پشاور کا المناک سانحہ

   
تاریخ : 
اکتوبر ۲۰۱۳ء

۲۲ ستمبر کو پشاور کے ایک چرچ میں دو خودکش دھماکوں کے دوران ۸۰ کے لگ بھگ افراد کے جاں بحق اور سینکڑوں شہریوں کے زخمی ہونے پر ملک بھر میں شدید غم و غصہ اور رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے اور قوم کے تمام طبقات کی طرف سے اس کی مذمت اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ اتوار کا دن تھا اور مسیحی برادری کے حضرات اپنی عبادت میں مصروف تھے کہ اچانک خودکش حملوں کے باعث کہرام مچ گیا اور ہر طرف لاشوں اور زخمیوں کے بکھرنے سے پوری قوم غم و اندوہ کا شکار ہو گئی۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کی قومی کانفرنس کی طرف سے پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے اتفاق رائے کا اظہار ہوا اور ان مذاکرات کے آغاز کے لیے پیشرفت کی راہیں نکالی جا رہی تھیں کہ اس سانحہ نے مذاکرات کے آغاز پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

جہاں تک ان خودکش حملوں کا تعلق ہے ملک کے تمام دینی حلقے جہاں پاکستان کی سرحدوں کے اندر امریکہ کے ڈرون حملوں کی مذمت کر رہے ہیں اور انہیں پاکستان کی سر حدوں کی پامالی کے ساتھ ساتھ سینکڑوں بے گناہ شہریوں کی مظلومانہ شہادت کا باعث قرار دیتے ہوئے ان کی فوری بندش کے لیے حکومت سے مؤثر اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہاں وہ خود کش حملوں کے ذریعے بے گناہ اور غیر متعلقہ شہریوں کی جانوں کے ساتھ کھیلنے کو بھی اسلامی احکامات کے منافی اور دینی تقاضوں سے انحراف سمجھتے ہوئے ان کی مذمت کر رہے ہیں۔ لیکن ڈرون حملوں اور خودکش حملوں کے ذمہ دار حضرات پاکستانی قوم اور اربابِ علم و دین کی اس بات پر توجہ دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے اور دونوں طرف سے قتل و غارت کا یہ المناک سلسلہ جاری ہے۔

ہم کئی بار عرض کر چکے ہیں کہ ملک کے بے گناہ شہریوں کو تشدد یا انتقام کی کاروائیوں کا نشانہ بنانا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے اور شریعت اسلامیہ اس کی اجازت نہیں دیتی۔ امام سرخسی ؒ نے ’’المبسوط‘‘ میں عباسی خلافت کے دور کا واقعہ لکھا ہے کہ خلیفہ ابو جعفر منصور ؒ کا ایک معاہدہ دمشق کے مسیحیوں کے ساتھ ہوا اور اس معاہدے پر عملدرآمد کی گارنٹی کے لیے دونوں طرف سے کچھ افراد ایک دوسرے کے حوالہ کیے گئے جو ان کی تحویل میں تھے، اس دوران دمشق کے مسیحیوں نے خلیفہ عباسی کی طرف سے ان کی تحویل میں دیے گئے ضمانتیوں کو قتل کر دیا تو جواب میں ان کے ضمانتیوں کو قتل کرنے کے لیے خلیفہ منصور ؒ نے اکابر علماء کرام سے مشورہ کیا، جس پر امام اعظم امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا کہ مسلم ضمانتیوں کے قتل کے جواب میں مسیحی ضمانتیوں کو قتل کرنا جائز نہیں ہے اس لیے کہ:

  • قتل کے جرم میں یہ لوگ شریک نہیں ہیں اور قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ’’لا تزر وازرۃ وزر اُخریٰ ‘‘۔
  • یہ لوگ آپ کی امان میں ہیں اور ان کی جان و مال کا تحفظ آپ کی ذمہ داری ہے۔

امام سرخسی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا یہ ارشاد سن کر عباسی خلیفہ نے مسیحی ضمانتیوں کو قتل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ ویسے بھی یہ اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہے کہ حالت جنگ کے دوران بھی غیر متعلقہ لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے صراحتاً منع فرمایا ہے۔

اس لیے ڈرون حملوں اور اہل دین پر مسلسل ڈھائے جانے والے مظالم کے تمام تر تلخ نتائج و ثمرات کے باوجود اسلامی تعلیمات کی پاسداری سب کے لیے ضروری ہے اور جوابی یا انتقامی کاروائیوں میں پُر امن شہریوں، غیر متعلقہ لوگوں، غیر مسلم اقلیتوں اور خاص طور پر ان کی عبادت گاہوں اور عبادت کے اجتماعات کو نشانہ بنانا کسی طور پر شرعاً جائز نہیں ہے، اس سے ملک کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔ اس لیے ہم اس سانحہ میں جاں بحق اور زخمی ہونے والے مسیحی افراد اور خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حملہ آوروں کو قانون کی زد اور اس کے دائرے میں لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں اور اس قسم کے سانحات کی روک تھام کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter