امریکی سفارت خانہ کی القدس منتقلی اور فلسطینیوں پر وحشیانہ تشدد

   
تاریخ : 
جون ۲۰۱۸ء

امریکہ نے بالآخر بیت المقدس شہر میں اپنا سفارت خانہ قائم کر دیا ہے اور فلسطینیوں پر اسرائیلیوں کے تشدد کی تازہ ترین کارروائی بھی اسی روز ہوئی ہے جس دن یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کی باقاعدہ منتقلی ہوئی کہ اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ اقدام پر احتجاج کرنے والے مظلوم فلسطینیوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ بیت المقدس شہر خود اقوام متحدہ کے فیصلوں اور قراردادوں کے مطابق متنازعہ ہے اور اس کی مستقل حیثیت کا فیصلہ ابھی ہونا ہے، مگر امریکہ نے بین الاقوامی فیصلوں اور عالمی رائے عامہ کو مسترد کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل کر کے یکطرفہ فیصلہ نہ صرف فلسطینیوں پر بلکہ پوری دنیا پر مسلط کر دیا ہے جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔

استنبول میں او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کے ہنگامی اجلاس میں امریکہ کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مسلم ممالک کے نمائندوں نے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کی ہے اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ امریکی سفارت خانہ کی القدس منتقلی مجرمانہ اقدام ہے، اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہے۔ او آئی سی کے اجلاس کے شرکاء کا کہنا ہے کہ ہم سفارت خانے کی منتقلی مسترد کرتے ہیں، القدس کی تاریخی و قانونی حیثیت کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے، سلامتی کونسل امریکی پشت پناہی میں اسرائیلی قبضہ کے لیے شیلڈ فراہم کر رہی ہے ، عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ادھر پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ نے متفقہ قراردادوں کے ذریعے فلسطینی عوام پر اسرائیل کے حالیہ وحشیانہ تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ کی القدس منتقلی کو مسترد کر دیا ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، جبکہ پاکستان کے متعدد دینی و سیاسی حلقوں نے بھی اس اقدام پر شدید احتجاج اور مظاہرے کیے ہیں۔

امریکہ ایک عرصہ سے اس کوشش میں تھا کہ اپنا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل کر کے اس پر اسرائیل کے جارحانہ قبضہ کو اپنی طرف سے سند جواز فراہم کر دے، مگر صدر ٹرمپ سے قبل کسی امریکی صدر کو اس کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ موجودہ صدر ٹرمپ تمام حدوں کو کراس کرتے ہوئے یہ کام کر گزرے ہیں اور عالمی رائے عامہ کی مخالفت کے باوجود اپنے اس فیصلے پر نہ صرف قائم ہیں بلکہ اسرائیل کی جارحانہ حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے اور بھی بہت کچھ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

جہاں تک عالم اسلام کے حکمرانوں کی طرف سے اس امریکی اقدام کی مخالفت، اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے مختلف اقدامات و اعلانات کی بات ہے وہ خوش آئند ہونے کے باوجود نہ صرف ادھورے ہیں بلکہ اس قسم کے سابقہ بہت سے اعلانات و اقدامات کی طرح وقتی، سطحی اور محض رسمی دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے کہ امریکہ کو عالم اسلام کی طرف سے ان رسمی بیانات اور قراردادوں کے سوا اور کسی ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور اس قسم کے اعلانات کا وہ گزشتہ نصف صدی سے عادی ہے ، اسی لیے اسے ان کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ان حالات میں مسلم حکمرانوں کے طرز عمل کے ساتھ ساتھ ان عرب حکمرانوں کا رویہ اور انداز بھی قابل توجہ اور باعث تشویش ہے جو زبانی طور پر تو فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن ان کی بین الاقوامی پالیسیاں اور ترجیحات مسلسل امریکی ایجنڈا کے تابع دکھائی دیتی ہیں۔ بلکہ امریکہ نے عالم اسلام اور عالم عرب کے لیے جو پروگرام طے کر کے اس کی طرف بتدریج پیشرفت کا اہتمام کر رکھا ہے، دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں اور خاص طور پر عرب حکمرانوں کی طرف سے اس پروگرام کے حوالہ سے بیت المقدس کے تحفظ کے ساتھ ساتھ حرمین شریفین کے تقدس کے تحفظ اور مشرق وسطی کی نئی مبینہ جغرافیائی تقسیم کو روکنے کی کوئی حکمت عملی ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ حتٰی کہ عالمی منظر میں امریکی اقدامات کی حمایت کو دیکھتے ہوئے اسرائیلی اور امریکی عزائم کی روک تھام کے لیے مستقبل میں بھی کسی سنجیدہ کاروائی کی مسلم اور عرب حکمرانوں کی طرف سے توقع محسوس نہیں ہو رہی، جو پورے عالم اسلام کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

ہم اس موقع پر مسلم اور عرب حکمرانوں سے یہ گزارش کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ وہ زبانی جمع خرچ اور رسمی بیانات سے آگے بڑھیں اور عالم اسلام اور مشرق وسطی کے بارے میں امریکی و اسرائیلی عزائم کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس لائحہ عمل طے کریں کہ اس کے سوا اب ان کے لیے کوئی راستہ باقی نہیں رہا اور انہیں یہ کام آج یا کل بہرحال کرنا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter