دہشت گردی اور فوجی عدالتیں

   
تاریخ : 
فروری ۲۰۱۵ء

دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ’’سانحہ پشاور‘‘ نے ایک نیا رخ دے دیا ہے اور اس کے لیے قومی سطح پر اقدامات کو منظم کرنے کی طرف پیش رفت جاری ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ ماہ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی دینی و سیاسی جماعتوں کے متحدہ محاذ ’’مجلس علماء اسلام پاکستان‘‘ کی سپریم کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں راقم الحروف بھی شریک تھا۔ اجلاس میں مولانا فضل الرحمن کی طرف سے دی گئی بریفنگ بہت معلوماتی اور فکر انگیز تھی جس کی روشنی میں سپریم کونسل نے اپنی حکمت عملی اور طریق کار کا تعین کیا ہے۔ اس میں یہ بات سر فہرست ہے کہ ہم دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے قومی یک جہتی کا حصہ ہیں، ملک کی دینی و سیاسی قیادت کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس میں بھرپور کردار ادا کریں گے، مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا۔

مثال کے طور پر اس طرف توجہ دلائی گئی کہ امریکہ کے تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن نے سالہا سال قبل یہ کہا تھا کہ اس کے تجزیہ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں سلفی اور جنوبی ایشیا میں دیوبندی مسلک کے لوگ مذہبی انتہا پسندی کے علمبردار ہیں اور دینی مدارس اس کے مراکز اور سرچشمے ہیں۔ اور صرف رینڈ کارپوریشن نہیں بلکہ مغربی فلسفہ و ثقافت کی نمائندگی اور تحفظ کرنے والے دیگر بہت سے فکری ادارے بھی مغربی فلسفہ و تہذیب کے فروغ میں سامنے آنے والی رکاوٹوں میں انہی تین ناموں کا تذکرہ سب سے زیادہ کرتے ہیں۔ ان کا یہ تجزیہ زمینی حقائق اور معروضی صورت حال سے کس حد تک مطابقت رکھتا ہے؟ اس کی بحث ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن ان کے اس مسلسل پراپیگنڈے بلکہ وسیع تر لابنگ کے بعد جب پاکستان کے بعض دانش ور، میڈیا کے اینکرز اور مسلکی عصبیت کے دائرے میں سیاست کرنے والے مذہبی راہ نما دہشت گردی کی اس جنگ میں دیوبندیت اور دینی مدارس کو ٹارگٹ کرنے کی بات کرتے ہیں تو رینڈ کارپوریشن اور دیگر مغربی اداروں کی یہ رپورٹیں پھر سے ذہنوں میں تازہ ہو جاتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان رپورٹوں کی بنیاد پر قومی پالیسی کو مخصوص رخ دینے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ابہام اور شکوک و شبہات کی ایک تہہ اور چڑھ جاتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر کسی بھی مسئلہ کے معروضی پس منظر اور منطقی نتائج پر حقیقت پسندانہ غور کرنے کی بجائے اس مسئلہ سے شخصی، گروہی اور طبقاتی مفادات حاصل کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس کا دائرہ صرف سیاست یا مذہب کی حد تک محدود نہیں ہوتا بلکہ معاشرہ کی ہر سطح پر یہ بیماری ہماری رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہیں، حتی کہ بالکل نچلی سطح پر عام دیہاتی ماحول میں بھی اگر کوئی تنازعہ ہوتا ہے اور ہم قانونی کاروائی کے لیے ایف آئی آر درج کراتے ہیں تو ہماری ترجیحات میں یہ بات سر فہرست ہوتی ہے کہ اس کیس میں مخالفین میں سے کس کس کو پھنسایا جا سکتا ہے، اور دوسری طرف سے اس مقدمہ کی پیروی کرنے والوں کو اس میں کیسے باندھا جا سکتا ہے۔ ملک کے کسی بھی حصہ میں تھانوں میں درج ہونے والی ایف آئی آرز کا جائزہ لیا جائے تو ان میں نوے فی صد کے لگ بھگ رپورٹوں میں یہی ذہنیت کار فرما دکھائی دے گی۔ یہی ذہنیت پھر مذہبی اور سیاسی تنازعات میں بھی ہر سطح پر ہمارے تنازعات اور معاملات کے لیے اولین ترجیح قرار پاتی ہے۔

ماضی میں اس سے قبل قائم ہونے والی فوجی عدالتوں اور احتسابی اداروں کے بارے میں ایک دوسرے سے یہی شکایت چلی آرہی ہے کہ انہیں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور بہت سے معاملات میں سے یہ شکایت صرف الزام کی حد تک محدود نہیں ہے۔ اس لیے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات بلا تفریق ہونے چاہئیں اور ان میں سے کسی مسلک، جماعت اور دینی یا سیاسی حلقے کے خلاف انتقامی کاروائی اور کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف جانبداری کا تاثر نہیں ملنا چاہیے۔ اگر ہمارے قومی، سیاسی اور عسکری راہ نما دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اس فیصلہ کن مرحلہ پر اپنی مشترکہ پالیسی کے تعین میں ان تحفظات کو سامنے رکھ کر قومی اتفاق رائے کے ساتھ آگے بڑھ سکیں تو نہ صرف یہ کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ مؤثر اور نتیجہ خیز ہوگی بلکہ قومی وحدت، یک جہتی، ہم آہنگی اور باہمی اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا، جو آنے والے حالات میں پہلے سے کہیں زیادہ ہم سب کی مشترکہ ضرورت ہوگی۔

اس ضمن میں مدرسہ اور دہشت گردی کے حوالے سے دو باتوں کی طرف اشارہ کرنا مناسب محسوس ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ جن افراد یا گروہوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے، ان کی بڑی تعداد مدرسہ کی بجائے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعلیم یافتہ ہے۔ عالمی سطح اور قومی سطح پر دہشت گردی کے عنوان سے معروف بیشتر شخصیات کا دینی مدرسہ کی بجائے کالج اور یونیورسٹی سے تعلق ہے، لیکن سارا نزلہ دینی مدرسہ پر گرایا جا رہا ہے۔ دینی مدارس کے بہت سے افراد مسلح تحریکوں میں شامل ہوئے ہیں مگر انہیں اس کی ٹریننگ مدرسہ نے نہیں دی، اور نہ ہی مدرسہ کے پاس اس کے وسائل اور اسباب موجود ہیں۔ یہ تلاش کیا جائے کہ ٹریننگ دینے والا کون ہے، اور مسلح تحریکوں میں شریک ہونے والوں میں دوسرے تعلیمی اداروں کے افراد کا تناسب کیا ہے۔

ہمارے خیال میں دینی حلقوں کو دہشت گردی کے اسباب کے تعین کے لیے اعلیٰ سطحی قومی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرنا چاہیے جو دہشت گردی کی تعریف واضح کرے، جہاد، تحریک آزادی اور دہشت گردی کی حدود متعین کرے، اور اس کے سدباب کے لیے تجاویز اور سفارشات مرتب کرے۔ اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں، ریٹائرڈ جرنیلوں، دینی مدارس کے ذمہ دار نمائندوں اور ممتاز وکلاء پر مشتمل ایک پرائیویٹ کمیشن بھی قائم کیا جا سکتا ہے جو اس خلا کو پر کرے اور قوم کو اس کنفیوژن سے نکالے۔ اس کے بغیر دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوئی بھی کاروائی شکوک و شبہات اور تحفظات و اعتراضات سے پاک نہیں ہوگی۔

دوسری بات یہ کہ خود حکومت پاکستان نے اب تک باسٹھ گروہوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ان باسٹھ تنظیموں کی فہرست قومی پریس کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ ان میں مذہب کے نام پر دہشت گردی کے مرتکب گروہ بھی شامل ہیں، لسانیت اور قومیت کے عنوان سے مسلح کارروائیاں کرنے والے گروہ بھی موجود ہیں، اور دولت کے لیے یرغمال بنا کر دہشت پھیلانے والوں اور قتل و غارت کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ ان میں سے صرف مذہبی افراد کو فوجی عدالت میں پیش کرنا اور باقی سب گروہوں کو اس دائرے سے خارج کر دینا نہ صرف یہ کہ نا انصافی ہے بلکہ قومیت، لسانیت، لوٹ مار اور دیگر مقاصد کے لیے دہشت گردی کرنے والوں کو کھلی چھٹی اور جواز فراہم کر دینے کے مترادف ہے۔ اس پر ہر محب وطن شخص کو آواز اٹھانی چاہیے اور اسے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter