روہنگیا مسلمانوں کی داستان مظلومیت

   
تاریخ : 
دسمبر ۲۰۱۲ء

میانمار (برما) کی سرحدوں کے اندر اراکان نام کا خطہ جو ایک دور میں مسلمانوں کی خودمختار ریاست ہوا کرتا تھا ان دنوں بدھ دہشت گردوں کی وحشت و بربریت کا شکار ہے اور مسلم اکثریت کا یہ صوبہ اس ظلم و جبر اور وحشیانہ تشدد کے باعث مسلمانوں کے وجود سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔ اس خطہ کے مسلمانوں کا جرم یہ بتایا جاتا ہے کہ:

  • برصغیر کی تقسیم کے وقت روہنگیا مسلمانوں نے، جو اس خطہ میں اکثریت میں ہیں، بنگلہ دیش کے پڑوس میں ہونے کی وجہ سے یہ مطالبہ کر دیا تھا کہ انہیں برما میں شامل رکھنے کی بجائے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے نئے ملک پاکستان میں شامل کر دیا جائے۔ اس لیے کہ وہ مسلمان اکثریت رکھتے ہیں اور پاکستان کے اس وقت کے مشرقی حصہ مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کے ساتھ متصل سرحد رکھتے ہیں۔
  • جبکہ بنگلہ دیش کا ایک بڑا شہر چٹاگانگ آزاد مسلم ریاست کے دور میں اراکان کا ہی حصہ ہوا کرتا تھا۔ جسے متحدہ ہندوستان سے برما کو الگ کرتے وقت اراکان کی تقسیم کر کے چٹاگانگ کو بنگال کا، اور باقی اراکان کو برما کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔

انگریز حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر برما کو خودمختاری دیتے وقت اراکان کو بندر بانٹ کے اصول کے مطابق بنگال اور برما کے درمیان تقسیم تو کر دیا تھا لیکن جب پورے ہندوستان کو آزادی دینے کی باری آئی تو برطانوی استعمار نے کشمیر کی طرح اراکان کو بھی ایک مستقل تنازعہ کی صورت میں باقی رہنے دیا۔ ہماری رائے میں کشمیر کی طرح اراکان کا مسئلہ بھی برطانوی استعمار کا پیدا کردہ ہے، صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ کشمیر کے ساتھ متصل پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو اپنا مسئلہ سمجھا، مہاجرین کو پناہ دی اور ہر فورم پر کشمیر کا مسئلہ اٹھایا، جبکہ اراکان کے ساتھ متصل بنگلہ دیش نے اراکان کے مظلوم مسلمانوں کے مسئلہ کو اپنا مسئلہ قرار دینے سے مسلسل گریز کیا حتیٰ کہ وہ بدھ دہشت گردی کا شکار ہونے والے (مزید) مظلوم مہاجرین کو پناہ دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے اور سمندر کے ساحل سے ان کی کشتیوں کو واپس دھکیلا جا رہا ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اراکان میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے، روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ ۱۹ نومبر ۲۰۱۲ء کی خبر کے مطابق انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں خود میانمار (برما) کی سرکاری فوجیں ملوث ہیں اور وہ بھی دہشت گردوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو ملک کا شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور بنگلہ دیش ان کو مہاجر کے طور پر قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر ناوی پیلے کو انڈونیشیا میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میانمار کی حکومت سے با قاعدہ طور پر یہ مطالبہ کرنا پڑا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دے۔

یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ میانمار (برما) کی سرحدات کے اندر پیدا ہونے والے اور کئی نسلوں سے آباد مسلمانوں کو وہاں کا شہری تک تسلیم نہیں کیا جا رہا اور سرکاری فورسز دہشت گردوں کے ساتھ مل کر ان کا قتل عام کر رہی ہیں۔ امریکہ کے صدر باراک اوبامہ نے دوسری دفعہ منتخب ہونے کے بعد میانمار کا دورہ کیا ہے اور وہاں کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے سنجیدگی اختیار کرے، لیکن ہمارے نزدیک یہ مسئلہ اصل میں مسلم حکمرانوں کا ہے، بنگلہ دیش اور پاکستان کا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے مسئلہ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور مشترکہ طور پر کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار کر کے ان مظلوم مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور تشخص و آزادی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے عملی اقدامات کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter