میڈیا سے متعلق چند لطائف

   
مجلہ: 
روزنامہ پاکستان، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۳ جنوری ۲۰۱۱ء

محترم جناب غلام جیلانی خان صاحب کے کالم میں ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے حوالے سے میڈیا کی اخلاقیات کا مرثیہ پڑھ کر چند پرانے واقعات یاد آگئے جو میڈیا اور اس سے فائدہ اٹھانے والے طبقات کے طرز عمل کے بارے میں ہیں۔ اور جن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ میڈیا والے خبر بنانے اور خبر سازی میں باہمی مقابلے کے لیے کیا کیا ڈھنگ اختیار کرتے ہیں۔ نیز سیاسی رہنما اور کارکن میڈیا کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کی غرض سے کیسے حدود کو عبور کر جاتے ہیں؟

میرا تعلق کم و بیش نصف صدی سے پریس کے ساتھ ہے۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران میں نے اپنے آبائی قصبہ گکھڑ میں روزنامہ وفاق لاہور کے نامہ نگار کی حیثیت سے صحافی زندگی کا آغاز کیا تھا اور اب تک کسی نہ کسی حوالے سے پریس کے ساتھ وابستہ ہوں۔ مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور جمعیۃ کے آرگن ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کے مدیر کے طور پر خدمات سر انجام دیتا رہا ہوں۔

یہ کم و بیش تیس بتیس برس قبل کی بات ہے جو ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے عروج کا دور تھا۔ پنجاب میں محترم حمزہ صاحب قومی اتحاد کے صدر تھے اور میرے سپرد سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریاں تھیں۔ جنوبی پنجاب کے ایک بڑے قصبے میں تنظیمی دورے پر جانے کا اتفاق ہوا۔ پبلک ٹرانسپورٹ ہی ہمیشہ میرا ذریعہ سفر رہی ہے۔ میں جب اس قصبے کے لاری اڈے پر بس سے اترا تو بازار میں لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہو رہا تھا کہ پاکستان قومی اتحاد کے صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی شام چار بجے فلاں چوک میں پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ میں سٹپٹا کر رہ گیا اور میزبانوں کے پاس پہنچ کر میں نے پہلا سوال یہی کیا کہ بھئی یہ کیا تماشا ہے؟ پریس کانفرنس کا آپ کو کس نے کہا تھا اور کیا پریس کانفرنس اس طرح چوکوں میں لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کر کے ہوا کرتی ہے؟ میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ پریس کانفرنس تو کسی بہت اہم مقصد کے لیے ہوتی ہے جبکہ میں معمول کے دورے پر آیا ہوں اور کوئی ایسا مسئلہ میرے سامنے نہیں ہے جس کے لیے مجھے پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت محسوس ہو۔ پھر پریس کانفرنس چوکوں میں پبلک اعلان کر کے نہیں ہوا کرتی۔ مگر ان کا اصرار تھا کہ ہم اعلان کر چکے ہیں اس لیے آپ کو پریس کانفرنس تو کرنا ہوگی اور اسی طرح کرنا ہوگی۔ چنانچہ میں نے اس شان سے پریس کانفرنس کی کہ چوک میں واقع ایک پارٹی کے دفتر میں پریس کانفرنس ہو رہی تھی، دفتر کے باہر لاؤڈ اسپیکر لگے ہوئے تھے اور چوک میں لوگوں کا ایک ہجوم اس پریس کانفرنس کی سماعت کر رہا تھا۔

اسی دور کی بات ہے، میری رہائش اس زمانے میں گکھڑ میں اپنے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ ان کے مکان میں ہوتی تھی۔ میں اکثر دوروں پر رہتا اور تیسرے چوتھے روز گھر آنے کا موقع ملتا۔ ایک روز میں معمول کے مطابق گھر آیا، بس اسٹاپ سے گھر جاتے ہوئے راستے میں ایک اخبار کے نامہ نگار سے سرِراہ ملاقات ہوئی۔ علیک سلیک اور حال احوال دریافت کرنے کے بعد میں گھر چلا گیا۔ اگلے روز اخبار میں پڑھا کہ مولانا زاہد الراشدی نے گکھڑ کا دورہ کیا ہے اور بزرگ عالم دین مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ ملاقات کر کے اہم امور پر ان سے تبادلۂ خیالات کیا ہے۔ میں نے اس نامہ نگار کو بتایا کہ میرے بھائی میں معمول کے مطابق اپنے گھر آیا ہوں اور اپنے ہی والد گرامی سے ملا ہوں، اس میں خبر کی کون سی بات ہے؟ وہ کوئی جواب نہ دے سکا، مگر اسے ایک خبر چاہیے تھی جو اس نے بنا لی تھی۔

ایک خبر خود میں نے اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بنائی۔ مولانا عبد الرؤف فاروقی جو سمن آباد لاہور کی مسجد خضراء کے خطیب اور جمعیۃ علماء اسلام (س) کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، اس زمانے میں کامونکی کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب اور جمعیۃ علماء اسلام کے ضلعی سطح کے ذمہ دار تھے۔ مجھے ان سے ایک دو ضروری کاموں کے حوالے سے ملنا تھا۔ اس دور میں ٹیلی فون کی سہولت اس قدر عام نہیں تھی اور باہمی رابطہ مشکل سے ہوا کرتا تھا۔ میں لاہور آتے جاتے دو تین بار ان سے ملاقات کے لیے رکا مگر ملاقات نہ ہو سکی۔ اور پھر ایک دو بار پیغام بھی بھجوایا جو شاید ان تک نہ پہنچ سکا۔ میں نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک قومی اخبار میں خبر لگوا دی کہ فلاں دن میں کامونکی کا دورہ کروں گا اور جماعتی رہنماؤں سے ملوں گا۔ میرا نسخہ کارگر ثابت ہوا کہ جب میں خبر کے مطابق وہاں پہنچا تو مولانا فاروقی میرے انتظار میں تھے اور ہماری ملاقات ہوگئی۔

اور اس طرز کے لطیفے تو اکثر ہوا کرتے تھے کہ کسی جلسے کی خبر پیشگی بنا کر لگوا دی گئی لیکن جن صاحب نے جلسے سے خطاب کرنا تھا وہ آئے ہی نہیں۔ دو واقعات سے خود میرا تعلق بھی ہے۔ گوجرانوالہ کے شیرانوالہ باغ میں جمعیۃ علماء اسلام کے زیر اہتمام سیرت النبیؐ کے موضوع پر جلسہ تھا، علامہ شمس الحق افغانیؒ نے بہاولپور سے تشریف لا کر خطاب کرنا تھا جو اس وقت بہاولپور کی اسلامی یونیورسٹی میں شیخ التفسیر کے منصب پر فائز تھے اور ملک کے بزرگ علمائے کرام میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ایک بڑے قومی اخبار کے نمائندہ خصوصی نے مجھ سے تقاضا کیا کہ مولانا افغانیؒ کے مزاج سے تو آپ واقف ہی ہیں، اسے مد نظر رکھ کر خطاب کے چند جملے مجھے لکھوا دیں۔ تب فیکس یا انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہوتی تھی اور فون پر خبر لکھوانا پڑتی تھی۔ میں نے علامہ افغانیؒ کے ذوق کو سامنے رکھ کر ان کے متوقع خطاب کے کچھ جملے نوٹ کرا دیے۔ علامہ افغانیؒ اتفاق سے تشریف نہ لا سکے، البتہ صبح اخبار میں ایک سرخی کے ساتھ ان کا خطاب چھپ گیا تھا۔

اس سے بڑا واقعہ برمنگھم برطانیہ میں ہوا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام سالانہ ختم نبوت کانفرنس سے امام حرمین الشیخ عبد اللہ بن السبیل حفظہ اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمانا تھا جو برطانیہ تشریف لائے ہوئے تھے اور کانفرنس سے خطاب ان کے پروگرام میں شامل تھا۔ لندن سے شائع ہونے والے ایک بڑے اردو روزنامہ اخبار کے نمائندہ خصوصی نے مجھے دوپہر کے وقت پکڑ لیا اور کہا کہ کچھ تفصیلات لکھ دیں، میری خبر وقت پر چلی جائے گی۔ میں نے امام کعبہ کے مقام و مرتبے اور ذوق و مزاج کو سامنے رکھ کر ایک خطاب مرتب کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ امام کعبہ کسی مجبوری کی وجہ سے کانفرنس میں تشریف نہ لا سکے۔ مگر دوسرے روز لندن سے شائع ہونے والے سب سے بڑے اردو اخبار کی مرکزی سرخی ختم نبوت کانفرنس سے امام کعبہ کے حوالہ سے تھی اور وہ خطاب جو متوقع خطاب کے طور پر تحریر کیا گیا تھا وہ من و عن شائع ہوگیا تھا۔

اور تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ چند ماہ قبل ایک اردو روزنامہ کے رپورٹر نے فون پر مجھ سے کسی اہم مسئلے پر انٹرویو لیا، میں نے اس مسئلے کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا۔ مگر جب وہ شائع ہوا تو میرے کہے ہوئے الفاظ یا جملوں میں سے شاید ہی اس میں کوئی شامل ہوا ہو۔ البتہ رپورٹر نے بہت سی ایسی باتیں میرے کھاتے میں ڈال رکھی تھیں جو میرے موقف سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔

ہمارے دور میں پریس کانفرنس یا پریس انٹرویو کا اصول یہ ہوتا تھا کہ کہنے والا جو کہنا چاہتا ہے وہ شائع ہو۔ البتہ کسی بات کی وضاحت کے لیے کوئی سوال ضروری ہوتا تو وہ پوچھ لیا جاتا تھا۔ مگر اب یہ بات الٹ ہوگئی ہے کہ پریس کانفرنس کرنے والے یا انٹرویو دینے والے کی اپنی بات راستے میں ہی کہیں گم ہو جاتی ہے اور سوال و جواب کے ذریعے رپورٹر جو کہلوانا چاہتا ہے وہ نمایاں طور پر شائع ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک اہم دینی مسئلے کے بارے میں ایک ٹی وی چینل کے نمائندے نے مجھ سے سوال کیا۔ میں نے عرض کیا کہ مسئلے کی پوری نوعیت جب تک میرے علم میں نہیں ہوگی میں کوئی بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ جبکہ ان کا اصرار تھا کہ ان کے سوال پر میں اس دینی مسئلے کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور کہوں، مگر میں نے معذرت کر لی۔

اس لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ادھورا سا مسئلہ لے کر مختلف علمائے کرام سے فون پر سوال کیا جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اچانک سوال پر ہر عالم دین وہی جواب دے گا جو وقتی طور پر اس کے ذہن میں آئے گا اور یہ جوابات لازماً ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے۔ اس سے ایک تاثر یہ پھیلتا ہے کہ علمائے کرام کسی مسئلے پر متفق نہیں ہوتے۔ اس لیے میں نے فون پر زبانی جواب دینے کا یہ سلسلہ ترک کر دیا ہے۔ میری درخواست یہ ہوتی ہے کہ سوالنامہ مجھے بھجوا دیا جائے، اس پر غور کر کے اور مسئلے کی اصل پوزیشن معلوم کر کے جواب تحریری شکل میں دوں گا۔

یہ چند واقعات اور تاثرات محترم جناب غلام جیلانی خان کے ارشادات کی تائید میں تحریر کیے ہیں۔ عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ابلاغ عامہ کے محاذ پر جہاں میڈیا کے بہت سے افراد اپنے قارئین کے ذہنوں کو کنفیوژ کرنے کا رول ادا کرتے ہیں، وہاں بعض سیاسی رہنما اور کارکن بھی میڈیا کو استعمال کرنے میں محتاط نہیں ہوتے۔ اس کا تعلق ہمارے عمومی کلچر سے ہے کہ ہم کسی بھی چیز کے صحیح اور ضرورت کے مطابق استعمال کرنے کے عادی نہیں ہیں اور ہر چیز سے ذاتی اور وقتی فائدہ حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے لیے عمومی اصلاحی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی تحریک جو ہمیں ذاتی، گروہی، اور وقتی اغراض و مفادات سے بالاتر ہو کر قومی اور اجتماعی سوچ کے تحت اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ کر دے۔ یہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔

   
Flag Counter