مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال اور حضرت شیخ الہندؒ کی سوچ

   
تاریخ : 
جولائی ۲۰۱۴ء

شام میں ایک عرصہ سے جاری سنی شیعہ کشمکش میں، جو رفتہ رفتہ شدید عسکری تصادم کی شکل اختیار کر چکی ہے، اب عراق بھی شامل ہو گیا ہے اور آئی ایس آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا) کے مسلح لشکر کی عراق میں مسلسل پیش قدمی نے ایک بار پھر عالمی قوتوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے امریکہ سے تعاون کی درخواست کی ہے اور بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ عراق کی تقسیم اور عراق و شام سمیت پورے خطے میں از سرِ نو جغرافیائی رد و بدل کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی موجودہ جغرافیائی تقسیم اب سے ایک صدی قبل پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کے ساتھ خلافت عثمانیہ کی شکست سے پیدا شدہ حالات میں وجود میں آئی تھی جب فاتح یورپی اقوام نے مشرق وسطیٰ میں خلافت عثمانیہ کے زیر انتظام علاقوں کا بندوبست سنبھال کر بندر بانٹ کے ذریعے مختلف نئی ریاستوں کی تشکیل کی تھی، جس کے نتیجے میں سعودی عرب، عراق، اردن، فلسطین، اسرائیل اور شام وغیرہ کی نئی جغرافیائی سرحدیں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی تھیں۔ جبکہ مغربی استعمار نے اس موقع پر جہاں دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کر کے ان کی ریاست ’’اسرائیل‘‘ قائم کرنے کی راہ ہموار کی تھی، وہاں اس خطہ میں اپنی معاشی اور عسکری موجودگی بلکہ بالادستی کا مقصد بھی حاصل کر لیا تھا، ورنہ اس سے قبل مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا حصہ خلافت عثمانیہ کے زیرنگیں تھا اور سیاسی مرکزیت و وحدت کی یہ علامت کسی نہ کسی سطح پر قائم چلی آرہی تھی۔

خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور مشرق وسطیٰ کی ازسرنو جغرافیائی تقسیم نہ صرف عرب دنیا بلکہ پورے عالم اسلام کے خلفشار اور اضمحلال کا باعث بنے تھے جس کا خمیازہ اب تک امت مسلمہ بھگت رہی ہے اور خمیازے کی اس دلدل سے نکلنے کا مستقبل قریب میں بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ شام کے موجودہ صدر بشار الاسد کے والد حافظ الاسد اب سے کم و بیش نصف صدی قبل برسرِ اقتدار آئے تھے تو ان کا ابتدائی تعارف قوم پرست اور سیکولر عرب سیاسی جماعت ’’بعث پارٹی‘‘ کے حوالہ سے تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے ان کے مذہبی عقائد نے اپنا کام دکھانا شروع کیا تو وہاں کی اکثریتی سنی آبادی کو ان سے جبر و زیادتی کی شکایات پیدا ہوئیں۔ حافظ الاسد کا تعلق اہل تشیع کے علوی اور نصیری فرقہ سے تھا جو شیعہ حلقوں میں بھی انتہا پسند سمجھے جاتے ہیں اور بدقسمتی سے شام کی فوج اور بیوروکریسی میں اسی فرقہ کے اثرات کا غلبہ بتایا جاتا ہے جس کا ایک تلخ ثمرہ حافظ الاسد کے دور میں اہل سنت کے مذہبی شہر ’’حماہ‘‘ پر ریاستی فوجوں کے عسکری آپریشن کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس آپریشن اور اس کے حوالہ سے ملک بھر میں کیے جانے والے کریک ڈاؤن میں دس ہزار کے لگ بھگ سنی علماء اور کارکن شہید ہوئے تھے اور ہمارے شیخ محترم الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ جو اس وقت شام کی اخوان المسلمون کے سربراہ تھے ملک سے جلا وطن ہونا پڑا تھا۔

حافظ الاسد کے بعد ان کے فرزند بشار الاسد برسر اقتدار آئے تو ابتدا میں ان کا رویہ اس کشمکش سے لاتعلقی کا تھا لیکن وہ زیادہ دیر تک اپنی پالیسیوں پر لاتعلقی کا یہ پردہ قائم نہیں رکھ سکے اور یہ ان کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج شام میں سنی شیعہ کشمکش خانہ جنگی کی صورت اختیار کر چکی ہے اور شام بداَمنی کے حوالہ سے دنیا کا سب سے زیادہ خطرناک ملک شمار کیا جانے لگا ہے۔

دوسری طرف عراق میں جھوٹے الزامات کے تحت صدام حسین حکومت کے خلاف مغربی فوجوں کی لشکر کشی اور لاکھوں افراد کے قتل عام کے بعد وہاں امریکہ اور اس کے دیگر اتحادیوں کی سرپرستی میں جو حکومت نوری المالکی کی قیادت میں قائم ہوئی اس کے بارے میں خود امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو یہ کہنا پڑا ہے کہ وہ انتہا پسند اور فرقہ پرست شیعہ لیڈر ہیں جنہوں نے فوج اور بیوروکریسی سے چن چن کر سنی افسروں کو نکال دیا ہے اور وہ ملکی معاملات میں سنی عوام کی شرکت کو کسی درجہ میں بھی گوارا نہیں کر رہے۔ ہیلری کلنٹن کا یہ انٹرویو حال ہی میں سامنے آیا ہے جس کے کچھ حصے روزنامہ پاکستان لاہور کی ۲۳ جون ۲۰۱۴ء کے ادارتی صفحہ پر لیفٹیننٹ کرنل غلام جیلانی خان صاحب کے کالم میں مذکور ہیں۔ ہیلری کلنٹن امریکہ کی سابق خاتون اول اور سابق وزیر خارجہ ہیں اور اگلے صدارتی انتخاب کے مضبوط امیدواروں میں شمار کی جا رہی ہیں، انہوں نے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ عراق میں فوجی مداخلت کے موقع پر انہوں نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی جو حمایت کی تھی وہ ان کی غلطی تھی اور اب بھی وہ صدر اوبامہ کو عراق میں دوبارہ مداخلت کرنے کا مشورہ نہیں دیں گی۔

عراق سے امریکہ اور اتحادیوں کی فوجوں کے نکلنے کے ساتھ ہی یہ بات عالمی پریس کے تبصروں میں سامنے آنے لگی تھی کہ عراق کو تین حصوں (۱) کرد عراق (۲) شیعہ عراق (۳) سنی عراق میں تقسیم کرنے کا پلان وائٹ ہاؤس میں تشکیل پا گیا ہے اور اس کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے جس کے نتائج اب دکھائی دینے لگے ہیں۔

عراق کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کرد آبادی خود کو قوم پرست اور سیکولر طور پر پیش کرتی ہے اور سنی دائرے کو اپنا تعارف بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر انہیں اس ٹائٹل کے ساتھ الگ شمار کیا جائے تو باقی آبادی میں شیعہ اکثریت ہے اور سنی آبادی اقلیت سمجھی جاتی ہے، اس لیے اگر اس بنیاد پر خدانخواستہ عراق تقسیم ہوتا ہے تو اہل سنت کی پوزیشن انتہائی کمزور ہو جائے گی۔ عرصہ ہوا ہم نے ایک عرب دانشور کے کالم میں اس صورتحال کا یہ تجزیہ پڑھا تھا کہ اگر عراق اس پوزیشن میں خدانخواستہ تقسیم ہوتا ہے تو تیل کے علاقے یا کردوں کے پاس ہوں گے یا شیعہ عراق میں ہوں گے، جبکہ سنی ریاست جن تین صوبوں میں قائم ہو گی وہاں تیل نہیں ہے، اس لیے وہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہو گی۔ اس کالم کا عنوان بھی یہ تھا کہ ’’ والسنۃ علی باب اللّٰہ ‘‘ (سنی اللہ تعالیٰ کے دروازے پر کھڑے ہیں)۔

اس صورتحال میں آئی ایس آئی ایس کے نام سے ایک نئی قوت کی پیشرفت سے بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ عراق اور شام دونوں ملکوں میں ریاستی جبر کا شکار ہونے والے سنیوں نے شاید مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے اور اپنی قوت کو یکجا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔عراق و شام کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کے امکانات و خطرات کا یہ صرف ایک پہلو ہے جس کا ہم نے اپنے نقطۂ نظر سے ذکر کیا ہے ورنہ اور بھی بہت سے عوامل ہیں جو مشرق وسطیٰ کی مستقبل کی نئی نقشہ گری میں کار فرما ہیں اور ان سے آگاہی حاصل کرنا اس مسئلہ کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

ایک صدی قبل جب پہلی جنگ عظیم کے بعد مشرق وسطیٰ جغرافیائی تقسیم کے دور سے گزر رہا تھا تو ہمارے اکابر نے خلافت عثمانیہ کے تحفظ اور مسلمانوں کی علمی و فکری راہنمائی کا کردار ادا کیا تھا۔ جو اگرچہ کامیاب نہیں ہو سکا تھا لیکن اکابر علماء دیوبند بالخصوص شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسنؒ کے قافلہ کی عالمی سوچ اور امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل میں ان کی فکر مندی کی علامت کے طور پر ملت اسلامیہ کی تاریخ کے ایک مستقل باب کی حیثیت ضرور اختیار کر چکا ہے۔ ہمارے خیال میں شیخ الہندؒ کی اس سوچ کو دوبارہ متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور خود کو مقامی، علاقائی اور معروضی تقاضوں میں محدود رکھنے کی بجائے عالم اسلام کے اجتماعی مسائل میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنے کے لیے امکانات کی تلاش ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔ مگر ہمارا حال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہمارے موجودہ خود ساختہ فکری خولوں سے باہر جھانکنے کی بھی کوشش کرتا ہے تو گردن زدنی قرار پایا جاتا ہے، کیا حضرت شیخ الہندؒ کی سوچ اور دائرۂ فکر ہمارے لیے اس قدر اجنبی ہو چکا ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter