’’حسبہ بل‘‘ کی راہ میں رکاوٹیں

   
تاریخ : 
جنوری ۲۰۰۷

سرحد کی صوبائی اسمبلی کی طرف سے ’’حسبہ بل‘‘ کی دوبارہ منظوری کے بعد اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے اور عدالت عظمیٰ نے اس پر حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے گورنر سرحد کو اس وقت تک اس بل پر دستخط کرنے سے روک دیا ہے جب تک اس کے بارے میں عدالت عظمیٰ کوئی فیصلہ نہیں کر دیتی۔ دوسری طرف سرحد کے وزیر اعلیٰ جناب محمد اکرم درانی نے کہا ہے کہ یہ بل سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق از سر نو ترتیب دیا گیا تھا اور اس میں اپوزیشن کی ترامیم کو بھی شامل کیا گیا ہے اس لیے اس پر اعتراض کا کوئی جواز نہیں ہے، اس بنا پر صوبائی حکومت سپریم کورٹ میں اس بل پر پوری طرح اسٹینڈ لے گی اور دلائل کے ساتھ اپنا موقف ثابت کرے گی۔

’’حسبہ بل‘‘ میں معاشرہ میں ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ‘‘ کے فروغ کو بنیاد بنایا گیا ہے اور دینی اقدار و روایات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ معاشرتی خرابیوں کی روک تھام اور شرعی احکام کی خلاف ورزی کی حوصلہ شکنی کے لیے عوامی احتساب کا ایک نظام وضع کیا گیا ہے۔ جسے متوازی نظام قرار دے کر مسترد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ احتساب کا یہ نظام ہماری روایات کا حصہ چلا آرہا ہے اور نہ صرف ماضی میں اسلامی حکومتوں کی طرف سے احتساب کے اس نظام کی واضح مثالیں موجود ہیں بلکہ اب بھی سعودی عرب میں یہ سسٹم کامیابی کے ساتھ جاری ہے جس کے معاشرتی اثرات کا ہر شخص مشاہدہ کر رہا ہے، جبکہ ہمارے ہاں آزاد کشمیر میں بھی کسی حد تک یہ نظام قانونی طور پر موجود ہے۔

ہمارے مقتدر طبقے اصل میں دین کے حوالہ سے کسی معاشرتی احتساب کی ضرورت ہی سرے سے محسوس نہیں کرتے، ان کے نزدیک دین یا خیر کے اعمال فرد کا ذاتی معاملہ ہے جس میں ریاست یا حکومت کو دخل نہیں دینا چاہیے۔ یہ موقف مغرب کا ہے اور یہی سیکولر فلسفہ کی بنیاد ہے، جبکہ اسلام میں یہ سب باتیں ریاست کی ذمہ داریوں اور حکومت کے فرائض میں شمار ہوتی ہیں۔ قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ ہم اہل ایمان کو جب اقتدار دیتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں، معروفات یعنی خیر کے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور منکرات یعنی گناہ کے کاموں سے روکتے ہیں۔ جبکہ ہمارے فقہائے کرام جہاں ایک اسلامی ریاست اور حکومت کے فرائض بیان کرتے ہیں تو وہ اس میں صراحت بھی کرتے ہیں کہ معاشرہ میں عدل و انصاف کے قیام کے ساتھ ساتھ خیر کا فروغ اور شر کا خاتمہ بھی حکومتی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔

اس لیے معاشرہ میں دینی اقدار و روایات اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حوالہ سے کسی سسٹم کی ضرورت سے انکار دراصل سیکولر فلسفہ کے فروغ اور اسلامی احکام سے انحراف کے مترادف ہے، دستور میں اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیے بیان کی گئی ریاستی و حکومتی ذمہ داریوں کی نفی ہے اور وفاق کی طرف سے اس کو روکنے کی کوششیں درست عمل نہیں ہے۔ پھر وزیر اعلیٰ سرحد جناب اکرم درانی کا یہ کہنا بھی بالکل صحیح ہے کہ یہ سسٹم صوبہ کی منتخب اسمبلی نے سپریم کورٹ کی ہدایات کو سامنے رکھ کر بنایا ہے اور اس کے پیچھے صوبہ سرحد کے عوام کا جمہوری مینڈیٹ ہے جس کا وفاق کو احترام کرنا چاہیے۔

بہرحال ہم اس حوالہ سے صوبہ سرحد کی اسمبلی اور حکومت کے اقدام کو اسلامی اور جمہوری اقدار کے مطابق سمجھتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں اپنے طرز عمل سے نظر ثانی کرے اور صوبہ سرحد میں نفاذ اسلام کے سلسلہ میں کی جانے والی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی بجائے اپنی دستوری ذمہ داریوں کا پاس کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرے۔

   
2016ء سے
Flag Counter