پاکستانی اور اسرائیلی وزرائے خارجہ کی ملاقات

   
تاریخ : 
ستمبر ۲۰۰۵ء

پاکستان کے وزیر خارجہ جناب خورشید محمود قصوری اور اسرائیل کے وزیر خارجہ سلوان شلوم کے درمیان گزشتہ دنوں استنبول میں ہونے والی ملاقات حسب توقع دنیا بھر میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور اس کے حق میں اور خلاف دلائل دیے جا رہے ہیں۔ دنیا کے کوئی بھی دو ملک آپس میں کسی بھی سطح پر رابطہ کر سکتے ہیں اور ان کے درمیان ملاقات و مذاکرات کا اہتمام ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ پاکستان نے اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور اسرائیل کے بارے میں پاکستان عوام کے جذبات میں شدت و حساسیت پائی جاتی ہے، اس لیے اس ملاقات کو خلاف معمول قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے کہ اتنا بڑا قدم پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر اٹھایا گیا ہے اور متحدہ مجلس عمل نے اس ملاقات کے خلاف یوم احتجاج بھی منایا ہے جس کے تحت ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔

جبکہ دوسری طرف حکمران مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے یہ کہہ کر اس ملاقات کا جواز پیش کیا ہے کہ اگر یہودی عورتوں کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے تو ان کے ساتھ ملاقات و مذاکرات کیوں نہیں ہو سکتے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم جناب شوکت عزیز نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا اور ایسا جب بھی ہوگا، پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس کو اس کا دارالحکومت قرار دیے جانے تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ادھر بین الاقوامی پریس میں یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ ماہ رواں کے دوران میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف اور اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے درمیان ملاقات کا امکان بھی موجود ہے۔

متحدہ مجلس عمل کے سربراہ قاضی حسین احمد نے اس پیشرفت کو اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کی طرف پہلا قدم قرار دیا ہے جبکہ دوسری طرف بہت سے دانشوروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ اسرائیل کے تیزی سے بڑھتے ہوئے تعلقات کے پس منظر میں توازن قائم کرنے کے لیے یہ رابطے ضروری ہیں اور فلسطین کی ریاست کے قیام کے سلسلے میں کسی مؤثر کردار کی پوزیشن میں آنے کے لیے بھی پاکستان کا اسرائیل کے ساتھ رابطہ قائم کرنا ضروری ہے۔

اس ملاقات کا ایک قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ ہجری سال کے اعتبار سے یہ ملاقات ۲۷ رجب کو ہوئی ہے جسے محض اتفاق قرار دینا بہت مشکل ہے۔ ۲۷ رجب کو اسلامی تاریخ میں یہ اہمیت حاصل ہے کہ اس کی شب کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج و اسرا کے اعزاز سے نوازے گئے تھے اور اسلامی عقیدہ کے مطابق حضرت محمدؐ کو اللہ تعالیٰ نے اس شب ساتوں آسمانوں، عرش و کرسی اور جنت و دوزخ کے بہت سے مناظر دکھانے کے علاوہ بیت المقدس میں حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت کے منصب پر فائز فرمایا تھا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرمؐ جب حضرت جبریلؑ کے ہمراہ بیت المقدس پہنچے تو حضرات انبیائے کرامؑ سب کے سب وہاں جمع تھے اور صفیں باندھے ہوئے نماز کی امامت کے لیے کسی کے آگے بڑھنے کا انتظار کر رہے تھے۔ حضرت جبریلؑ نے نبی اکرمؐ کا ہاتھ پکڑ کر انھیں مصلے پر کھڑا کر دیا اور آنحضرتؐ نے حضرات انبیائے کرامؑ کی امامت کے فرائض سرانجام دیے جس پر انھیں ”امام الانبیاء“ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ بیت المقدس کا ہے اور اسرائیل کے ساتھ عالم اسلام کے تنازع میں مرکزی حیثیت بیت المقدس کو ہی حاصل ہے، اس لیے یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کا اہتمام اس روز ہوا۔

پاکستان کے حکمرانوں کے بارے میں ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انھیں اس دن کی اہمیت کا علم نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان سمیت مسلم دنیا کے اکثر حکمران اپنی دینی روایات سے باخبر نہیں ہوتے، بلکہ اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ کسی مسلم ملک میں حکمرانی کے منصب پر فائز ہونے والا شخص اسلام کی مذہبی اور دینی روایات سے بے خبر اور لاتعلق ہی رہے، البتہ اسرائیل کے حکمرانوں کے بارے میں یہ بات تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ وہ اسلامی روایات سے اس درجہ بے خبر ہوں گے اور انھوں نے اس ملاقات کے لیے ۲۷ رجب کا انتخاب محض اتفاق سے ہی کر لیا ہوگا۔ بہرحال اس میں المیہ کا یہ پہلو ہمارے نزدیک ضرور موجود ہے، اگر پاکستان کے حکمرانوں کو اس دن کی دینی اہمیت کا علم نہیں ہے تو یہ افسوسناک بات ہے اور اگر علم ہونے کے باوجود یہ دن اس ملاقات کے لیے منتخب کیا گیا ہے تو افسوس کا یہ پہلو اور بھی زیادہ گہرا اور المناک ہو جاتا ہے۔ ملاقات کی ضرورت و اہمیت پر گفتگو ہو سکتی ہے اور حالات کے مطابق اس کو کسی حد تک گوارا بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن زندہ قومیں ایسے امور کے لیے دنوں اور اوقات کا اہتمام سوچ سمجھ کر کیا کرتی ہیں جیسا کہ اسرائیل نے کیا ہے، اور غافل قومیں اپنی روایات و اقدار سے ایسے مواقع پر بالکل بے گانہ ہو جایا کرتی ہیں جیسا کہ ہماری طرف سے اس کا اظہار ہوا ہے۔

اس ملاقات کے حوالے سے دو باتیں اور بھی ہمارے خیال میں توجہ طلب ہیں۔

  1. ایک بات یہ کہی جا رہی ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان دو طرفہ طور پر کوئی تنازع نہیں ہے، اس لیے ان دونوں کے درمیان روابط اور سفارتی تعلقات کے قیام میں کوئی حرج نہیں ہے۔

    اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان بیت المقدس اور فلسطینی عوام کی مظلومیت کو براہ راست اپنا مسئلہ نہیں سمجھتا اور اسے صرف عربوں کے حوالے سے دیکھتا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے اور نہ صرف پاکستان کے اسلامی تشخص اور دستور پاکستان کی تصریحات کی نفی کے مترادف ہے بلکہ پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کے دینی جذبات کی توہین بھی ہے۔ بیت المقدس دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کی طرح پاکستان کے مسلمانوں کا بھی قبلۂ اول ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کے مسلمانوں کی عقیدت اسی طرح ہے جیسے دنیا کے دیگر مسلمانوں کی ہے۔ اس لیے بیت المقدس کے مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن جانے کو پاکستان کا براہ راست مسئلہ نہ سمجھنا اور اس کی موجودگی میں یہ کہنا کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی دو طرفہ تنازع موجود نہیں ہے، حقائق کا انکار ہے اور اس ’’علاقائی نیشنلزم‘‘ کے منفی ثمرات میں سے ایک ہے جو مسلمانوں پر خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے ساتھ مسلط کی گئی تھی اور جس کے گورکھ دھندے میں الجھ کر دنیا بھر کے مسلمان ایک دوسرے سے لاتعلق اور بے گانہ ہوتے جا رہے ہیں۔

    جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو جسد واحد سے تعبیر فرمایا تھا اور اسلام کو پوری نسل انسانی کا مذہب قرار دے کر رنگ، نسل، علاقہ اور زبان کی تفریق سے بالاتر امت کی عملی شکل دنیا کے سامنے پیش کی تھی، مگر ہم مغرب کی پیروی میں پھر اس مقام سے نیچے اتر کر رنگ، نسل، علاقہ اور زبان کی قومیتوں کے دائرے میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ مغرب کی تو مجبوری ہے کہ مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبرداری کے بعد اس کے پاس اجتماعیت اور معاشرت کی کوئی مشترکہ اساس باقی نہیں رہ گئی، اس لیے اسے نیشنلزم کے دائروں کا سہارا لینا پڑا۔ مگر ہمارے لیے مغرب کی پیروی ہی مجبوری اور پاؤں کی زنجیر بن گئی ہے اور ہمارے پاس علاقائی قومیتوں میں بٹے رہنے کا یہی ایک جواز ہے کہ چونکہ مغرب میں ایسا ہو رہا ہے اس لیے ہمیں بھی یہی کرنا ہے۔ اس کے سوا دنیا بھر کے مسلمانوں کے مسائل اور حالات سے لاتعلق ہونے کا ہمارے پاس اور کوئی جواز موجود نہیں ہے۔

  2. دوسری بات بھی اسی سے متعلق ہے کہ پاکستان کے مفادات اور نفع و نقصان کے تمام دائروں کو صرف اور صرف جنوبی ایشیا کی حدود کا پابند کیا جا رہا ہے اور حالات کے جبر نے ہمارے نفع نقصان کا صرف ایک ہی معیار قرار دے دیا ہے کہ بھارت کے ساتھ معاملات کی نوعیت کیا ہوگی۔ ہم نے افغانستان پر فوج کشی کے لیے امریکہ کو اسٹرٹیجک سہولتیں فراہم کیں، اس لیے کہ اگر ہم نہیں کریں گے تو بھارت ایسا کر گزرے گا، اور اب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے آغاز کے لیے بھی یہی دلیل سب سے زیادہ وزنی سمجھی جا رہی ہے کہ بھارت کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات میں توازن لانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

    جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کے توازن کے ساتھ ساتھ عالمی تعلقات اور اثر و رسوخ میں توازن کا موجود ہونا اور اس کا اہتمام کرنا ہماری ضرورت ہے اور ہمیں اس ضرورت سے انکار نہیں ہے، لیکن اسے عالم اسلام اور مسلمانوں کے اجتماعی مسائل سے لاتعلق ہونے کا جواز قرار دینے میں ہمیں کلام ہے اور ہم اس فلسفہ اور فکر کو درست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پھر بھارت کے ساتھ ہمارے تنازع کی بنیاد کیا ہے؟ ہم نے متحدہ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے نام سے الگ ملک کے قیام کی بنیاد اسلام پر رکھی تھی اور مسلمانوں کی جداگانہ تہذیب و معاشرت کے تحفظ اور سوسائٹی میں اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ و عملداری کو پاکستان کے وجود کی واحد وجہ جواز قرار دیا تھا۔ اس لیے اگر عالمی سطح پر اسلام کا یہ کردار قابل تسلیم نہیں ہے تو صرف جنوبی ایشیا کی حد تک اسلام کے اس کردار کو پاکستان کے وجود و بقا کے لیے وجہ جواز قرار دینا بھی بہرحال محل نظر ہو کر رہ جائے گا اور پاکستان خدانخواستہ اپنے وجود کے جواز سے محروم ہو جائے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter