف کرکے اس سلسلہ کے خاتمہ کی طرف عملی پہل کی۔
  • جناب نبی اکرمؐ نے عورت کی مظلومیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین فرمائی اور یتیم کے بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے اس کے حقوق و مفادات کے تحفظ کی ہدایت کی، اس کے ساتھ میاں بیوی کے باہمی حقوق کی وضاحت کی اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کا حکم فرمایا۔
  • جناب رسول اللہ نے اس موقع پر انسان کی جان، مال، آبرو اور جسم کے تحفظ کا ان الفاظ کے ساتھ اعلان فرمایا کہ ’’ان دماء کم وأموالکم وأعراضکم وأبشارکم حرام علیکم کحرمۃ یومکم ھذا فی بلدکم ھذا فی شہرکم ھذا‘‘ (بخاری شریف) تمہارے خون، تمہارے اموال، تمہاری عزتیں اور تمہارے چمڑے ایک دوسرے پر اسی طرح محترم ہیں جیسے آج کے دن کی حرمت ہے، اس شہر مقدس کی حرمت ہے اور اس مبارک ماہ کی حرمت ہے۔

اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تاریخی خطبہ کی تفصیلات سامنے رکھ کر آج کے عالمی حالات پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جاہلیت ایک بار پھر انسانی سوسائٹی میں عود کر آئی ہے جس سے نبی اکرمؐ نے نسل انسانی کو نجات دلائی تھی اور وہ جاہلی اقدار و روایات ایک ایک کرکے پھر سے انسانی معاشرت کا حصہ بن گئی ہیں جن کو قدموں تلے روندنے کا آنحضرتؐ نے اعلان فرمایا تھا۔ اس لیے جناب رسول اکرمؐ کی سیرت مبارکہ کے حوالہ سے آج ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم نسل انسانی کو آپؐ کے اس عالمگیر پیغام سے ایک بار پھر آگاہ کر دیں جو آپؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں پوری نسل انسانی کو دیا تھا۔ لیکن دنیا کو پیغام دینے کے ساتھ بلکہ اس سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم خود اس پیغام پر عمل پیرا ہوں اور اس کا عملی نمونہ پیش کرکے انسانی سوسائٹی کو اس جاہلیت جدیدہ سے نجات دلانے کی محنت کریں جو جاہلیت قدیمہ کی تمام تر روایات و اقدار کو اپنے اندر سموئے ہوئے نئے میک اپ اور عنوان کے ساتھ دنیا پر مسلط ہوگئی ہے۔ نسل انسانی کے نام جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی پیغام ہے جسے آج کے لوگوں تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے اور اسے پورا کرکے ہی ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔

مجلس علمی کراچی ایک پرانا علمی مرکز ہے جس کی وسیع لائبریری کچھ عرصہ پہلے تک ٹاور کے علاقہ میں تھی اور حضرت مولانا محمد طاسین ؒ کی نگرانی میں علمی و تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز تھی، اس مجلس علمی کے تحت حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ اور حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ جیسے اکابر علماء جدید پیش آمدہ مسائل پر مشترکہ مشاورت کے ساتھ امت کی راہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ اب یہ ذوق ناپید ہوتا جا رہا ہے، بہت سے علمی و دینی مراکز اپنے اپنے ذوق کے مطابق علمی و دینی خدمت میں مصروف ہیں اورا مت کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں لیکن باہمی مشاورت اور تبادلہ خیالات کے مواقع بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ حالانکہ فقہ حنفی کا طرۂ امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ مشاورتی فقہ ہے اور کسی ایک فرد کی فکر و تفقہ کا نتیجہ ہونے کی بجائے اجتماعی علمی کاوش اور مشاورتی اجتہادی مساعی کا ثمرہ ہے، خدا کرے کہ آج کے دور میں جبکہ اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہے، اس ذوق کے پھر سے بیدار ہونے کی کوئی صورت نکل آئے، آمین یا رب العالمین۔ یہ مجلس علمی اور اس کی لائبریری اب بنوری ٹاؤن میں جامعہ علوم اسلامیہ کے قریب جمشید روڈ پر منتقل ہوگئی ہے اور حضرت مولانا محمد طاسین ؒ کے فرزند جناب عامر طاسین صاحب جو حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ کے نواسے ہیں، اس کی نگرانی اور انتظام کی ذمہ داری نباہ رہے ہیں۔ ان کی دعوت پر مجلس علمی میں حاضری ہوئی، انہوں نے مخصوص احباب کی ایک فکری نشست کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں مجھ سے یہ تقاضہ کیا گیا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں کی یورپی اخبارات میں اشاعت اور اس پر امت مسلمہ کے رد عمل کے حوالہ سے کچھ عرض کروں۔ میں نے گزارش کی کہ:

  • جہاں تک امت مسلمہ کے اجتماعی اور عوامی ردعمل کا تعلق ہے وہ تو خوب ہوا ہے، اور یورپ کے اخبارات نے جو شر پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کا یہ پہلو سامنے آیا ہے کہ پوری امت نے اجتماعی طور پر ایک بار پھر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ کا اظہار کرکے دنیا کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ کسی مسلمان سے کسی دور میں بھی یہ توقع نہ رکھی جائے کہ وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کے ساتھ عقیدت و محبت سے کبھی دستبردار ہوسکتا ہے۔ اس طرح اپنے بنیادی عقیدہ اور جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ مسلمانوں کی بے لچک وابستگی ایک بار پھر نکھر کر سامنے آگئی ہے لیکن یہ سب کچھ عوامی سطح پر ہوا ہے، مسلم حکمرانوں نے اس سلسلہ میں وہ کچھ نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا اور جو وہ موجودہ حالات میں کر سکتے تھے، ان کی ذہنی مرعوبیت اور مغرب سے خوف کی حالت ابھی تک وہی ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔
  • اس کے ساتھ ہی ایک اور پہلو پر توجہ کی ضرورت ہے کہ عوامی سطح پر جو احتجاج ہونا چاہیے تھا وہ ہو چکا اور عوام کے مختلف طبقات جو کر سکتے تھے وہ انہوں نے کر دیا، اس کے اثرات بھی ہیں اور فوائد بھی سامنے آرہے ہیں۔ لیکن اس سارے معاملہ سے جو علمی اور فکری سوالات از سر نو اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور جنہیں بہت زیادہ اجاگر کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے ان کے حوالہ سے علمی اداروں کا کام اب شروع ہوا ہے کہ ان سوالات کا تجزیہ کرکے ان کے پس منظر میں اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کا موقف علمی انداز میں سامنے لایا جائے۔
    1. آزادی رائے کی حدود کیا ہیں؟
    2. اسلام تنقید برداشت کرتا ہے یا نہیں؟
    3. تنقید اور توہین میں کیا فرق ہے؟
    4. توہین رسالت ؐ پر مسلمان اس قدر جذباتی کیوں ہو جاتے ہیں، وہ دوسروں کو اپنی رائے کے آزادانہ اظہار کا حق کیوں نہیں دیتے؟
    5. آج کی عالمگیر برادری اور ماحول میں مسلمان باہمی برداشت اور رواداری سے کام کیوں نہیں لیتے اور وہ دوسرے مذاہب کی نفی اور ان کے خلاف سخت طرز عمل کے خوگر کیوں ہیں؟

ان میں سے کوئی سوال بھی نیا نہیں ہے، ہر سوال تاریخ میں کئی بار دہرایا گیا ہے اور ہر دور میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ لیکن آج پھر یہ سوالات نئے تناظر میں دوبارہ سامنے آرہے ہیں تو اہل علم اور علمی مراکز کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سوالات کا ازسرنو سامنا کریں اور آج کے اسلوب اور زبان میں دلیل اور منطق کے ساتھ ان سوالات و اشکالات کا جواب دیں، تحفظ ناموس رسالتؐ کی جدوجہد میں یہ اہل علم کی ذمہ داری ہے جس کی طرف انہیں توجہ دینی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter